اردوسائبر رسم الخط کا یونی کوڈ میں مقام

محمد احتشام الحسن مجاہد
ہرکسی کے ذہن میں کبھی نہ کبھی یہ خیال ضرور آتا ہوگا کہ جہاں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بسنے والے انسان ایک دوسرے سے رابطے اور گفتگو کیلئے مختلف زبانوں کا استعمال کرتے ہیں جن میں چینی ‘ انگریزی‘ عربی‘ اسپینی‘فرانسیسی‘فارسی کے علاوہ ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں ہندی‘ تلگو‘ پنچابی‘ گجراتی‘ ٹامل‘ کنڑا‘بنگالی‘ملیالی اور مراٹھی سے قطع نظر پاکستان کی علاقائی زبانوں میں سندھی‘پشتو‘بلوچ اورشینا قابل ذکر ہیں اور جب دنیا میں سینکڑوں زبانیں بولی اور لکھی جارہی ہیں اور تمام زبانوں کا رسم الخط بھی مختلف ہے تو پھر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مجوعی شکل سائبر ٹکنالوجی پر ان تمام زبانوں کا رسم الخط کس طرح ظاہر ہوتاہے؟کیا کمپیوٹر کو دنیا کی تمام زبانیں آتی ہیں؟اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ کمپیوٹر کو دنیا کی کوئی زبان نہیں آتی بلکہ اس کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے اور وہ اسی زبان کی مدد سے دنیا کی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرچکا ہے۔مختلف ہارڈ ویر آلات کو جوڑتے ہوئے جب کمپیوٹر کا ظاہر ڈھانچہ تیارکرلیا جاتا ہے تو اس ڈھانچہ میں جوڑے گئے تمام آلات کے درمیان رابطہ کو یقینی بنانے کے لئے ایک مخصوص زبان درکار ہوتی ہے۔کمپیوٹرمیں استعمال ہونے والی زبانیں3 زمرے میں منقسم کی جاتی ہیں  جوکہ ’’ابتدائی، درمیانی اور اعلیٰ سطحی زبانیں‘‘ ہیں۔کمپیوٹر میں ابتدائی مرحلے کی جو زبان استعمال ہوتی ہے اسے مشینی زبان یا مشینی لینگویج کہا جاتا ہے اور اس سطح پر دنیا کے تمام کمپیوٹرس بائنری لینگویج استعمال کرتے ہیں اور بائنری زبان میں حروف تہجی صرف 2 یعنی صفر اور ایک (0,1) ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ دو حروف تہجی ہے جن کی بدولت کمپیوٹر دنیا کی تمام زبانوں کو اپنی مشینی زبان میں تبدل کرلیتا ہے اور صارف کی جانب سے حاصل ہونے والے تمام احکامات کو بغیر کسی غلطی کے اسکرین پر ظاہر بھی کرتاہے۔ابتداء میں مختلف زبانوں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر ظاہر کرنے کے لئے مختلف تکنیکس استعمال کی جاتی تھیں جیسا کہ صرف انگریزی زبان کو اسکرین پر ظاہر کرنے کے مختلف تکنیکس جن کو ’’ان کوڈنگ‘‘کہا جاتا ہے وہ موجود تھیں لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ جب ایک کمپیوٹر پر تحریر کردہ متن کسی دوسرے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے بعد جب وہاں اس تحریر کو اسکرین پر ظاہر کیا جاتا تو اس کا رسم الخط اپنی اصلی شکل میں ظاہر نہ ہونے کے علاوہ الفاظ میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی تھی ۔ان مسائل کے بعد یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ کمپیوٹر پر دنیا کی تمام زبانوں کے رسوم الخط کو انکی اصلی ہیئت ‘صورت وشکل میں ظاہر کرنے کے لئے ایک مشترکہ نظام یا تکنیک ہونی چاہئے اور اس ضرورت نے ایک مشترکہ نظام ’’یونی کوڈ(uni code)‘‘ کی بنیاد ڈالی۔یونی کوڈ ایک ایسا نظام ہے جو کسی بھی کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹم یا کمپیوٹر پروگرام میں تمام زبانوں کے ہر ایک حرف تہجی ‘ علامت اور ایموجی کو ایک خاص عدد مہیا کرتا ہے۔ کمپیوٹر ٹکنالوجی اس خاص عدد سے مراد صرف وہی حرف لے گی جو یونی کوڈ میں ترتیب دئے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو کے حرف ‘‘ب’’ کو 0628 عدد دیاگیا ہے اب کسی بھی کمپیوٹر میں 0628 یونی کوڈ قدر (unicodevalue) سے مراد حرف ‘‘ب’’ ہی لیا جائے گا۔حقیقت میں کمپیوٹر صرف اعداد کو ہی سمجھتا ہے۔ کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والے حروف، الفاظ، تصاویر اور باقی سب کے در پردہ کمپیوٹر اعداد کا ایک پیچیدہ  نظام ہے اور اس نظام کو کمپیوٹر اصطلاح میںبائنری نمبر (Binarynumber) کہا جاتا ہے۔1980ء میں زیراکس کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے اسٹار ورک اسٹیشن (کمپیوٹر) میں یونی کوڈ کے شواہد موجود تھے لیکن 1987 ء میں زیراکس اور دوسری بڑی کمپنی ایپل کے درمیان ان کے انجینئرس جیوبیکر، لی کولنس اور مارک ڈیویس نے ایک پراجکٹ شروع کیا تاکہ دنیا کے تمام کمپیوٹرس کو ایک مشرکہ نظام کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ 1988ء کے اوائل اس پراجکٹ کے تحت 3 اہم زمروں کی تحقیقات مکمل ہوئیں جس میں اس ضرورت اور افادیت کو پیش کردیا کہ دنیا بھر کے کمپیوٹرس پر تحریر کئے جانے والے رسوم الخط کو من و عن دوسرے کمپیوٹر کی اسکرین پر ظاہر کرنے کے لئے یہ یونی کوڈ نظام نہ صرف انتہائی ضروری ہے بلکہ یہی وہ نظام ہے جس کی بدولت کمپیوٹرس کو دنیا بھر کی زبانوں سے روشناس کروایا جاسکتا ہے۔ یونی کوڈ کو اس وقت مزید وسعت ملنی شروع ہوگئی جب ایپل اور زیراکس کے بعد مائیکرو سافٹ، اوراکل، ایس اے پی، سن، ایچ پی، فیس بک، گوگل اور یونیسیس نے بھی اس قافلے میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر ایک ایسی اسوسی ایشن بنائی گئی جو کہ یونی کوڈ میں مسلسل نئی تبدیلیوں اور دنیا بھر کی زبانوں میں موجود رسوم الخط کو کمپیوٹر سے جوڑنے کے لئے نئی نئی ایجاد کررہی تھی۔ اس اسوسی ایشن کو یونی کوڈ کنسورشیم کہا جانے لگا ۔ یونی کوڈ کنسورشیم کا1991 میں قیام عمل میں آیا اور اس امریکی تنظیم کے بانی مارک ڈیوس ہیں ۔ منافع کے بغیر خدمات انجام دینی والی یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑی کمپنیوں کو اپنی رکنیت فراہم کرنے کے علاوہ ان کی جانب سے دنیا کی مختلف زبانوں کے رسم الخط کو کمپیوٹر کے اسکرین پر بغیر کسی کمی و پیشی کے ظاہر کرنے میں جو سافٹ ویر تیار کئے جاتے ہیں اسے یونی کوڈ کے معیار پر جانچنے کے بعد اسے اس نظام میں شامل کرتی ہے۔ یونی کوڈ کا باضابطہ پہلا ورژن 1.0.0  اکتوبر 1991ء کو جاری کیا گیا تھا جس میں 24 اسکرپٹس (رسوم الخط) شامل تھیں جبکہ اس کا سب سے جدید ترین ورژن 9 جون2016 کو جاری کیا گیا ہے جس میں 135 رسوم الخط موجود ہیں۔یونی کوڈ میں دنیا کی ہر زبان کو ایک مختلف نظام فراہم کرنے کی بجائے زبان کے رسم الخط کو ترجیح دی گئی یہ ہی وجہ ہے کہ یونی کوڈ میں اردو کے لئے علحدہ نظام نہیں بلکہ یہ عربی رسم الخط کا جو نظام ہے اسی نظام میں شامل ہے۔اس کی مثال یہ ہے اگر ہم ایک لفظ’’نور النساء‘‘ کمپیوٹر اسکرین پر ٹائپ کریں تو کمپیوٹر ٹکنالوجی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی کہ یہ لفظ عربی کی تحریر ہے یا اردو کی تحریر ہے بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ صارف کی جانب سے اسکرین پر جن حروف کوظاہر کرنے کا حکم ملا ہے اس میں ’’ن‘ و ‘ ر ‘ ا‘ ل ‘ ن ‘ س‘ ا ۔ اور ء‘‘ حروف موجود ہیں اور کمپیوٹر ان ہی حروف کو اسکرین پر ظاہر کردے گا۔ اس کے بعد اب قاری اگر اس کو اردو تحریر کی شکل میں پڑھے گا تو وہ اسے ایک خاتون کا نام سمجھے گا جبکہ عربی زبان کے قاری کے لئے یہ لفظ ’’عورتوں کا نور‘‘ ہوگا۔اس مثال سے ظاہر ہوگیا کہ یونی کوڈ میں دنیا کی مختلف  زبانوں کی بجائے ان کے رسوم الخط کو ترجیح دی گئی ہے۔اردو کے علاوہ چونکہ فارسی کا رسم الخط بھی عربی سے ماخوذ ہے لہذا یونی کوڈ نظام میں اردو رسم الخط عربی رسم الخط کے نظام کے تحت ہی لکھا جاتا ہے۔