اذان ، اوراد سے قبل تعوذ اور درود پڑھنا

سوال : (1) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو یا نام نامی آئے تو ذکر کرنے والے اور سننے والے صرف درود پرھنا چاہئے یا اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود پڑھنا چاہئے ؟ مسنون طریقہ کیا ہے ؟
(2) پنج وقتہ نمازوں میں اعوذ باللہ ، بسم اللہ پڑھ کر پھر درود و سلام پڑھ کر اذان و اقامت کہنا سنت ہے کیا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اذان دینے کی تعلیم فرمائے ہیں کیا ؟ خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، ہمارے امام ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ و حضرت بلال رضی اللہ عنہ پنج وقتہ نمازوں میں اذا ن و اقامت سے پہلے اعوذ باللہ ، بسم اللہ اور درود و سلام پڑھتے تھے یا نہیں ؟
محمد جہانگیر، کشن باغ
جواب : بفحوائے آیت قرآنی فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرحیم (جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو تم شیطان سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاؤ ) تلاوت قرآن کے آغاز سے قبل تعوذ پڑھنے کا حکم ہے ۔
قرآن مجید کے علاوہ دیگر اذکار و اوراد کے لئے تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم) ، پڑھنے کا حکم نہیں۔ نیز ہر کام اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک سے کرنا چاہئے ۔ حدیث شریف میں ہے جو بھی کام بغیر بسم اللہ کے شروع کیا جائے تو وہ نامکمل ہے۔ اس لئے ہر کارخیر و مباح کام سے قبل بسم اللہ پڑھنا چاہئے ۔
یایھاالذین آمنو صلو علیہ وسلموا تسلیما ( اے ایمان والو ! تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو اور خوب سلام پڑھو ۔ اس آیت میں درود و سلام پڑھنے کا حکم مطلق اور عام ہے ۔ انفرادی طور پر اجتماعی طور پر بیٹھ کر حالت قیام میں پڑھ سکتے ہیں لیکن عہد رسالت و قرونِ اولیٰ میں اذان سے قبل تعوذ و تسمیہ اور درود و سلام جھراً پڑھنا ثابت نہیں۔ اس لئے اذان سے قبل بسم اللہ اور درود پڑھیں تو آہستہ پڑھیں ۔ جہر سے سنانے کا ثبوت نہیں۔

عذاب قبر اور شب جمعہ انتقال
سوال : میری والدہ کا انتقال شب جمعہ ہوا اور ان کی نماز جنازہ جمعہ میں ادا کی گئی ۔ کئی پرسہ دینے والوں نے مجھے تسلی دی کہ جمعہ کے دن جن کا انتقال ہوتا ہے ان کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ کیا حساب و کتاب سے پہلے قبر میں عذاب دیا جانا ثابت ہے ؟ میری دعائیں اور استغفار سے میری مرحومہ ماں کو کچھ فائدہ ہوگا یا نہیں ۔ ان سوالوں کا جواب جلد سے جلد دیں تو مجھ کو اطمینان ہوگا ؟
مرتضی علی خان، مراد نگر
جواب : ارشاد الٰہی ہے: ’’ النار یعرضون علیھا غدواً و عشیاً و یوم تقوم الساعۃ ادخلوا آل فرعون اشد العذاب ‘‘ (المومن 46/40 ) یعنی ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جائے گا اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔ اس آیت پاک میں قیامت سے قبل صبح و شام عذاب دیئے جانے کا ذکر ہے ۔ اس سے فقہاء کرام نے عذاب قبر حق ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام اپنے لئے اور مرحوم والدین اور عام مسلمانوں کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام سے منقول ہے۔ ’’ رب اغفرلی ولو الدی ولمن دخل بیتی مؤمناً و للمؤمنین والمؤمنات‘‘ (نوح 28/71 ) تفسیر روح البیان میں سورہ الحشر 10/59 کے ضمن میں ہے ۔ قبر میں عذاب دیا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ درندے ان کی چیخ و پکار سنتے ہیں۔ (دیکھئے : الترغیب والترھیب ‘‘ ج : 2 ، ص : 361 )
ایک یہودن بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئی اور عذاب قبر کا ذکر کی اور کہنے لگی ’’ اعاذک اللہ من عذاب القبر‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے بچائے رکھے ۔ جب وہ خاتون چلے گئیں تو بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب قبر سے تعلق استفسار کیا تو آپ نے فرمایا ہاں ’’ عذاب القبر حق ‘‘ قبر کا عذاب حق ہے ۔ (صحیح بخاری)۔
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ آپ جہاں جہنم کے عذاب ، دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتے ہیں آپ قبر کے عذاب سے بھی پناہ طلب کرتے۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگا کرتے، اے اللہ ! میں عذاب قبر ، عذاب جہنم ، زندگی و موت کے فتنہ سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں اور میں تجھ سے مسیح دجال کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن نسائی ) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت ہانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ داڑھی تر ہوجاتی، ان سے پوچھا گیا کہ جب آپ جنت اور دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ روتے نہیں اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے جس نے اس سے نجات پائی ، اس کے لئے آئندہ بھی آسانی ہوگی اور جس نے اس سے نجات نہ پائی اس کیلئے آئندہ زیادہ سختی ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، میں نے قبر سے بڑھ کر کوئی ہولناک منظر نہیں دیکھا۔
متذکرہ بالا آیت قرآنی ، احادیث شریفہ ، آثار صحابہ سے ثابت ہے کہ عذاب قبر حق ہے اور اس کا تصور سابقہ تمام ادیان سماویہ میں رہا ہے اور یہ آخرت کی پہلی منزل ہے ۔ انسان جو عمل دنیا میں کرے گا تو قبر میں اس کے آثار و نتائج حساب و کتاب سے پیشتر ظاہر ہوں گے ۔ مزید برآں احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا شب جمعہ انتقال کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبر کے فتنہ سے محفوظ رکھتا ہے ۔ جیسا کہ الترغیب و ا لترھیب ج : 4 ، ص : 373 میں ہے ’’ عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال مامن مسلم یموت یوم الجمعۃ او لیلۃ الجمعۃ الا و قاہ اللہ من فتنۃ القبر ‘‘۔
ملا علی قاریؒ کے مطابق جمعہ یا شب جمعہ انتقال کرنے والے کو مطلقاً قبر میں نہ سوالات ہوں گے اور نہ عذاب ہوگا ۔ جیسا کہ مرقات المفاتیح جلد 3 صفحہ 242 باب الجمعہ میں ہے ۔ ای عذابہ و سوالہ وھو یحتمل الا طلاق و ا لتقید والاول ھو الاولی بالنسبۃ الی فضل المولی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد تدفین ، میت کے لئے دعاء مغفرت کرنے کا حکم فرمایا ’’ استغفرو الاخیکم و اسالو الہ التثبت فانہ الان یسئل ‘‘ (سنن ابی داؤد) تم اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو اور ثبات قدمی کی دعاء کرو کیونکہ اب اس سے سوال کئے جارہے ہیں ۔ یعنی قرآنی آیات میں مرحوم مومنین خصوصاً والدین اور اساتذہ کرام کے لئے دعاء رحمت و مغفرت کرنے کے جواز و استحباب پر پر دلیل موجود ہے۔

جمائی کو روکنے کا مجرب طریقہ
سوال : میں نے کچھ دن قبل ایک خطیب صاحب سے سنا کہ اگر کسی کو جمائی آئے اور وہ اس وقت انبیاء کا تصور کرے تو اس کی جمائی رک جاتی ہے۔ کیا اس کی کوئی دلیل ہے یا صرف یہ ایک مقولہ ہے؟ نیز اگر کسی کو نماز میں جمائی آئے تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
حافظ محمد سلمان، وجئے نگر کالونی
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ہر بھلائی اور خیر کی تعلیم دی اور آپ نے ہر ممکنہ حد تک شر و برائی اور نقصان دہ امور سے بھی باخبر کیا ۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت چھوٹی باتوں کی بھی اپنی امت کو تعلیم دی۔ بالعموم لوگ جس کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ انہی میں سے ایک قابل ذکر مسئلہ جمائی کا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمائی اور چھینک سے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتا ہے۔ ( ان اللہ یحب العطاس) اور اس روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو حتی المقدور روکے کیونکہ وہ شیطان کی جانب سے ہے اور جب وہ (جمائی لیتے ہوئے) ’’ھا‘‘ کہتا ہے تو اس سے شیطان خوش ہوتا ہے (بخاری کتاب الادب ، باب ما یستحب من العطاس و مایکرہ من التثاء ب بروایت ابو ھریرہ) ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جب تم سے کسی کو جمائی آئے تو اس کو حتی المقدور روکے ’’ ھا ھا‘‘ نہ کہے کیونکہ وہ شیطان کی جانب سے ہے وہ اس سے خوش ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مسلمان کو ہر وقت اللہ کا ذکر کرنا چاہئے اور چھینک جسم میں نشاط اور چستی پیدا کرتی ہے اور جمائی سستی اور تھکاوٹ کی علامت ہے۔ جمائی کی ناپسندیدگی کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان امور سے پرہیز کریں جو جمائی کا سبب ہوتے ہیں۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے : اذا تثاء ب احد کم فلیمسک بیدہ علی فیہ (جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ اپنے ہاتھ منہ پر رکھ کر اس کو روکے)
امام ابن ابی شیبہ نے یزید بن الاصم سے مرسل حدیث نقل کی ہے : ماتثا ء ب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قط
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی جمائی نہیں آئی ۔ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب فتح الباری میں نقل کرتے ہیں۔ جمائی کا نہ آنا نبوت کی خصوصیات میں سے ہے اور خطابی نے سلیمہ بن عبدالملک بن مروان کی سند سے تخریج کی ہے ۔ ’’ما تثاء ب نبی قط‘‘ یعنی کسی نبی کو جمائی نہیں آئی۔
بناء بریں کتب فقہ میں منقول ہے کہ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کو جمائی نہیں آتی تھی تو اس کی جمائی روک جائیگی اور امام قدوری نے فرمایا کہ یہ مجرب ہے ۔ ہم نے کئی مرتبہ اس کا تجربہ کیا ہے ۔ ردالمحتار جلد اول کتاب الصلاۃ صفحہ 516 میں ہے : فائدۃ :رأیت فی شرح تحفۃ الملوک المسمی بھدیۃ الصعلوک مانصہ: قال الزاھدی ، الطریق فی دفع التثاء ب : ان یخطر ببالہ ان الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام ماتثاء بوا قط ۔ قال القدوری جربناہ مرارا فوجد ناہ کذلک اھ قلت : و قد جربتہ ایضا فوجدتہ کذا لک۔
اس کتاب کے 695 میں ہے : (والانبیاء محفوظون منہ) قدمنافی آداب الصلاۃ ان اخطار ذلک ببالہ مجرب فی دفع التثاء ب
نماز میں حرکت مخل خشوع ہے اس لئے دورانِ نماز کسی کو جمائی آئے تو وہ ا پنے ہونٹوں کو دانت میں لیکر روکے اور اگر نہ رکے تو اپنے بائیں ہاتھ کی پشت کو اپنے منہ پر رکھے اور اگر وہ قیام کی حالت میں ہو تو کہا گیا کہ سیدھا ہاتھ منہ پر رکھے۔ درمختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول کذب الصلاۃ صفحہ 515 میں ہے: (وامساک فمہ عندالتثاء ب) فائدۃ لدفاع التثاء ب مجرب ولو بأخذ شفتیہ بسنہ (فان لم یقدر غطاہ) ظھر (یدہ) الیسری و قیل بالیمنی لوقائماً والا فیسراہ

مسجد میں قیام کے دوران غسل کا لاحق ہونا
سوال : چند سال بیشتر مجھے حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی ، پہلے ہم عمرہ کئے ، پھر حج سے قبل مدینہ منورہ گئے، مدینہ منورہ میں قیام کے دوران میرا معمول تھا کہ میں تہجد کے وقت مسجد نبوی میں داخل ہوجاتا اور ظہر تک مسجد نبوی ہی میں رہتا، ایک دن فجر کی نماز کے بعد میں سوگیا اور اس دوران مجھے غسل لاحق ہوگیا ۔ میں مسجد نبوی سے نکل کر ہوٹل آیا اور غسل کیا پھر مسجد نبوی کو چلے گیا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ غسل کی ضرورت ہو تو کسی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں اس حالت میں مسجد نبوی جیسی مقدس و متبرک مسجد میں رہا ۔ میں نے اس ضمن میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کی ہے اور نفل نمازیں بھی پڑھی ہے۔ مزید کوئی کفارہ ہو تو بیان کیجئے ۔
نام ندارد
جواب : اگر کوئی شخص مسجد میں سوجائے اور اس کو غسل کی حاجت لاحق ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ تیمم کرلے اور مسجد سے باہر آجائے اگر کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا اور تیمم کے بغیر ہی مسجد سے نکلے اور بعد میں صدق دل سے توبہ کرلے تو انشاء اللہ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا لیکن اس کیلئے کوئی کفارہ نہیں اور ایسی صورت مسجد نبوی میں طاری ہوجائے تو بھی یہی حکم ہے ۔ واضخ رہے کہ اس تیمم سے نماز وغیرہ ادا نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ تیمم محض مسجد کے تقدس و احترام کیلئے ہے۔ رد المحتار جلد اول باب الطھارۃ صفحہ 262 میں ہے : وان احتلم فی المسجد تیمم للخروج اذا لم یخف وان خاف یجلس مع التیمم ولا یصلی ولا یقرأ ویویدہ ماقلناہ ان نفس النوم فی المسجد لیس عبادۃ حتی تیمم وانما ھولا جل مکثہ فی المسجد أو لا جل مشیہ للخروج۔