ادیبوں اور فنکاروں کی ایوارڈس واپسی سے حکومت پریشان

ظفر آغا
آخر ہندوستان کا ضمیر جاگ اٹھا ! ایک نہیں دو نہیں بلکہ درجنوں اور اب تو سو سے بھی زیادہ دانشوروں نے حکومت ہند سے ملنے والے ایوارڈس احتجاجاً حکومت کو واپس کردیئے  ۔اپنے ایوارڈ واپس کرنے والے دانشور کوئی معمولی افراد نہیں ہیں ۔ ان میں مشہور و معروف ادیب ، شاعر ، ناول و افسانہ نگار ، فلمی دنیا کے افراد ، تاریخ داں اور قدآور سائنٹسٹ شامل ہیں ، لیکن ان دانشوروں کو غصہ کیوں آیا ؟خود اپنے اعزاز اور ایوارڈ واپس کرنے والے افراد کے بقول ملک کی موجودہ سیاسی اور سماجی فضا سے پریشان ہو کر انھوں نے اپنے اعزاز واپس کردئے ۔ ملک میں جس طرح ’’نفرت کا ماحول‘‘ پھیل رہا ہے اور جس طرح کچھ انتہا پسند تنظیمیں عدم رواداری کی فضا بنارہی ہیں اس سے گھبراکر ان دانشوروں نے اپنے اعزاز واپس کردئے ۔ آخر وہ ماحول کیا ہے جس نے ان دانشوروں کو پریشان کردیا  ۔ وہ تمام افراد جنھوں نے اپنے اعزاز واپس کئے ہیں اپنے اپنے احتجاجی بیانوں میں دو واقعات کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے ۔ اور وہ واقعات ہیں بنگلور میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں کلبرگی کا قتل اور دادری میں محمد اخلاق کے گھر میں گھس کر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر انھیں موت کے گھاٹ اتار دینا۔ پھر اس کے بعد انتہا پسندوں نے یہاں تک کہ چند مرکزی وزیروں نے جس طرح اس قسم کے واقعات کو صحیح ٹھہرایا اس سے دانشوروں کو نہ صرف غصہ آیا بلکہ انہوں نے حکومت کو احتجاجاً اپنے انعام و اکرام واپس کرنے شروع کردیئے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان دانشوروں کے عمل سے ملک میں پھیلی نفرت کی فضا بدل جائے گی ، بیچارے ادیب اور دانشور کی سنتا کون ہے ۔ لیکن ٹھہریئے ایک ادیب اور ایک دانشور اپنی ذات میں بیچارہ ہوسکتا ہے لیکن وہ جو کچھ لکھتا ہے وہ اکیلی اس کی آواز اور فکر نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ ادیب و دانشور یا شاعر یا پھر ایک محقق جو لکھتا ہے وہ سماج کی آواز ہوتی ہے ۔ بس ان دانشوروں نے جس طرح اپنے اعزاز واپس کئے ہیں ، اس نے نہ صرف حکومت بلکہ پورے ملک کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر ہندوستان کدھر جارہا ہے ۔ کیا اب ہندوستان میں محض کچھ انتہا پسند افراد یہ طے کریں گے کہ ہر ہندوستانی اپنے اپنے گھر میں کیا کھائے گا اور کیا پئے گا ۔ کیا اب ہر ہندوستانی کی فکر پر تالے پڑجائیں گے ؟ اور اگر نہیں تو کیا ہر آزاد فکر ہندوستانی کلبرگی کی طرح قتل کردیا جائے گا ؟ یہ دو سوالات ہیں جو دانشوران ہند نے اپنے احتجاج کے ذریعہ کھڑے کئے ہیں ۔
تو کیا واقعی ہندوستان اس دہشت گردی کے رنگ میں رنگ جائے گا جس میں چند انتہا پسند ہندوستان کو رنگنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہندوستان میں ہرگز ممکن نہیں ہے ۔ انتہا پسند جس طرح ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ ممکن نہیں ہے ۔ آخر یہ کیوں ممکن نہیں ہے ۔ اسی ہندوستان میں بابری مسجد شہید کردی گئی اور گجرات جیسی نسل کشی ہوئی اور ہندوستان خاموش تماشائی بنا رہا ۔ تو پھر اب کلبرگی اور اخلاق جیسے محض دو افراد کی موت پر ہندوستان میں ایسی بات پیدا ہوگئی کہ یہ کہا جائے کہ کل کو ہندوستان ہندو ملک میں تبدیل ہو جائے گا ؟۔ ہندوستان میں سیکڑوں ادیبوں ، شاعروں ، مفکروں ، آرٹسٹوں ، سائنٹسٹوں ، تاریخ دانوں ، فلمی افراد  ،صحافیوں اور ہر ذی شعور نے کلبرگی اور اخلاق کے قتل کی محض مذمت ہی نہیں کی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ایسا احتجاج کیا جو ایک سماجی انقلاب کی شکل میں تبدیل ہوگیا ۔ آج حکومت ہند نادم ہے ۔ اب انتہا پسندوں سے جواب نہیں بن پارہا ہے ۔

ایسے معاشرہ میں dissent یعنی کسی ایک فرد کے خیال یا عقیدے پر نکتہ چینی کی بھی آزادی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ نکتہ چینی تہذیب کے دائرے میں ہو ۔ اگر وہ تہذیب کے دائرے سے باہر ہوجائے تو پھر اسکا شمار انتہا پسندی میں ہوتا ہے جس کو ایک جدید معاشرہ تسلیم نہیں کرتا۔ ہندو معاشرہ نفسیاتی سطح پر ایک جدید معاشرہ ہے یہی سبب ہے کہ اسکے دانشوروں کو کلبرگی اور اخلاق کا قتل اور اس قسم کی انتہا پسندی تسلیم نہیں کرتا ۔ اسی لئے ہندو دانشور اخلاق کے قتل پر اپنے اپنے اعزاز واپس کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احتجاج کوئی معمولی احتجاج نہیں ہے بلکہ ایک سماجی احتجاج بن گیا ہے جس نے ہندوستان کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔

آج ہندو معاشرے میں یہ بحث ہورہی ہے کیا ہم اپنے بچوں  کو ایک ایسا سماج دے کر جائیں گے جس میں کوئی بھی شخص کسی کو بھی اس کے گھر میں گھس کر ماردے گا کہ وہ گائے کا گوشت کھارہا تھا ؟ اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان میں وقتاً فوقتاً سیاسی انتہا پسندی تو کامیاب ہوسکتی ہے لیکن اس ملک میں سماجی انتہا پسندی زیادہ دنوں تک نہ تو کامیاب ہوسکتی ہے اور نہ ہی برداشت ہوسکتی ہے ۔ سیاسی سطح پر اس ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کی کوششیں ہوتی رہیں گی اور وہ مخصوص سیاسی حالات میں کچھ دیر کے لئے کامیاب بھی ہوتی رہیں گی لیکن پاکستان کی طرح ہندوستان کو ہمیشہ ایک مذہبی جنون کا شکار نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ پھر اس جنون کی آنچ خود ہندو معاشرے پر آن لگتی ہے اور بس پھر خود ہندو معاشرے میں سماجی احتجاج شروع ہوجاتا ہے جو پھر ہندوستان کو ہندو راشٹرا بننے سے روک دیتا ہے  ۔یہی اس ملک کی پہچان ہے جو ہمیشہ نازک وقتوں میں اسکے کام آتی ہے اور ہندوستان اور ہندوستان کی رنگارنگ گنگا جمنی تہذیب کو بچالیتی ہے ۔ اخلاق کے قتل نے ہندوستان کے اسی سماجی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے جس کے سبب ادیب و دانشور اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی نہ صرف ڈھال بن گئے ہیں بلکہ وہ ایک بار پھر ہندوستان کو انتہا پسندی سے بچالیں گے ۔