ادب کے زاویۂ اعتماد : ڈاکٹر سید بشیر احمد

پروفیسر مجید بیدار
ایک استاد کے لئے اس سے زیادہ غم کیا ہوسکتا ہے کہ اس کا ہونہار شاگرد اپنے استاد کی موجودگی میں داغ مفارقت دے جائے ۔ شاگرد بھی ایسا کہ جس کی وضع داری اور سچائی کی ایک دنیا معترف رہی اور جس نے اپنے کردار ہی نہیں بلکہ اپنے عمل کے ذریعے حیدرآباد کے ادیبوں اور شاعروں کو اپنا ہمنوا بنالیا ۔ جنوبی ہند کے پڑھے لکھے طبقے میں ڈاکٹر سید بشیر احمد کی شناخت ایک ادیب کے علاوہ سچے اور باکردار انسان کی حیثیت سے نمایاں ہوچکی تھی ۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز طویل عمر گذرنے کے بعد جامعہ عثمانیہ سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کیا تھا ۔ روزنامہ سیاست کے ادبی ایڈیشن میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ۔ جنہیں ادب دوستوں نے حد درجہ پسند کیا ۔ ڈاکٹر بشیر احمد ثقہ بزرگ ، روحانیات کے پروردہ اور علم و ادب کے شیدائی ہی نہیں بلکہ اخلاقیات اور تصوف کے سچے عاشق تھے ۔ ان کی وضع داری مثالی تھی۔ جس کی وجہ سے ہر انسان کی عزت کرنے کا جذبہ ان کی شخصیت پر غالب رہا ۔ ان کے سوانحی کوائف سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سید منظور احمد کے صاحبزادہ تھے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد 14، 15 برس کی عمر تک والد سے تربیت حاصل کی اور اس تربیت نے انہیں کندن بنادیا تھا ۔ یہی وجہ رہی کہ وہ نہ صرف ہر انسان کی قدر کرتے تھے بلکہ ہر ذات و مذہب کے انسان کو تعظیم وتکریم سے نوازتے ہوئے لوگوں کا دل جیتنے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر گریجویشن کی سطح تک کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد یہ محسوس کیا کہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو سرسبز و شاداب بنانے کے لئے ملازمت اختیار کی جانی چاہئے ۔

پولیس کی ٹریننگ کے بعد اس محکمہ میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا ۔ بلاشبہ محکمہ پولیس سید بشیر احمد کے مزاج سے بالکل مختلف تھا پھر بھی انہوں نے محکمہ پولیس میں ملازمت جاری رکھی اور کئی اہم کارنامے انجام دئے جس کی وجہ سے نہ صرف محکمہ پولیس میں تمغے حاصل کئے بلکہ اعلی عہدیداروں کی ستائش سے بھی نوازے گئے ۔ محکمہ پولیس میں رہتے ہوئے بندوبست کا اہتمام اور پولیس جمعیت کو حد درجہ مستعد رکھنے کے معاملے میں سید بشیر احمد کے کئی کارنامے اہمیت کے حامل ہیں ۔ جب حیدرآباد کی سرزمین پر وزیراعظم کی حیثیت سے پنڈت جواہر لال نہرو کا دورہ طے ہوا تو پنڈت جی کی حفاظت اور پروٹوکول کی ذمہ داری سید بشیر احمد کے سپرد کی گئی ، جسے انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دینے کے نتیجے میں انہیں ریاستی حکومت کے اعزاز سے نوازا گیا ۔ غرض ملازمت کو سید بشیر احمد نے کبھی بوجھ نہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی ادائیگی کے ساتھ اپنے عہدہ کو سربلندی عطا کی ۔ سید بشیر احمد محکمہ پولیس سے وابستہ رہنے کے دوران نیک صفت اعلی عہدیداروں کی محکمہ پولیس میں کوئی کمی نہیں تھی ۔ جب انہیں یہ احساس ہوا کہ رفتہ رفتہ محکمہ پولیس کا وقار مجروح ہورہا ہے تو انہوں نے محکمہ پولیس سے علحدگی کو ضروری سمجھا ۔ اس طرح اپنے اخلاق اور کردار ہی نہیں بلکہ وضع داری کو بھی داغ دار ہونے سے بچالیا ۔ یہی کارنامہ سید بشیر احمد کی زندگی میں اہمیت کا حامل ہے ۔ انہوں نے سرکاری ملازمت سے علحدگی اختیار کرنے کے بعد بندوں کی خدمت اور ان کی سہولتوں کا خیال رکھنے پر خصوصی توجہ دی ۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ کافی عرصہ تک جے موسی اینڈ سنس کے ہراج خانہ سے وابستہ رہے ۔ پھر چھوٹے پیمانہ پر پیراڈائز لاج ، معظم جاہی مارکٹ میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار شروع کیا اور اس کاروبار میں اللہ نے ترقی دی ، وہ آخری عمر تک اسی پیشہ سے وابستہ رہے ۔ سید بشیر احمد نے اپنی حیات میں بتایا تھا کہ ان کا آبائی مکان مسلم جنگ پل کے قریب واقع تھا ۔ ان کے والد محترم کو قوالی اور سماع سے خصوصی دلچسپی تھی ۔ سماع کی ایک خصوصی محفل میں شرکت کے دوران ان کے والد نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ زندگی کے سانحات کو قبول کرتے ہوئے سید بشیر احمد نے ایسی زندگی گذاری جس پر کوئی حرف آرائی ممکن نہیں ۔

ڈاکٹر سید بشیر احمد کا شمار میرے ان شاگردوں میں ہوتا ہے وہ عمر اور تجربے میں مجھ سے زیادہ بڑے اور پوری توجہ کے ساتھ کام کی انجام دہی سے شغف رکھتے تھے ۔ کم سخنی ان کی فطرت میں شامل تھی ۔ لیکن جب کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو پتہ چلتا تھا کہ بحر علم کے دریا سے ان گنت موتی تلاش کرلئے ہیں ۔ تصوف اور روحانیات کی تعلیمات طبیعت میں رچ بس گئی تھیں ، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر عام انسان کی عزت کرنا ان کا وطیرہ تھا ۔ ان میں وضع داری ایسی تھی کہ ہر شخص یہی سمجھتا کہ ڈاکٹر سید بشیر احمد سے اس کی قربتیں زیادہ ہیں ۔ خدا کی عنایتیں بھی ان کے ساتھ شامل حال رہیں ۔ بے شمار ادبی ، مذہبی ، روحانی اور علم و عمل کے پیکر انسانوں کو دنیا میں دیکھا لیکن سید بشیر احمد جیسی شخصیت کا پرتو بہت کم انسانوں میں دکھائی دیتا ہے ۔ خاص بات یہ ہے کہ جس وضع داری کو ڈاکٹر سید بشیر احمد نے اپنی زندگی کا اثاثہ بنا کر تمام عمر اس کو روبہ عمل لاتے رہے اور لوگوں میں عمدہ اخلاق کے نمونے پیش کرتے رہے ۔ وضع داری کی وہ تمام خصوصیات ان کے ہر صاحب زادے میں موجود ہیں اور وہ بھی اسی طرح اخلاق و محبت کے مظاہرے کے ذریعے اپنے والد کے دوست احباب کو تعظیم دیتے ہیں ۔ اس رویہ سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کی عمدہ صلاحیتوں کو ڈاکٹر سید بشیر احمد نے نہ صرف اپنی زندگی میں شامل کیا بلکہ انہیں اپنی اولادوں میں منتقل کرکے آخرت کی کامیابی کا سامان فراہم کرلیا ۔

محکمہ پولیس کی ملازمت سے علحدگی کے بعد طویل عرصہ تک سید بشیر احمد نے تصوف کی محفلوں ، مشاعروں اور ادبی نشستوں سے وابستگی رکھی ۔ اورنگ آباد سے ترک تعلق کے بعد جب مجھے جامعہ عثمانیہ میں ریڈر کی حیثیت سے ملازمت کا موقع ملا تو سب سے پہلے حیدرآباد کی ادبی محفلوں میں ہر شخص کی نگاہ ڈاکٹر سید بشیر احمد پر جمی رہتی تھی ۔ اورنگ آباد میں ملازمت کے دوران بھی ریسرچ کرنے والے بیشتر افراد مجھ سے عمر میں کئی گنا بڑے تھے لیکن مجھ سے رہنمائی حاصل کرنے کو وہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے ۔ جب مجھے حیدرآباد منتقل ہونے کا موقع ملا تو اسی روایت کا احیاء ہوا ، حیدرآباد میں مجھ سے کئی گنا زیادہ عمر اور تجربہ رکھنے والے شاگردوں میں سید بشیر احمد ہی نہیں بلکہ ڈاکٹر شیخ سیادت علی اور ڈاکٹر سید رزاق علی ظفر جیسے افراد بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے میری نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ تحقیق اور تنقید کے معاملہ میں سید بشیر احمد اپنے تمام ہم عمروں سے آگے رہے ۔ طبیعت کی سنجیدگی اور فطرت میں شامل تلاش و جستجو نے انہیں ہر مرحلے پر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کا موقع فراہم کیا ۔ چنانچہ میری نگرانی میں انہوں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کے حصول کے لئے مقالہ لکھ کر اہم کارنامہ انجام دیا ۔ تحقیق کے لئے ایم فل کے دوران انہوں نے ’’حیدرآباد میں غیر مسلموں کی ادبی خدمات‘‘ جیسے موضوع کو منتخب کیا ، جب کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ان کا موضوع ’’آزادی کے بعد حیدرآباد کا شعری ادب‘‘ قرار پایا ۔ ایم فل کے مقالہ کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی تحقیقی اور تنقیدی کاوشوںکو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔ جس کے بعد روزنامہ سیاست میں شائع ہونے والے مضامین کو یکجا کرکے انہوں نے زائد از 12 کتابیں شائع کیں ۔ اس کے علاوہ ’’حیدرآباد کے صوفیائے کرام‘‘ اور خاص طور پر ’’حیدرآباد کے طنزیہ اور مزاحیہ شعراء‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’حیدرآباد کے غیر مسلم شعراء کی خدمات‘‘ کو بھی منظر عام پر لاکر ڈاکٹر سید بشیر احمد نے حیدرآبادی ادب کی کڑیوں کو عصر حاضر تک مربوط کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔ تحقیق کے معاملہ میں ہمیشہ تلاش و جستجو جاری رکھی اور تنقید کے سلسلہ میں کبھی انہوں نے معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا ۔ حیدرآباد کے تمام اہم شعراء کے کلام میں موجودہ تصوف کی تعلیمات کو روبہ عمل لاکر انہوں نے عصر حاضر کے نقادوں کی طرح فیصلے صادر کرنے اور ادبی فتوے دینے سے اجتناب برتا ۔ انہوں نے باضابطہ کوئی تنقیدی کتاب نہیں لکھی لیکن شاعروں اور ادیبوں کی سوانح اور ان کے کارناموں کی تدوین کے دوران متوازن رویہ رکھتے ہوئے تنقید کے صاف ستھرے رویے کو سہارا بنا کر یہ ثابت کردیا کہ اپنی شخصیت کو اونچا بتانے کے لئے بیجا تنقید کا سہارا نہیں لیا جانا چاہئے ۔

اخباری مضامین کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ موقتی اور سرسری انداز کے ہی نہیں بلکہ رواروی میں لکھے جاتے ہیں ۔ اس قسم کا الزام بیجا ہے کیوں کہ اخبار کے قاری ہمہ قسم اور ہمہ مزاج کے مالک ہوتے ہیں ۔ جن افراد کی فطرت میں ادب اور مذہب رچا بسا ہو اور جو اخلاق اور تہذیب کے پروردہ ہوں ، ان کی تحریروں میں بلاشبہ وضع داری اور اخلاقی خصوصیات کا یکجا ہونا فطری امر ہے ۔ ڈاکٹر بشیر احمد کے مضامین میں ادب و مذہب ، تہذیب و اخلاق اور انکساری اور وضع داری کی ایسی روش دکھائی دیتی ہے کہ جس کے تحت وہ اخلاقی سطح سے نیچے نہیں اترتے اور زبان و ادب کے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے پوری دیانت داری کے ساتھ انصاف کرنے کے ساتھ ساتھ قوت فیصلہ عوام کے حق میں چھوڑ دیتے ہیں۔ سادہ زبان ، چھوٹے چھوٹے جملے ، عام فہم محاورے اور اس کے ساتھ ترسیلی انداز جب ڈاکٹر سید بشیر احمد کی تحریر کا وصف بنتا ہے تو قاری ادب کی گہرائی میں پہنچ جاتا ہے ۔ ڈاکٹر بشیر احمد کی تمام کتابوں میں یہی خصوصیت جلوہ گر نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے تمام تر زندگی ذاتی محنت اور صلح کل پر گذاری ۔ جنہیں اپنا ہمنوا تصور کیا اس کی ذات اور کم عمری کی پروا کئے بغیر تعلقات استوار رکھنے کو زندگی کا لازمہ قراردیا ۔ جس کی شہادت پروفیسر بیگ احساس ، پروفیسر انور الدین اور دوسرے ذی علم حضرات سے مل سکتی ہے ۔ سینئر اساتذہ میں جناب رحمن جامی ، پدم شری مجتبیٰ حسین اور علامہ اعجاز فرخ وغیرہ کی حد درجہ قدر کرتے تھے ۔ ان کے دفتر میں ہر فرقے اور مذہب کے لوگ جمع رہتے ، ادبی اور مذہبی گفتگو ہی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی گفتگو کے دوران وہ کبھی حد درجہ غصہ کا مظاہرہ کرتے تو کبھی خلوص و محبت کا پیکر نظر آتے تھے ۔ سید خانوادے سے تعلق رکھنے کے ناطے لوگوں کی مدد اور ہمدردی ان کی فطرت کا حصہ تھی ۔ دوسروں کی تکلیف کو دیکھ کر خود بے چین ہوجاتے لیکن بعض وقت سیدی جلال نمایاں ہوتا تو پتہ چلتا تھا کہ وضع داری اور خلوص کا یہ پیکر آتش کا بگولہ بھی بن جاتا ہے ۔ انہوں نے تمام تر زندگی سنی عقائد میں گزاری لیکن طبیعت کا جھکاؤ اہل بیت اطہار کی طرف رہا۔ جس کا اظہار کبھی کبھار گفتگو کے دوران ہوتا تھا ۔ غرض عمدہ صلاحیتوں کے مالک اور خدا کے برگزیدہ بندے تھے ، جن میں مروت اور انکساری ہی نہیں بلکہ وضع داری کی متعدد خصوصیات شامل تھیں ، جنھیں آج کے دور کی بہت سی معتبر شخصیات میں تلاش کیا جائے تو بھی حاصل ہونا ممکن نہیں ۔ ایسی ہی عمدہ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت ڈاکٹر سید بشیر احمد نے زندگی کی طویل 82 مسافتیں طے کرتے ہوئے دو ماہ شدید بیماری کے بعد 10اکتوبر 2015ء کو صبح کی اولین ساعتوں میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔