ادا جعفری نہیں رہیں

یسین احمد
ادا جعفری نہیں رہیں ۔ یہ ماتمی خبر میں نے مقامی اخباروں میں کہیں نہیں پڑھی ۔پڑوسی ملک کے ایک چینل نے مختصر ادا جعفری کے انتقال کی خبر سنائی ۔ دو تین ہفتوں بعد آجکل (دہلی) اور خبرنامہ (شب خون الہ آباد) میں پڑھا کہ مختصر سی علالت کے بعد پاکستان کے ایک مقامی ہسپتال میں ادا جعفری چل بسیں ۔
انتقال کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی ۔ ادا جعفری نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا سے گزارا ۔ بڑے طنطنے اور وقار سے گزارا ۔ ادا جعفری ایک مشرقی خاتون کی زندگی کا مکمل پیکر تھیں ۔ 22 اگست 1924 ء کو اس جہان رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں ۔ اترپردیش کے ایک شہر بدایوں کے گھرانے میں ان کی پرورش ہوئی ۔ جہاں مشرقی روایتوں کی پاسداری ان کی اولین ترجیحات تھیں ۔ سبھی عورتیں ایک اونچی حویلی میں زندگی کے شب و روز گزارتیں ۔ سب کی سب پردے کی پابند ۔ کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں ۔ اگر کپڑا لتا خریدنا ہوتا تو تھان کے تھان گھر پرمنگوالئے جاتے ۔ زیور خریدنا مقصود ہو تو سنار گھر پر آجاتا ۔ عورتیں اپنے مخصوص زنانی کپڑے اپنے ہاتھوں سے سیتیں ۔ آج کے جیسا ماحول نہیں تھا ۔ اچھا ہوا اکبر الہ آبادی اس وقت ہمارے درمیان نہیں رہے ورنہ ’’شعرا‘‘ حقیقتاً مارے غیرت کے زمین میں گڑ جاتے ۔
ادا جعفری کو لکھنے پڑھنے کا سوق کمسنی سے رہا ۔ حالانکہ اس وقت لڑکیوں کی تعلیم عام نہیں تھی ۔ بدایوں میں لڑکیوں کے لئے کوئی کالج بھی نہیں تھا ۔ ادا جعفری نے جو بھی تعلیم حاصل کی ایک پرائیوٹ طالبہ کی حیثیت سے حاصل کی ۔ اس زمانہ میں مردوں کے لئے عربی اور فارسی زبان پر عبور رکھنا لازمی تھا ، جسے شرفاء کی پہچان سمجھا جاتاتھا ۔ جو صاحب ثروت تھے ان کے ذاتی کتب خانوں میں نادر کتابوں اور مخطوطات کے ذخیرے ہوتے تھے ۔ ادا جعفری نے اپنے بزرگوں کی قائم کردہ کتب خانے کی کتابوں سے بہت کچھ سیکھا ۔ انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی ۔
تین سال کی عمر میں ادا جعفری کے والد بشیرالحسن کا انتقال ہوگیا ۔ ماں پینتیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی ۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں ۔ والد کے انتقال کے تین ماہ بعد ادا جعفری نے ایک بھائی کی صورت دیکھی ۔ جس کا نام طیب تھا ۔ اپنی ماں کے بارے میں ادا جعفری لکھتی ہیں : ’’امی بہت کم عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں اندازاً تیس پینتیس سال کی عمر میں ۔ مالی پریشانی نہیں تھی ۔ اپنا علحدہ گھر بسانے کی کبھی اجازت نہیں ملی تھی لیکن بیوگی کی سفید چادر میں جس کلفتوں اور ظلمتوں سے بنی ہوئی ہوتی ہے اس کے بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ایک نامولود بیٹے اور تین کمسن بیٹیوں کی پرورش ، پرداخت اور تربیت کی چٹانیں بھی سامنے سراٹھائے کھڑی تھیں جنہیں سرکرنا تھا‘‘ ۔ آگے لکھتی ہیں ’’میری عبادت گزار کم گو اور صابر ماں غم کی آگ میں تپ کر بیشک کندن ہوگئی تھیں ۔ پورے خاندان کے لئے ان کا وجود ایک رحمت تھا‘‘ ۔

اپنی اولاد کی خاطر ادا جعفری کی ماں نے اپنے خاندانی اصولوں اور روایت سے بغاوت کی ۔ بچوں کی تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ جتنی تعلیم ان کو دے سکتی تھی ، دلائیں ۔ جن کتابوں کو ادا جعفری نے اپنے بزرگوں سے چھپ کر پڑھا تھا ان کو اب کھل کر پڑھنے لگیں ۔ یہی کتابوں نے ادا جعفری کی رہنمائی کی ۔ شاعری کے آداب سے واقف کرایا ۔ دس بارہ سال کی عمر سے انہوںنے شعر کہنا شروع کیا ۔ انھوں نے غزلیں کم نظمیں زیادہ لکھیں جو سویرا ، ایشیا، ادب لطیف ، افکار اور شاہکار جیسے قابل ذکر جریدوں میں شائع ہوئیں ۔ ابتداء نظم سے ہوئی تھی اور ماں کی اجازت کے بعد اشاعت کے لئے بھیج دیں ۔
ادا جعفری کی زندگی میں سب سے بڑا انقلاب 1947 میں آیا جب ان کی شادی نورالحسن جعفری سے ہوئی ۔ وہ پہلے عزیز جہاں تھیں شاعری شروع کرنے کے بعد ادا بدایونی بنیں اور شادی کے بعد ادا جعفری ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ جس کو انھوں نے شادی سے قبل ہی ترتیب دیا تھا اور اشاعت کی غرض سے نیا ادارہ لاہور کے سپرد کردیا تھا لیکن اس کتاب کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر ہوئی اور یہ مجموعہ 1950 ء میں منظر عام پر آیا ۔ کچھ اشعار قارئین کی نذر ہیں جو ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ میں شامل ہیں ۔
سینے میں اک چبھن سی ہوتی ہے
آنکھوں میں کیوں جلن سی ہوتی ہے
سر میں پنہاں تصور موہوم
ہائے یہ آرزوے نامعلوم
ایک نالہ سا ہے بغیر آواز
ایک ہلچل سی ہے نہ سوز نہ ساز
کیوں یہ حالت ہے بیقراری کی
سانس بھی کھل کے آنہیں سکتی
روح میں انتشار سا کیا ہے
دل کو یہ انتظار سا کیا ہے
ادا جعفری کی شاعری کے بارے میں حمایت علی شاعر نے لکھا ہے کہ ’’ادا جعفری ان شاعرات میں سے نہیں ہیں جو نسائیت کے اظہار کو نمائش کی حد تک لے آتی ہیں اور اس حجاب سے بے نیاز ہوجاتی ہیں جو شاعری کا جوہر ہے ۔ ادا کی سلیقہ مندی اس عظیم روایت کی عطا ہے جس کی زرخیزی جدت کے خوبصورت امکانات کی ضامن ہے وہ جدید شاعرہ ہونے کے باوجود اس جدیدیت کی دلدل سے دور ہیں جو اکثر شعراء کو ڈبوچکا ہے‘‘ ۔

ادا جعفری اپنی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں ’’میں نے شاعری کا سفر ایک ہی لفظ کی آرزو کے سائے سائے طے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ حرف صداقت جو لکھنے والے پر فرض بھی ہوتا ہے ۔ اس پر فرض بھی ہوتا ہے جو دین ہے ۔ جو وطن کی محبت ہے ۔ جو خود انسان کا اس روئے زمین پر مرتبہ ہے‘‘ ۔
ادا جعفری کی ازدواجی زندگی بڑی کامیاب اور پرسکون رہی ۔ نورالحسن جعفری اعلی تعلیم یافتہ اور انتہائی شریف انسان تھے ۔ اونچے عہدہ پر فائز تھے ۔ اپنے شوہر کے بارے میں ادا جعفری لکھتی ہیں ’’نور کے مزاج میں دردمندی ہے اور دل داری و دل نوازی کے تمام رنگ کھلے ہوئے ہیں ۔ دو سال کی عمر تھی جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا ۔ وہ خالق حقیقی سے نہ صرف انیس سال کی مہلت حیات لے کر آئی تھیں ۔ نور کے وجود میں بہ یک وقت دو بڑی دل آویز شخصیتیں سانس لیتی ہیں ایک حفاظت اور امان کی علامت ۔ وہ تناور سایہ جسے باپ کہتے ہیں اور ایک وہ بچہ جو دو سال کی عمر میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا تھا ۔میلے میں کھوایا ہوا ایک اکیلا بچہ‘‘۔
بہرحال نور الحسن جعفری کی رفاقت نے ادا جعفری کے بساط جسم و جان پر خوشگوار اثر ڈالا تھا ۔ نورالحسن جعفری کا وجود ادا جعفری کے لئے ایک سائبان کے مماثل تھا ۔
نور الحسن کی ملازمت پہلے ہی سے پاکستان میں چل رہی تھی ۔ شادی کے بعد نور الحسن جعفری ڈسمبر 1947 میں پاکستان چلے گئے ۔ لیکن ادا جعفری لکھنؤ میں اپنی بہن شمسہ باجی کے پاس رہیں ۔ مارچ 1948ء میں وہ بھی پاکستان چلی آئیں ۔ جب وہ پاکستان گئیں انتہائی پرآشوب حالات تھے ۔ ادا جعفری نے تقریباً چوبیس پچیس سال بدایوں میں یا آس پاس کے قریبی علاقوں میں رہیں ۔ بدایوں ان کا وطن تھا ۔ بدایوں جہاں کی خاک سے شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی کئی ہستیاں ابھری تھیں جو برگزیدہ بندوں کا مسکن رہا ۔ اسی بدایوں سیادا جعفری کو بے حد لگاؤ تھا۔ حالانکہ بدایوں کو جی بھر کے دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا ۔ بہت بعد میں جب وہ پاکستان سے ایک دفعہ بدایوں آئیں تو بدایوں بہت بدل چکا تھا ۔ ان کی بڑی حویلی ڈھادی گئی تھی اور وہاں فلیٹس تعمیر ہوچکے تھے ۔ پاکستان میں ادا جعفری کو مکانوں کی قلت کا احساس ہوا ۔ شوہر کی پھوپھی کے ساتھ عرصہ تک قیام رہا ۔ مکان دو منزلہ تھا لیکن گنجائش کم تھی اور دوسرے قریبی رشتہ دار بھی اسی مکان میں رہتے تھے ۔
برصغیر کے سیاسی حالات ابتر تھے ۔ لیکن ادبی سرگرمیاں عروج پر تھی ۔ ترقی پسند تحریک کا طوطی بول رہا تھا ۔ یہ تحریک منظم تھی اورملک گیر بھی ۔ ادا جعفری کہتی ہیں کہ زندگی کے میلے میں شرکت کا احساس مجھے ترقی پسند تحریک نے عطا کیا اوریہ بڑا دلنواز اور جاں پرور احساس تھا ۔ فرسودہ روایات میں جکڑی ہوئی ناقابل شناخت تمناؤں کو جیسے اپنے خد و خال نظر آنے لگے تھے ۔ جیسے صدیوں سے منجمد آنکھوں کو اچانک بینائی مل گئی۔

ادا جعفری کی شاعری کا سفر جاری رہا ۔ انھوں نے غزل کے علاوہ نظمیں اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی ۔ ابتدا تو نظم سے ہوئی تھی ۔ 1950 میں ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ کے بعد ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’شہر درد‘‘ 1967 میں شائع ہوا ۔ 1974 میں ان کا ایک شعری مجموعہ ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ منظر عام پر آیا ۔ 1982 میں دوشعری مجموعہ ’’ساز سخن یہاں ہے‘’ اور ’’حرف شناسی‘‘ شائع ہوئے ۔ 2002 میں ان کا ایک کلیات شائع ہوا جس کا عنوان ہے ’’موسم موسم‘‘ ۔
علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ لکھی ہے جو اردو ادب کی شاہکار نظم تصور کی جاتی ہے ۔ ادا جعفری نے علامہ اقبال کی تقلید کرتے ہوئے 1967 میں مسجد اقصی لکھی جس کو غیر معمولی شہرت ملی ۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :
رن سے آتے تھے تو باطبل ظفر آتے تھے
ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر جاتے تھے
مٹ نہ پائے تھے بگولوں سے نقوش کف پا
ان رہوں میں ہیں رسولوں کے نقوش کف پا
محترم ہے مجھے اس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرور کونینؐ کے سجدے کا نشاں
اس ہوا میں مرے آقا کے نفس کی خوشبو
اس حرم میں مرے مولا کی سواری ٹھہری
اس کی عظمت کی قسم ارض وسما نے کھائی
تم نے کچھ قبلہ اول کے نگہباں! سنا؟
حرمت سجدہ گہہ شاجہ کا فرمان سنا؟
زندگی مرگ عزیزاں کو تو سہہ جاتی ہے
مرگ ناموس مگر ہے وہ دہکتی بھٹی
جس میں جل جائے تو خاکستر دل بھی نہ ملے
اور تپ جائے تو کندن ہے وجود انساں
پھر یہ پگھلے ہوئے لمحات کراں تا بہ کراں
اس نظم کے بارے میں ڈاکٹر اسلم فرحی لکھتے ہیں ’’1967 میں وہ یادگار نظم ’’مسجد اقصی‘‘ شائع ہوئی جس نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ اردو ادب میں مسجدوں کے حوالے سے دو شہ کار وجود میں آئے ہیں ۔ علامہ اقبال کی ’مسجد قرطبہ‘‘ فلسفیانہ اساس میں ڈوبی ہوئی ۔ زماں و مکاں کے اسرار ہویدا کرنے والی ۔سطوت ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ایک خواب ناک نظارہ ہے‘‘ ۔ مسجد اقصی ذاتی جذبات و ارادت سے لبریز وہ فریاد ہے جسے سن کر عرش سے خاک نشینوں کو سلام آتے ہیں اور ہوش والوں میں تلقین جنون کے سامان پیدا ہوتے ہیں ۔ ایسی پراثر اور سر پا آرزو نظمیں ہمارے ادب میں خال خال ہیں‘‘ ۔
ان شعری تصانیف کے علاوہ 1995 میں ادا جعفری کی خود نوشت بعنوان ’’جورہی سو بے خبری رہی‘‘ ادبی حلقوں میں غیر معمولی مقبول ہوئی ۔ شگفتہ تحریر اورماہرانہ انداز میں شعور کی رو کی تکنیک کے استعمال کی وجہ سے اس کتاب کو ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔ 1968 میں ادا جعفری کو آدم جی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ۔ حکومت کی انب سے تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ۔ ادا جعفری کو جاپانی صنف سخن ہائیکو سے بڑی خاص الفت تھی ۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ساز سخن‘‘ میں ہائیکو کے نادر نمونے ملتے ہیں جس میں ادا جعفری نے زندگی اور کائنات کے مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔ اپنی شاعری کی ابتداء میں ادا جعفری اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں ۔

ناسازگار حالات نے ادا جعفری کو اعلی تعلیم سے محروم رکھا جسکا احساس ان کو زندگی بھر ستاتا رہا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم کی دولت سے مالا مال کردیا ۔ بچپن میں ان کو گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن خود مختارانہ زندگی میسر ہوئی تو انہوں نے آدھی سے زیادہ دنیا دیکھ لیں ۔ بڑے بڑے مغربی ادیبوں اور شاعروں سے ملیں یا ان کا کلام پڑھا ۔ دنیا بھر کے مشہور کتب خانوں کا دیدار کیا ۔
ادا جعفری ایک مہذب خاتون تھیں ان کا لہجہ دھیما اور سلجھا ہوا تھا ۔ کبھی اونچی آواز میں گفتگو نہیں کی ان کے لہجے میں تلخی یا جھنجھلاہٹ نہیں ملتی ۔ انھوں نے عرت کی مجبوری دیکھی تھی ۔ محکومی دیکھی تھی ۔ ان کی شاعری ایسی ہی دکھی عورتوں کی ترجمانی کرتی ہے ۔ جب انھوں نے ادبی سفر کی شروعات کی تھی تو شدید روایتی ماحول اور قدامت پسندی کا دور دورہ تھا ۔ پیروں میں قدیم رسم و رواج کی زنجیریں تھیں جن سے آگے چل کر رفتہ رفتہ ادا جعفری کو مکتی مل گئی ۔ اسی احساس کے پیش نظر ادا جعفری نے اولاد کو مکمل آزادی سے جینے کا حوصلہ دیا ، ماحول دیا ۔ شمس الرحمن فاروقی ان کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ایک زمانہ تھا جب ہم نوجوان طالب علم اور شائقین اردو ادب ادا بدایونی نامی ایک خوش فکر شاعرہ کے کلام سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ ان کے شعر میں تمام طور طریقے تھے جنہیں اعلی شاعری سے منسوب کرتے ہیں‘‘ ۔
آخر میں میں اسلم فرخی کے ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ادا بہن کی ساری شخصیت حسن معاملہ اور نیک نیتی سے عبارت ہے ۔ آج بھی وہ ہمارے دلوں کے قریب ہے ۔ کل کے پڑھنے والے بھی انہیں اپنے ہی عہد کا فنکار سمجھیں گے اور پرسوں کے پڑھنے والے بھی ان سے دلی قربت محسوس کرکے انہیں اپنے ہی زمانہ کی آواز خیال کریں گے‘‘ ۔