اختر حسن

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
قدیرؔ زماں میرے اُن دوستوں میں سے ہیں جو اکثر و بیشتر میری معلومات میں اضافہ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ میں اُن کے حوالے سے اپنی معلومات میں ا ضافہ کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا تو کسی اور کی عمر میں ا ضافہ فرمادیتے ہیں۔ لگ بھگ 32 ، 33 برس پہلے میں اور قدیرؔ زماں ایک ہی عمارت کے دو الگ الگ کمروںمیں رہتے تھے ۔ ان دنوں ہم گریجویشن کر رہے تھے ۔ اس وقت ہم دونوں کی عمریں اٹھارہ ، انیس برس کی تو ہوں گی، لیکن آج قدیر زماں کبھی کبھی دوستوں کی محفلوں میں اپنے رخش عمر کی باگ کو کھینچ کر اسے پینتیس ، چالیس برس کے سن پر روک دیتے ہیں تو میں سائنس کی ترقی پر حیرت کرتا رہ جاتا ہوں کہ ہم دونوں کے تقریباً ساتھ ساتھ اس دنیا میں پیدا ہونے کے باوجود میری عمر پچاس برس سے تجاوز کر گئی اور قدیر زماں ابھی چالیس بیالیس کے پیٹے میں بیٹھے رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔ اپنی عمر کے معاملے میں وہ جتنے کفایت شعار ہیں ، دوسروں کی عمر کے بارے میں ا تنے ہی فضول خرچ بھی واقع ہوئے ہیں۔ عمر کے معاملے میں ان کے اسی فراخدلانہ رویہ کا نتیجہ ہے کہ وہ مجھے اپنا بزرگ سمجھتے ہیں۔
قدیر زماں کا ذکر تو یہاں ضمنی طور پر آگیا ورنہ میں تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ پچھلے ہفتہ حیدرآباد میں قدیر زماں سے ملاقات ہوئی تو مجھے ایک گوشہ میں لے گئے اور نہایت رازدارانہ انداز میں میرے کان میں کہا ’’آپ کو پتہ ہے اختر حسن صاحب پچھتّر برس کے ہوگئے‘‘۔ میں نے حیرت سے کہا ’’یہ واقعہ کب ہوا ؟ کیسے ہوا ؟ مجھے تو یقین نہیں آتا ۔ کیا سچ مچ اختر صاحب پچھتر برس کے ہوگئے یا آپ اپنی خوردی کو مزید پکا کرنے کیلئے ان کی عمر میں اضافہ فرما رہے ہیں‘‘۔ اپنی موٹر کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے بولے ’’اب ہم اختر حسن صاحب کے پاس تو جا ہی رہے ہیں۔ آپ خود پوچھ لیجئے ‘‘۔ میں نے کہا ’’بھلا اختر بھائی سے اُن کی عمر پوچھنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے کیونکہ میں خود انہیں لگ بھگ تین دہوں سے دیکھ رہا ہوں اور تین دہوں سے پہلے کے دو دہوں میں اُن کے بارے میں سنتا رہا ہوں۔ خود میری عمر کے پچاس برس ان کی دید اور شنید میں گزر گئے لیکن اس کے باو جود نہ جانے کیوں یقین نہیں آتا کہ اختر بھائی پچھتر برس کے ہوگئے‘‘۔

میںاور قدیر زماں اُن سے ملنے کیلئے پہنچے تو میں نے اس خیال سے کہ اختر بھائی پچھتر برس کے ہوگئے ہیں نہایت مودبانہ انداز میں ان سے مصافحہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے نہایت گرمجوشانہ انداز میں مصافحہ کر کے میری عمر کے پچاس برس کو اپنے پچھتر برسوں سے پچھاڑدیا ۔اس دن ہلکی ہلکی سی بارش ہورہی تھی ۔ میں ایک جگہ ٹھہرے ہوئے پانی کو پھلانگنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اختر بھائی پیچھے سے آئے اور اپنے پچھتر برس سمیت اس پانی کو پھلانگ گئے اور دوسری طرف پہنچ کر اپنے پچھتر برسوں کا سہارا میری عمر کے پچاس برسوں کی طرف بڑھاتے ہوئے بولے ’’پھلانگنے میں دشواری ہورہی ہے تو میرا ہاتھ تھام لینا‘‘۔ میں شرمندہ سا ہوگیا اور اپنے پچاس برس کے بل بوتے پر پانی کو پھلانگنے کی کوشش تو ضرور کی لیکن اس کوشش میں پانی کے تھوڑے سے چھینٹے اختر بھائی کے کپڑوں پر گر گئے ۔ نئی نسل پرانی نسل کے دامن کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔ میں نے بھی بہت سی سدا بہار شخصیتیں دیکھی ہیں لیکن اختر بھائی کی بات ہی الگ ہے ۔ بعض شخصیتیں جسمانی طور پر ضرور سدا بہار دکھائی دیتی ہیں لیکن ذہنی طور پر یا تو خزاں رسیدہ ہوتی ہیں یا پیدا ہی نہیں ہونے پاتیں۔ دل ، دماغ اور جسم کی سدا بہاری کا امتزاج مجھے اختر بھائی کی ذات میں ہی دکھائی دیا ۔ میں 1953 ء کے اواخر میں اختر بھائی سے پہلی بار حیدرآباد کے پرانے ایم ایل اے کوارٹرز میں ملا تھا اور ان سے ملنے کی حاجت اس لئے پیش آئی تھی کہ آرٹس کالج کی بزم اردو نے ایک ادبی محفل کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا اور بزم اردو کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے مجھ سے خواہش کی گئی تھی کہ میں اختر حسن صاحب کو اس جلسہ کی صدارت کیلئے مدعو کروں ۔ ان دنوں وہ لیجسلیٹیو کونسل کے رکن تھے اور ایم ایل اے کوارٹرز میں رہتے تھے ۔ میں ان کے گھر پہنچا تو اختر بھائی گھر پر موجود نہیں تھے ۔ ریاست بھابی (مسز اختر حسن) گھر پر موجود تھیں اور انہوں نے ہی گھر کا دروازہ کھولا تھا ۔ ریاست بھابی کو پہلے پہل یہیں دیکھا اور انہیں جو دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا ۔ مجھے یہ یاد ہی نہ رہا کہ میں کس کام سے اختر بھائی کے گھر آیا ہوں۔
بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد آدمی کے پانچوں حواسِ خمسہ میں سے باقی چار حواس خمسہ اچانک کام کرنا بند کردیتے ہیں ۔ یہی کیفیت مجھ پر طاری تھی ۔ ریاست بھابی نے جب میرے آنے کی غرض و غایت پوچھی تو مجھے نہ تو بزم اردو کی یاد آئی اور نہ ادب کا خیال آیا ۔ میں نے گھبراہٹ میں کہا ’’نہایت پیاس لگی ہے۔ پہلے تھوڑا سا پانی پینا چاہتا ہوں۔ بعد میں آنے کی غرض و غایت بیان کروںگا ‘‘۔ پانی کے آنے اور اسے پینے تک مجھے اپنے حواس کو یکجا کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے آنے کی غرض و غایت بتائی تو ریاست بھابی نے بتایا کہ اختر بھائی گھر پر نہیں ہیں اور یہ کہ میں دوسرے دن صبح میں ان سے ملنے کیلئے آ ؤں ۔ دوسرے دن میں خوشی خوشی اختر بھائی کے گھر گیا تو بدقسمتی سے اختر بھائی نہ صرف موجود تھے بلکہ گھر کے باہر نکل ہی رہے تھے ۔ میں نے ا پنا مدعا بیان کیا مگر جس تاریخ کو ہم کالج میں جلسہ رکھنا چاہتے تھے اس دن وہ کسی سیاسی مصروفیت کے سلسلے میں حیدرآباد سے باہر جانے والے تھے ۔ گھر کے باہر کھڑے کھڑے بڑی شفقت سے پیش آئے ۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں محبوب حسین جگر اور ابراہیم جلیس کا چھوٹا بھائی ہوں تو اور بھی خوش ہوئے بلکہ اتنے خوش ہوئے کہ ان کا بس چلتا تو پانی بھی پلادیتے لیکن اس وقت وہ جلدی میں تھے اور کسی ضروری کام سے دوچار لوگوں کے ہمراہ کہیں جارہے تھے ۔

اختر بھائی اور ریاست بھابی سے یہ میری پہلی ملاقات تھی ۔ اس ملاقات کو تیس برس بیت گئے لیکن یہ ذہن میں اب بھی تر و تازہ ہے ۔ ان دنوں باجی جمال النساء اور اختر بھائی  کے گھر بائیں بازو کے خیالات رکھنے والوں کے مراکز کی حیثیت رکھتے تھے ، ادبی محفلیں ہوتی تھیں، سیاسی مشورے ہوتے تھے ۔ ادبیوں اوردانشوروں کی بیٹھکیں جمتی تھیں۔ روزنامہ ’’پیام‘‘ کے ایڈیٹر اور سیاسی قائد کی حیثیت سے اختر بھائی کے نام کا ڈنکا بجتا تھا ۔ میں آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے فرنٹ پر کام کرتا تھا ۔ مخدوم، راج بہادر گوڑ ، کامریڈ مہیندرا اور اختر بھائی کا طوطی جگہ جگہ بولتا تھا۔ اگر نہیں بھی بولتا تھا تو ہم اس کی جگہ بولنے لگ جاتے تھے ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ طوطی بھی خاموش ہوگیا اور ہم بھی خاموش ہوگئے ۔ (بعض خاموشیوں کی یاد اب بھی کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہے) سماجی اور سیاسی سطح پر اس کا نقصان تو بہت ہوا لیکن ہمارا شخصی فائدہ یہ ضرور ہوا کہ مخدوم ، راج بہادر گوڑ اور اختر بھائی جو اپنی بے پناہ سیاسی اور سماجی مصروفیات کے باعث ہم جیسوں کیلئے نہ صرف کمیاب بلکہ نایاب بھی تھے ، اب رفتہ رفتہ دستیاب بھی ہونے لگے۔ اورینٹ ہوٹل میں محفلیں جمنے لگیں۔ ابتدائی دعا سلام سے لے  کر ہم کلام ہونے تک نوبت پہنچی ۔ اس زمانے کے حیدرآباد کے معاشرہ میں چھوٹوں کا اس منزل تک پہنچنا بھی کچھ کم اعزاز کی بات نہیں تھی ۔ اگرچہ اختر بھائی کی بہت سی تحریریں پڑھی تھیں، اُن کی تقریریں بھی سنی تھیں لیکن ان سے باضابطہ ملاقاتیں 1962 ء کے بعد سے ہونے لگیں جب میں حکومت آندھراپردیش کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اردو شعبہ سے وابستہ ہوا۔ ریاست بھابی پہلے سے یہاں کام کرتی تھیں۔ یہیں مجھے ریاست بھابی کو تفصیل سے دیکھنے ، سمجھنے اور اُن کے حولے سے خود اختر بھائی کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ریاست بھابی جیسی خوددار ، خود اعتماد اور باوقار خواتین میں نے بہت کم دیکھی ہیں۔ زندگی کے ہر موضوع پر اُن سے مردانہ وار بات کی جاسکتی ہے ۔ اختر بھائی اکثر محکمہ اطلاعات میں چلے آتے تھے یا پھر میں ریاست بھابی سے ملنے ان کے گھر چلا جاتا۔ دونوں کی شفقتیں مجھے حاصل تھیں مگر دونوں کی شفقتوں کا انداز نرالا تھا ۔ اختر بھائی کی شفقت بڑی خاموش شفقت تھی جب کہ ریاست بھابی کی شفقت نہ صرف بولتی تھی بلکہ ضرورت پڑ نے پر ڈانٹتی بھی تھی ۔ 1962 ء کے اواخر میں جب میں نے مزاح نگاری شروع کی تو میں فطری طور پر متمنی تھا کہ اختر بھائی میری مزاح نگاری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔ وہ رائے دینے کے معاملے میں فطری طور پر بہت محتاط ہیں۔ پہلے تو وہ رائے نہیں دیتے اور جب رائے دیتے ہیں تو اس میں سے اصل رائے کو تلاش کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ برخلاف اس کے ریاست بھابی رائے دینے کے معاملہ میں اتنی ہی غیر محتاط ہیں ۔ اُن کا رائے دینے اور گالی دینے کا انداز تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے ۔ میں ایک عرصہ تک اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ ریاست بھابی میری مزاح نگاری کے بارے میں جو رائے دیتی ہیں، وہ اصل میں اختر بھائی کی رائے ہے اور میں نتیجہ میں اختر بھائی سے کھنچا کھنچا سا رہتا تھا ۔ یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اختر بھائی اور ریاست بھابی اپنی اپنی آراء کے معاملہ میں نہ صرف خود مکتفی ہیں بلکہ ا یک دوسرے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ میری ایک کتاب پر اختر بھائی نے تبصرہ بھی لکھا تھا ۔ جس میں ’’لکینوں ‘‘ اور ’’اگروں‘‘ کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا ۔ پتہ نہیں آج ان ’’لیگنوں‘‘ اور ’’اگروں‘‘ میں سے میں نے کتنوں کا لحاظ رکھا ہے ۔
اختر بھائی کے بارے میں یہ بات بھی بتاتا چلوںکہ روزگار کے معاملہ میں وہ ’خانہ بدوشوں‘ کا سا رویہ رکھتے ہیں ۔ جب بھی انہیں پتہ چلتا ہے کہ موجودہ روزگار سے انہیں فائدہ ہونے والا ہے تو فوراً اس سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ پچھلے تیس برسوں میں میں نے انہیں روزنامہ ’’پیام‘‘ کے ایڈیٹر ، لیجسلیٹیو کونسل کے رکن ، سالار جنگ میوزیم کے ریسرچ اسکالر ، لکچرار ، ہفتہ وار اردو بلٹز کے ایڈیٹر ، محکمۂ اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور اردو اکیڈیمی کے اسسٹنٹ سکریٹری کے روپ میں دیکھا ہے ۔ ان کے علاوہ ان کے اور بھی پیشے رہے ہوں تو میں ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ انہیں جب بھی دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بیروزگاری کا جو رونا رویا جاتا ہے ، وہ بالکل غلط ہے ۔ ایک ہی شخص کو جب اتنی ساری ملازمتیں مل سکتی ہیں تو کیسی بیروزگاری اور کہاں کی بیروزگاری؟ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس ملک میں پہلے تو ملازمت کا ملنا دشوار ہے اور یہ اگر ایک بار مل جائے تو پھر اس ملازمت کو چھوڑنا تو اس کے حاصل کرنے سے بھی زیادہ دشوار ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں اختر بھائی نے کس طرح اتنی ساری ملازمتیں حاصل کیں اور پھر انہیں چھوڑا کیسے ؟ یہ گر وہ کسی کو نہیں بتاتے ۔ اصل میں اختر بھائی تن آسانی کے قائل نہیں ہیں۔ جب زندگی میں سکون اور خوش حالی کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں تو وہ فوراً ایک عدد ملازمت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنی شخصی زندگی کے مسائل کوحل کرنے میں وہ اتنی دلچسپی نہیں لیتے جتنی دلچسپی وہ اپنے لئے مسائل کو پیدا کرنے میں لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اختر بھائی آج بھی بڑی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ، مسائل سے لڑتے ہوئے اور نت نئی آزمائشوں سے گزرتے ہوئے۔

آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مجھے اختر بھائی کے ماتحت کے طور پر کام کرنے کا موقع بھی نصیب ہوچکا ہے ۔ روزگار کی تلاش میں ایک بار وہ محکمۂ اطلاعات و تعلقات عامہ کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر بن گئے ۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر بن جانے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان کے جو دو اہم ماتحتین تھے ان میں سے ایک تو ریاست بھابی تھیں اور دوسرا ماتحت میں تھا ۔ ان کے تحت الشعور میں بھی یہ بات نہ رہی ہوگی کہ ایسے فرماں بردار ماتحتین انہیں نصیب ہوں گے۔ ریاست بھابی کی ماتحتی کے بارے میں ، میں کیا عرض کرسکتا ہوں آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ میں نے اختر بھائی کو ڈسپلن کے معاملے میں نہایت سخت گیر پایا ۔ چنانچہ میں گھنٹوں دفتر سے غائب رہتا تھا ، کبھی میں ان کے ہاں چلا جاتا تو دفتر سے غائب رہنے کی وجہ پوچھتے ۔ جب میں کہتا کہ میں نے ریاست بھابی سے باہر جانے کی اجازت لے لی تھی تو فوراً خاموش ہوجاتے تھے ۔ حالانکہ مجھے باہر جانے کیلئے ریاست بھابی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، مگر مجھے تو ایک ’’کلید اجازت ‘‘ درکار تھی جومجھے مل گئی تھی ۔ ڈسپلن کی پاسداری کا انہیں اتنا احساس ہوتا تھا کہ ریاست بھابی سے کبھی نہیں پوچھتے تھے کہ آیا انہوں نے مجھے باہر جانے کی اجازت دی بھی ہے یا نہیں ۔ انہیں ڈر تھا کہ اگر وہ اس کی توثیق چاہیں گے تو اس سے ان کے گھر کا ڈسپلن بگڑ جائے گا۔ ڈسپلن کا اتناخیال رکھنے والے افسر تو میں نے بہت دیکھے ہیں لیکن ایسے شوہر بہت کم دیکھے ہیں ۔ نتیجہ میں دفتر کاسارا کام اکیلے اختر بھائی خود کرتے تھے ۔ سچ تو یہ کہ ایسی ٹھاٹ کی ملازمت میں نے کبھی نہیں کی ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جن دنوں میں اختربھائی کی ماتحتی کر رہا تھا تو انہی دنوں دہلی سے میرے پاس ایک ملازمت کی پیشکش آئی ۔ اختر بھائی بہت خوش ہوئے اور مجھے مشورہ دیا کہ میں فوراً اس نئی ملازمت کو قبول کر کے دہلی چلا جاؤں ۔ انہوں نے ہی مجھے دہلی جانے پر اکسایا تھا اور خوشی خوشی جانے کی اجازت بھی دے دی ۔ چنانچہ آج تک اپنے وطن سے دور دہلی کی خاک چھاننے کے علاوہ ملکوں ملکوں کی خاک چھان رہا ہوں۔ پتہ نہیں اختر بھائی نے یہ میرے بھلے کیلئے کیا تھا یا اپنے بھلے کیلئے ۔

خواتین میں ’پتی ورتا‘ تو ہمارے سماج میں عام سی بات ہے لیکن مردوں میں ’پتنی ورتا‘ کی جھلک میں نے اختر بھائی میں ہی دیکھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ اختر بھائی کی طرح سگھڑ اور سلیقہ مند شوہر میں نے بہت کم دیکھے ہیں۔ اسے ریاست بھابی کی خوش نصیبی نہ کہوں تو اور کیا کہوں کہ جہاں دفتر میں انہیں ایک وفا شعار افسر ملا تھا وہیں گھر میں ایک سلیقہ مند شوہر کی خدمات بھی انہیں میسر تھیں۔ گھر کے سارے سلیقے سے اختر بھائی ٹپکتے تھے ۔ لذیذ کھانوں کے ذایقہ میں اختر بھائی کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا ۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ اختر بھائی پکوان کے نہ صرف شوقین بلکہ ماہر بھی ہیں ۔ دوپہر کے کھانے میں میں تو پہلا نوالہ ہی منہ میں رکھ کر بتادیتا تھا کہ کونسا سالن اختر بھائی نے بنایا ہے اور کون سا ریاست بھابی نے۔
پرانی باتیں یاد کرنے لگوں تو شاید دفتر کے دفتر سیاہ کرتا چلوں ۔ دو ایک باتیں کہہ کر اپنی بات کو ختم کرنا چاہوں گا ۔ اختر بھائی جہاں بلند پایہ صحافی ہیں وہیں ایک معتبر نقاد اور شاعر بھی ہیں ۔ کلاسیکی ادب کا جتنا مطالعہ ان کا ہے شاید ہی کسی کا ہو۔ فارسی شاعروں کے شعر سنانے پراتر آتے ہیں تو سناتے ہی چلے جاتے ہیں، چاہے سننے والے کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں۔ اختر بھائی کی صحبت میں کچھ وقت گزارنے کو میں ایک سعادت اور نعمت سمجھتا ہوں۔ نوجوان ادیبوں کی ہمت افزائی میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں بلکہ بعض نوجوان ادیبوں میں اتنی ’ہمت‘ نہیں ہوتی جتنی کہ یہ اس کی ’افزائی‘ کرتے ہیں ۔ میں جب بھی حیدرآباد جاتا ہوں تو اختر بھائی سے ضرور ملتا ہوں ۔ یوں بھی وہ حیدرآباد جسے ہم نے تیس ، بتیس برس پہلے دیکھا تھا اب دھواں دھواں سا ہوتا جارہا ہے ۔ دھند لکے بڑھتے جارہے ہیں ۔ وہ شخصیتیں جن سے حیدرآباد ، حیدرآباد کہلاتاتھا ، اب عنقا ہوتی جارہی ہیں۔ اختر بھائی سے مل کر اس حیدرآباد کی باز گشت سنائی دیتی ہے جس کا خمیر اردو کلچر سے اُٹھا تھا۔ ہمارے درمیان اختر بھائی جیسی محترم اور باکمال شخصیت کی مو جودگی ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔ میں ان احباب کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے اختر بھائی کی پچھترویں سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا۔
(1988 ء)