اخبار سیاست سے ہمارے قریبی اور قدیم روابط رہے ہیں: رضا مراد

گرجدار بھاری بھرکم اور بیحد بلند آواز کے مالک اداکاری کے مہارتھی 6 فٹ 3 انچ قد شائقین کو بے خود کردینے والا پرفارمینس کے مالک جانے مانے ہندی فلمی اداکار رضا مراد نے اپنی اداکاری کے فلمی تاریخ میں انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔ 68 سالہ رضامراد کی پیدائش ممبئی میں ہوئی ابتدائی تعلیم انہوں نے ممبئی میں ہی حاصل کی پھر وہ رام پور (اترپردیش) چلے گئے۔ کچھ وقت وہاں پڑھائی کرنے کے بعد پھر سے وہ ممبئی چلے آئے۔ رام پور ان کا ددیال ہے اور بھوپال ان کا ننھیال۔ رضا مراد مشہور کیریکٹر ایکٹر مراد کے فرزند ہیں۔ جو ایک زبردست اداکار رہے۔ 250 سے زائد فلموں میں کام کرنے والے اداکار رضا مراد کا بچپن ہمیشہ فلموں سے جڑا رہا ان کے ماموں امان اللہ خان نے مغل اعظم اور پاکیزہ جیسی فلموں کے مکالمے لکھے ہیں۔ اس طرح مشہور اداکارہ زینت امان جو امان اللہ خان کی دختر ہیں رضا مراد کی حقیقی ماموں زاد بہن ہوتی ہیں اور اداکارہ سونم اور صنوبر کبیر ان کی بھانجیاں۔ رضا مراد کے والد نے انہیں 1969 میں اداکاری سیکھنے کے لئے فلم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پونے میں شریک کروایا کہتے ہیں انہو ںنے جوہر محمود دان گوا اور ہمارے غم سے مت کھیلو فلموں میںبھی کام کیا، لیکن انہیں پہلی بار بی آر اشارہ کی فلم ’’ایک نظر‘‘ سے پہچان ملی جو 1972 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں امیتابھ بچن اور جیا بہادری کے مرکزی کردار تھے۔ اس فلم میں جو کردار رضامراد نے نبھایا تھا وہ پہلے شتروگھن سنہا نبھانے والے تھے لیکن شترو کی مصروفیت کی وجہ یہ موقع انہیں مل گیا۔ اس کے بعد 72 میں ان کی بندیا اور بندوق، پھر 73 میں پیاسی ندی جیسی فلمیں آئیں۔ گلزار صاحب نے رشی کیش مکرجی سے 1973 میں آئی امیتابھ بچن اور راجیش کھنہ اسٹار فلم نمک حرام میں ایک ناکام شاعر کے کردار کے لئے رضامراد کی سفارش کی۔ اس رول سے انہیں عوام میں بے حد مقبول کردیا کیریئر کی شاندار پیمانے پر شروعات کے باوجود انہیں فلمیں کم ہی مل رہی تھیں، لیکن 1982 میں آئی راجکپور کی فلم پریم روگ نے انہیں وہ پہچان دی جس کے وہ حقدار تھے۔ 80 سے 90 کے دہے تک رضامراد نے ہندی فلموں میں غضب کے کردار کئے۔ رضا مراد نے چند پنجابی، بھوجپوری اور علاقائی فلموں کے علاوہ کئی ٹی وی سیریلس بھی کئے۔ ان کی یادگار کرداروں والی فلموں میں روٹی کپڑا اور مکان، جانی دشمن، لیلی مجنوں، ایک دوجے کے لئے، کالیا، پریم روگ، رام تیری گنگا میلی، غلامی، جانباز، خطروں کے کھلاڑی، تری دیو، رام لکھن، حنا، پھول اور کانٹے، وشواتما، مہرہ، بازی، گیت، مرد، لاوارث، جودھااکبر، حالیہ ریلیز باجی راؤ مستانی اور پدماوت شامل ہیں۔ رضامراد پچھلے دنوں پروڈیوسر ڈائرکٹر ڈاکٹر کرشنا مورتی کی فلم ڈیڈی بیٹی بچاؤ کی شوٹنگ میں حصہ لینے کیلئے حیدرآباد آئے تھے جس میں توفیق خان مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔ اس موقع پر ان سے ہوئی ایک ملاقات کا خلاصہ یہاں پیش ہے۔
س : ایکٹنگ تو آپ کو وراثت میں ملی ہے کیا ماحول تھا جب آپ اپنے والد مراد صاحب کے ارد گرد رہ کر اداکاری کو اپنانا چاہتے تھے؟
ج : سب سے پہلے تو میں یہ بتادینا چاہوں گا کہ ایکٹنگ خداداد صلاحیت ہوتی ہے اوپر والا اس فن سے جسے نواز دیتا ہے وہی دنیا میں اس کام میں نام کما لیتا ہے۔ میرے خیال سے ایکٹنگ کسی کو ورثہ میں نہیں ملتی۔ مثلاً دلیپ صاحب کے والد اداکار نہیں تھے، سنجیو کمار اور راجیش کھنہ کے والد اداکار نہیں تھے یا پھر امیتابھ بچن کے والد یا نصیر الدین شاہ کے والد اداکار نہیں تھے۔ شاہ رخ خان کے والد کوئی اداکار نہیں تھے۔ اس کے برعکس فلمی دنیا میں ایسے کئی ہیں جو فلمی خاندانوں سے آئے لیکن نام نہیں کما سکے۔
س :وراثت میں اداکاری نہ بھی ملی ہوتو گھریلو ماحول فلمی ہوتو ہمارے خیال میں تھوڑی آسانی ضرور ہو جاتی ہوگی؟
ج : ہاں میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کیونکہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والد محترم کو دیکھا ہمارے گھر میں بھی ماحول رہا ہے جب مغل اعظم بن رہی تھی تو ہمارے گھر کے آصف صاحب آتے تھے۔ دلیپ صاحب کا بھی ہمارے گھر آنا جانا تھا۔ انہوں نے میرے والد کے ساتھ آن، انداز، دیدار، یہودی، دیوداس جیسی بہت ساری فلمیں کی ہیں۔ میرے والد کے دلیپ صاحب سے بڑے قریبی تعلقات تھے۔ مدھو بالا اور ان کے والد بھی ہمارے گھر آیا جایا کرتے تھے۔ اسی ماحول میں ہم پلے بڑھے لیکن میں بہت چھوٹا تھا مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ شخصیتیں کون ہے عقل آئی تو پتہ چلا کہ والد صاحب ایک فلمی اداکار ہے اور ایک بڑی شخصیت نمایاں بھی ہے اور یہی وجہ رہی کے میں بھی اپنے والد سے متاثر رہا۔ یہ بات مجھے معلوم تھی کہ میں اپنے والد جیسا خوبصورت نہیں ہوں وہ گورے چٹے تھے۔ سنہرے بال، ہری آنکھیں اور گرجدار آواز تھی میرے ماموں امان اللہ خان ایک کامیاب رائٹر تھے انہی کی دختر زینت امان ہے جو میری حقیقی ماموں زاد بہن ہے۔ ایسے میں میرا اداکار بننا ضروری تھا۔
س : اس کے باوجود کیا آپ نے باقاعدہ اداکاری کی تربیت بھی حاصل کی؟
ج : ہاں 1969 میں میرے والد نے مجھے فلم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا پونے میں داخلہ دلوادیا باقاعدگی سے میں نے وہاں ایکٹنگ کی باریکیاں سیکھیں وہاں ایک ماحول تھا جہاں فلمیں اوڑھنے اور بچھونے کے برابر تھیں وہاں پر ہمارے سینئرس تھے شتروگھن سنہا، جیا بہادری، اسرانی، ریحانہ سلطان، سبھاش گھئی، پھر وہاں سے پاس کرکے آنے کے بعد سب ہم سے عزت سے پیش آتے تھے لیکن میں نے کبھی کام حاصل کرنے کے لئے اپنے والد صاحب کی مدد نہیں لی۔ میں کام کی تلاش میں پروڈیوسرس کے آفس جایا کرتا تھا۔
س : کام حاصل کرنے کی جدوجہد کے بعد آپ کو پہلا بریک کب اور کیسے ملا؟
ج : مجھے پہلا بریک بی آر رشاہ صاحب نے دیا وہ ایک فلم ڈائرکٹ کررہے تھے جس کا نام ایک نظر تھا جس میں امیتابھ بچن اور جیا بہادری تھے۔ یہ رول شتروگھن سنہا کرنے والے تھے لیکن وہ اس وقت کافی مصروف تھے۔ اس کے بعد گلزار صاحب نے رشی داسے فلم نمک حرام کے لئے میری سفارش کی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ میں جو رول تم کو دینے جارہا ہوں وہ خوش قسمت ایکٹر کو سال میں ایک بار اور بدقسمت ایکٹر کو پوری زندگی میں نہیں ملتا۔ پہلے ہی دن مجھے راجیش کھنہ کے ساتھ ایک سین کرنا تھا مجھے معلوم ہوا تھا کہ اس رول کے لئے کھنہ نے ان کے گرووی کے کھنہ کی سفارش کی تھی، لیکن رشی دا نے ان کی نہیں مانی تھی فلم زبردست ہٹ ہوگئی۔ میرا رول بھی یادگار ہوگیا۔
س :اس کے بعد تو آپ کی جدوجہد ختم ہوگئی ہوگی۔ آپ مصروف ہوگئے ہوں گے؟
ج : جی نہیں اس کے بعد بھی میری جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ تعریف تو بہت ملی لیکن کام نہیں مل رہا تھا چنانچہ میں نے کچھ پنجابی فلمیں اور چھوٹے چھوٹے رول بھی کرنے شروع کئے۔ گذارہ تو کرنا تھا مختصر یہ کہ فلم انڈسٹری میں کام حاصل کرنا ممبئی کی کوئی کھچا کھچ مسافرین سے بھری لوکل ٹرین میں اپنے لئے جگہ بنانا ہوتا ہے۔
س :نمک حرام کے بعد چھوٹی بڑی فلمیں کرتے ہوئے زندگی یہاں تک آئی لیکن ایسی وہ کونسی فلمیں ہیں جس میں آپ نے اپنے آپ کو ثابت کیا؟
ج : جب مجھے راجکپور جی نے بلایا یہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، انہوں نے مجھے اپنی فلم پریم روگ میں ٹھاکر وریندر پرتاپ سنگھ کا رول دیا۔ انہوں نے مجھے رول دینے سے پہلے یہ کہا تھا کہ اس رول کے لئے ہمارے ذہن میں صرف آپ ہیں اس رول کے لئے اگر آپ انکار کریں گے تو ہم اور کسی کے بارے میں سوچیں گے اور ابھی تک ہمارے پاس اس رول کے لئے کوئی دوسرا بھی نہیں ہے۔ یہ میری زندگی کا پہلا نگیٹیو رول تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے مجھے سنجیدگی سے لینا شروع کیا پھر میں نے ان کی رام تیری گنگا میلی میں کام کیا تو اس کے بعد راستے کھلتے گئے اور میں نے بڑی بڑی اچھی اچھی فلمیں کی ہیں۔
س : سیاست کے قارئین کیلئے آپ کا پیغام کیا ہے؟
ج : جناب زاہد علی خان صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ سیاست نے صحافت کے میدان میں انقلاب لایا ہے۔ ان سے ہمارے بہت ہی قدیم اور قریبی روابط رہے ہیں۔ یہ ایک اردو کا بہترین اخبار ہے جو قوم کی آواز کو حکومتوں تک پہنچاتا ہے۔ اس اخبار کو اس معیار تک پہچانے میں اخبار کے مدیران نے کافی سخت محنت کی ہے جس کی وجہ یہ مصدقہ خبروں کے لئے ساری دنیا میں پڑھا اور جانا جاتا ہے۔صحیح معنوں میں یہ اردو اور قوم کی بڑی خدمت کررہا ہے۔