احسان

مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد
اﷲ کے رسول ﷺ نے جو دنیا کو اصول بتلائے اُن پر خود بھی عمل کیا اور احسان کا بدلہ اچھے انداز میں دینے کا اعلان فرمایا۔ وادی بنوشعیب سے نکلنے کے بعد دو جلیل القدر صاحب احترام شخصیتیں اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔ جن کا حضور اکرم ﷺ کو بڑا خلق تھا ۔ ایک سردار مکہ سردار بنوہاشم ابوطالب تھے جو آپؐ کے چچا تھے یہی تو تھے حضرت عبدالمطلب کے بعد آپ کی حفاظت اور نگرانی فرماتے جو ہر معاملہ میں سینہ سپر ہوکر کفاران مکہ کو جواب دیتے ۔ آپ کا رحلت فرمانا حضور کیلئے تکلیف دہ رہا اور وہ زوجہ محترمہ جن کو یہ سعادت و منزلت ملی تھی کہ روئے زمین پر حضور اکرم ﷺ سے وحی الٰہی کے الفاظ سنے اور سب سے پہلے داخل اسلام ہوئیں۔ اپنا کل اثاثہ جس میں تجارتی سامان بھی تھا حضور اکرم ﷺ پر نچھاور کردیا ، جو بہترین رفیق زندگی رہیں جن کی حضور اکرم ﷺ نے برملا تعریف فرمائی ۔ میری سب سے اچھی بیوی خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ یہ بھی اس دنیا سے کوچ کرگئیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے غلام حضرت زید کے ساتھ طایف کا سفر کیا جو سب سے بڑا امتحان تھا جس کا ذکر حضورؐ نے فرمایا تھا ۔
واپسی ہونے پر آپ کوہ حرا جو جبل نور بھی کہلاتا ہے ۔ چند سرداران مکہ کو اپنی امان میں لینے کیلئے کہا ۔ اخنس بن شریخ ، سہیل بن عمر جنھوں نے انکار کردیا ایسے پُرآشوب مرحلے پر آپؐ نے مطعم بن عدی سے کہا جو نہ صرف آپؐ کو امان دینے کیلئے تیار ہوا بلکہ اپنے بیٹوں سے کہا کہ محمدؐ کو تلواروں کے سائے میں گھر پہنچاؤ ۔ یہی نوجوان حضؤر اکرم ﷺ جب طواف کعبہ کررہے تھے ایک محافظ دستے کی طرح حفاظت میں لگے تھے ۔ وقت گذرتا گیا ۔ غزوہ بدر میں ۷۰ ستر مشرکین مکہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اس وقت حضور اکرم ﷺ نے مطعم بن عدی کو یاد کیا اور کہا اگر مطعم زندہ ہوتے اور ان افراد کی سفارش کرتے کہ ان کو آزادی دی جائے تو میں اُس احسان کے تحت ان سب قیدیوں کو آزاد کردیتا جو طائف سے واپسی کے وقت مطعم بن عدی نے کیا تھا ۔
غزٖوۂ بدر میں حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کو بھی مشرکین مکہ نے گھسیٹا اور وہ بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوگئے اور جنگی قیدیوں میں شامل ہوگئے ۔ آپ کے کپڑے پھٹ گئے تو عبداﷲ بن ابی سلول نے اپنے کپڑے دیئے ۔
چچا پر احسان کرنے کے بعدلے رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی سلول کیلئے حضور نے ان کے بیٹے عبداﷲ کے کہنے پر اپنے کپڑے اُن کے کفن کے لئے دیئے اور نماز جنازہ بھی پڑھائی ۔ آج ہمیں اپنی زندگیوں میں اسی نقش قدم کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے کہ احسان کا بدلہ اس سے اچھے انداز میں دیا جائے یہی تعلیم محمدی ہے جس سے ملسلمانوں میہں ایک نکھار آئے گا ۔ اﷲ ہمیں توفیق دے ۔ آمین