احساس کا سفر … ایک مطالعہ

دستگیر نواز
ایک کتاب جس کا عنوان ’’احساس کا سفر‘‘ پر جب پڑی ہماری نظر دل نے کہا دیکھیں آخر ہے کیا اس کے اندر۔ دماغ نے کہا پتہ تو چلے کہ کس کا احساس ہے اور کہاں سفر کر رہا ہے ۔ اس سوچ و فکر نے ہمیں اس کتاب کا مطالعہ کرنے کیلئے رضامند کیا۔
ہم نے اسے بغور ورق در ورق پڑھنے کا عمل شروع کیا تو ہمیں یہ احساس ہونے لگا واقع یہ تخلیق کار کے احساس ہی کا کمال ہے کہ اس نے اتنے سنجیدہ کلام سے شائق شعر و سخن کو مستفید ہونے کا یہ خوشگوار احساس فراہم کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تخلیق کار نے اپنے دلی جذبات، احساسات، خیالات ، دماغ میں ہلچل مچاتی ہوئی سوچ و فکر ، احتجاج کرتی ہوئی ضمیر کی آواز اور دل و دماغ میں طوفان اٹھاتے ہوئے سوچ و فکر کے تانے بانے سمیٹ کر انہیں نہایت ہی دیانتداری کے ساتھ کلام کی شکل میں پیش کرنے کامیاب کوشش کی ہے جو قابل تحسین ہے۔
’’احساس کا سفر‘‘ شعری مجموعہ ہے جس کے خالق ظفر رانی پوری ہیں۔ ظفر رانی پوری کا مختصر سا تعارف یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جو گزشتہ دیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے دنیائے ادب کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے چلے آرہے ہیں۔ موصوف کا پورا نام علاء ا لدین ظفر ہے ، قلمی نام ظفر رانی پوری اور تخلص ظفر رکھتے ہیں۔ بہار کی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں، سیوان ان کا آبائی مقام ہے جہاں ایک قصبہ رانی پور ہے وہیں پر ان کا مستقل ٹھکانا ہے ، اسی مناسبت سے اپنے مقام کی پہچان قائم رکھنے کیلئے موصوف نے اپنی پہچان بنالی ہے ۔ اسی نام ظفر رانی پوری سے دنیائے ادب میں جانے پہچانے جاتے ہیں،۔ اپنے منفرد لب و لہجہ سے اپنی ایک منفرد پہچان بنا رکھی ہے۔
’’احساس کا سفر‘‘ کے تخلیق کار کے بارے میں ڈاکٹر محسن جلگانوی حیدرآباد، ڈاکٹر امرامیری دہلی ، جہانگیر انس بہار نے بہت ہی متاثر کن انداز میں اپنے جذبات ، خیالات ، احساسات کے ساتھ ساتھ ا پنے تعلقات کا بھی تفصیلی ذکر کیا ہے جس کے مطالعہ سے ظفر رانی پوری کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ مجموعہ کلام کے مطالعہ کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ تذکرہ شعرائے سارن اور نئی دنیا ہفت روزہ نئی دہلی میں شائع ہوئے ظفر رانی پوری سے متعلق تاثرات بھی پیش کئے گئے ہیں لیکن ایک کمی سی ہم نے محسوس کی وہ یہ کہ تخلیق کار نے خود سے کچھ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا نہ ہی مرتبہ شاہین ظفر نے اپنے کوئی خیالات قارئین کیلئے پیش کئے ۔ پتہ نہیں اسکے درپردہ کس احساس کا دخل ہے ، خیر یہ تشنگی تو رہی ہے ۔ ہوسکتا ہے اسے شدت سے محسوس کیا جائے گا ۔
چلئے ہم اب آپ کو اپنے مطالعہ کی روداد بتاتے ہیں۔ مجموعہ کا پہلا کلام حمد و ثنا کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔ اس کلام کی تخلیق سورہ فاتحہ سے متاثر ہوکر تخلیق کار کے ذہن میں آئی۔
ساری حمد و ثنا خدا کے نام
بزرگی برتری ہے جس پہ تمام
ذات تیری بڑی رحیم و کریم
اور ہستی ہے تیری سب سے عظیم
یہ اشعار بھی اسی حمد کے ہی ہیں اس کا بھی مفہوم دیکھتے ہوئے چلتے ہیں:
ہر مدد تجھ سے مانگتے ہیں ہم
ہیں گنہ گار، ہو نگاہ کرم
خیر کا معاملہ خدا کردے
راہ سیدھی مجھے عطا کردے
حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ درود و سلام کی اہمیت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا خلاصہ کچھ اس طرح سے کرتے ہوئے اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
ہے عرش پر بھی درود و سلام کی خوشبو
کہاں نہیں مرے آقاؐ کے نام کی خوشبو
جو خوش نصیب ہیںان کو ہی دست رحمت سے
ملے گی حشر میں کوثر کے جام کی خوشبو
چند اشعار تو ایسے ہیں جن کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے حالات ہمارے ساتھ بھی رونما ہوچکے ہیں۔ نہایت ہی شاعرانہ انداز میں شاعر نے اپنی روداد یوں بیان کرجاتا ہے جونظروں سے ہوتے ہوئے قاری کے دل میں سیدھی اتر جائے۔
بکھرے ہیں کیسے ورق جانتے ہیں ہم
رشتوں کے ٹو ٹنے کا قلق جانتے ہیں ہم
پھر اس کے بعد جو بھی ہوا کچھ خبر نہیں
پل بھر حسن رنگ شفق جانتے ہیں ہم
گاؤں سے ہجرت کر کے جب لوگ شہر کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں تو شہر کی بھاگتی ، دوڑتی ، گھما گھمی میں گھری ہوئی زندگی کا نظارہ کرتے کرتے انسان کیا محسوس کرتا ہے اور اس کے کیا جذبات ہوتے ہیں ، اس چیز کا خلاصہ اپنے اشعار کے ذریعہ یوں بیان کرتے ہیں موصوف
خود میں پتھر کی طرح انسان ہوجائے گا کیا
ہر کوئی اب بے حس و بے جان ہوجائے گا کیا
کوئی بھی تو ہو جو پہچانے ، کرے میری شناخت
شہر میں اپنے ظفر انجان ہوجائے گا کیا
اسی طرح کا ایک اور شعر بھی دیکھئے ۔
پتھر کے اس شہر میں کون منائے سوگ
ہم بھی ویسے ہوگئے جیسے ہیں سب لوگ
’’احساس کا سفر‘‘ کے بہت سارے اشعار کے اندار احساس سے متعلق شاعر کے احساسات کا ثبوت تقریباً ہر دوسرے شعر میں مل جاتا ہے ۔ جسے قاری نہ صرف محسوس کرسکتا ہے بلکہ یہ اشعار قاری کو بہت ہی حسین انداز سے اپنے طرف راغب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اسی قبیل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
مری جدائی کا احساس جب بھی ہوتا ہے
وہ منہ چھپا کے اکیلے میں خوب روتا ہے
اتر جائیںجو قلب و روح میں احساس کو چھولیں
یہی اشعار تو شاعر کی فن کاری سے نکلے ہیں
ایک انجانی سی الجھن اک دوانہ پن سا ہے
یہ مرا احساس میری جان کا دشمن سا ہے
بس اسی طرح سے وہ ہر کلام میں کچھ نہ کچھ اپنے جذبات ، خیالات، واقعات اور احساسات کے بیباکانہ اظہار کے ذریعہ بڑی فراخدلی سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شاعر ظفر رانی پوری کے اس شعری مجموعہ’’احساس کا سفر‘‘ کا 102 صفحات کا سفر ( مطالعہ ) مکمل کرنے کے بعد ہم نے جو محسوس کیا وہ سب احوال اس تبصرہ کی شکل میں پیش کردیئے ہیں اور احساس سے متعلق ایک شعر بھی پیش کئے دیتے ہیں جو ’’احساس کا سفر‘‘ کے مطالعہ کے دوران مسلسل ہمارے ذہن میں شدت احساس کے ساتھ سفر کرتا رہا ہے ۔ یعنی روہ رہ کر اپنا احساس دلاتا رہا ہے ، اس شعر کے خالق کا نام تو یاد نہیں رہا لیکن شعر کچھ اس طرح کا ہے  :
بہت اُمید رکھنا پھر بے آس ہونا بھی
بشر کو ماردیتا ہے بہت حساس ہونا بھی
بہرحال شائق شعر و سخن اس مجموعہ سے محظوظ ہونے کیلئے مصنف سے اس نمبر 91-9533-957-102 پر ربط کر کے 200/- روپئے ادا کرتے ہوئے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔