اجتماعی شادیاں اور خرافات

سوال :  آج کل مسلمانوں میں اجتماعی شادیاں رواج پارہی ہیں۔ ان اجتماعی شادیوں میں تقریباً وہی خرافات دیکھے جاتے ہیں جو عام شادیوں میں ہوتے ہیں۔ اگرچیکہ نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ بعض مقامات پر بڑے بڑے علماء کو بھی ان اجتماعی شادیوں کی سرپرستی کرتے دیکھا گیا ہے۔ اس صورت حال کا شرعاً کیا حکم ہے۔ کیا ایسی دعوتوں کو قبول کر کے اس میں شرکت کی جاسکتی ہے ۔
محمد ایوب، رین بازار
جواب :  دعوت ولیمہ بشرطیکہ اس میں لغویات، لہو و لعب اور منکرات نہ ہوں قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ اس کے سوا دوسری دعوتوں کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا گو کہ مدعو کو اختیار ہے لیکن قبول کرنا افضل ہے کیونکہ اس سے دعوت دینے والے کا دل خوش ہوتا ہے ، کسی بندہ مومن کے دل کو خوش کرنا بھی نیکی و ثواب کا عمل ہے جس پر اجر و ثواب مرتب ہوتا ہے ۔
شادی بیاہ کی دعوت میں منکرات جیسے گانا بجانا وغیرہ ہوں، اور دسترخوان علحدہ مقام پر ہو یا دونوںایک ہی مقام پرہوں لیکن گانا بجانا موقوف کردیا گیا ہو تو اس دعوت میں کھانا کھانے کی اجازت ہے۔ یہ حکم عام افراد امت کے لئے ہے اورجو قوم کے پیشوا اور مقتدیٰ کہلاتے ہیں، منکرات و لہو و لعب کو موقوف کروانے پر اگر ان کو قدرت نہ ہو تو چاہئے کہ وہ وہاں سے فوری واپس لوٹ جائیں۔
صدر بالا حکم اس وقت ہے جبکہ دعوت میں آنے کے بعد منکرات کا علم ہو، پہلے ہی سے اگر اس کا علم ہو تو کسی کو بھی خواہ وہ پیشوایان قوم ہوں یا عام افراد امت ہوں دعوت میں شرکت سے احتراز کریں۔ اگر کوئی دعوت فخر ومباھات، ریاکاری ، اظہار شان و شوکت کے لئے ہورہی ہو تو اس میں شرکت سے گریز کریں۔ (ملخص از شامی کتاب الحظر والا باحۃ) مذکورہ در سوال صورت میں شادی ، بیاہ کی تقاریب خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ہر صورت میں ان تقاریب کا لہو و لعب ، خرافات و منکرات سے پاک ہونا شرعاً لازم ہے۔ مسلمانوں پر شرعاً لازم ہے کہ وہ اپنے تقاریب خوشی و مسرت کو دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ بصورت دیگر قبولیت دعوت اوراس میں شرکت سے متعلق حسب صراحب درجواب احکام شرع پر عمل کریں۔
ملگیات بنک کو کرایہ پر دینا
سوال :  ایک مسلمان شخص اپنا مکان اور ملگیات بنک کو کرائے پر دینا چاہتے ہیں۔ کیا بنک کو کرایہ پر دینا درست ہے ؟
محمد عبدالقدوس، نیو ملے پلی
جواب :  مسلمان اپنی ملکیت غیرمسلم بنک کو کرایہ پر دے تو اس کے کرایہ کا حصول اور اس سے استفادہ اس کے لئے شرعاً جائز ہے ۔ ہدایہ کتاب الاجارۃ ص : 281 میں ہے (ویجوز استیجارالدور والحوانیت للسکنیٰ وان لم یبین مایعمل فیہ ولہ أن یعمل کل شئی) للا طلاق

مسجد کی آمدنی کومتولی کا اپنے تصرف میں لانا
سوال :  میدک کی ایک مسجد کے صحن میں قدیم سے ایک وسیع و عریض حوض ہے۔ اب یہ علاقہ کمرشیل ہوچکا ہے۔ متولی صاحب کا مکان اس مسجد سے متصل ہے ۔ اس حوض کو پا ٹ کر اپنی ذاتی منفعت کے لئے ملگیات کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں محض اپنی منفعت کے لئے مسجد کے حو ض کو پا ٹ کر ملگیات تعمیر کرنا متولی صاحب کے لئے شرعاً جائز ہے یا کیا ؟
نام ندارد
جواب :  صورت مسئول عنہا میں بشرط صحتِ سوال مسجد کے حوض کو پاٹ کر وہاں ملگیات تعمیر کئے جائیں اور مصلیوں کے لئے وضو کا متبادل انتظام کیا جائے تو جائز ہے لیکن ان ملگیات کی آمدنی متولی کو اپنے تصرف میں لانا جائز نہیں کیونکہ مسجد کی موقوفہ اراضی پر تعمیر ملگیات سے جو آمدنی ہوگی وہ مسجد ہی کے مصارف میں صرف کرنا ضروری ہے۔ الاسعاف فی احکام الاوقاف ص : 19 میں ہے : لو غرس فی المسجد تکون للمسجد لأنہ لا یغرس فیہ لیکون ملکا۔ اگر ان ملگیات کو متولی کرایہ پر لینا چاہے تو شریعت میں اس کی اجازت اس شرط پر ہے کہ متولی اس کا کرایہ دیوڑھا ادا کرے یعنی اگر کوئی ایک روپیہ کرایہ سے لیتا ہے تو متولی دیڑھ روپیہ ادا کرے ۔ رد المحتار جلد 3 ص : 476 میں ہے : وکذا متولِ آجر من نفسہ لو خیرا صح و الا لا ۔ و معنی الخیر ان یأخذ بخمسۃ عشر ما یساوی عشرۃ۔

دوسرے آدمی کا اقامت کہنا
سوال :  ہماری مسجد میں ایک مؤذن صاحب تقریباً پچیس سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حالیہ چند عرصہ سے محلہ کے نوجوان بچے پابندی سے نماز کو آتے ہیں تو وہ اذان دیتے ہیں اور مؤذن صاحب صرف اقامت کہتے ہیں۔ مغرب کی نماز میں مؤذن صاحب مؤذن کے مصلی پر بیٹھے رہتے ہیں، مغرب کی اذان کوئی دوسرا شخص دیتا اور وہ اقامت کہتے ہیں۔ ایسا عمل ایک عرصہ سے جاری ہے کبھی مسجد میں اختلاف نہیں ہوا اور محلہ کے سب نوجوان لڑکے مؤذن صاحب کی بڑی عزت اور توقیر کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا اور کہا کہ جو اذان دے وہی اقامت دے۔ شریعت کی روشنی میںجواب عنایت فرمائیں ؟
شاہد حسین، نامپلی
جواب :   جو اذان دے اس کو اقامت کہنا چاہئے اور اگر ایک شخص اذان دے اور دوسرا اقامت کہے جس کی وجہ سے اذان دینے والے کی دل شکنی ہوتی ہو تو دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے اور اگر دل شکنی نہیں ہوتی ہے تو دوسرے کے اقامت کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اذان دیتے تو حضرت بلال اقامت کہا کرتے اور کبھی حضرت بلال اذان دیتے تو حضرت ابن ام مکتوم اقامت کہا کرتے۔ (ومنھا) ان من اذن فھو الذی یقیم و ان اقام غیرہ فان کان یتاذی بذلک یکرہ لان اکتساب اذی المسلم  مکروہ و ان کان لا یتاذی بہ لا یکرہ (بدائع صنائع ۔ ج : 1 ص : 151 ) اور ص : 152 میں ہے ’’ وروی ان ابن ام مکتوم یؤذن و بلال یقیم و ربما اذن بلال و اقام ابن ام مکتوم‘‘۔
صورت مسؤل عنھا میں چونکہ مؤذن متعین ہے ان کی اجازت سے اذان دی جارہی ۔ لہذا وہ اپنے حق کو استعمال کر رہے ہیں تو شرعاً صحیح ہے۔

نام رکھنا والد کا حق
سوال :  مجھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ لڑکا بڑا ہے ، اس کی پیدائش کے وقت اس کے والد نے اسکا نام اپنی پسند سے رکھا تھا۔ بعد میں مجھے لڑکی ہوئی اس کا نام میں اپنی پسند سے رکھنا چاہتی تھی لیکن میرے شوہر نے اپنی مرضی سے اس کا نام رکھا جو مجھے پسند نہیں ہے۔ اب وہ ایک سال کی ہے۔ ہم اگر اس کا نام بدلنا چاہیں تو بدل سکتے ہیں یا نہیں ؟
لبنیٰ انجم، بہادر پورہ
جواب :   شریعت اسلامی میں نام رکھنے کا حق والد کو ہے ۔ چنانچہ احیاء العلوم ج : 2 ص : 147 حقوق الوالدین والولد میں ہے: قال صلی اللہ علیہ وسلم من حق الولد علی الوالد ان یحسن ادبہ و یحسن اسمہ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : والد پر اولاد کے حق میںسے یہ ہے کہ وہ اس کو حسن ادب سکھائے اور اس کا اچھا نام رکھے۔ اگر والد کا رکھا ہوا نام اچھا نہ ہو تو دوسرے اشخاص اس کو بدل کر اچھا نام رکھ سکتے ہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ برے نام بدل کر اچھا نام رکھا کرتے تھے ۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یغیر الاسم القبیح (ترمذی شریف بروایت سدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کا نام ’’ عاصیہ ‘‘ (نافرمان) تھا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام ’’جمیلہ ‘‘ (خوبصورت) رکھا۔ وعن ابن عمر ان بنتا کان لعمر یقال لھا عاصیۃ فسماھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمیلۃ رواہ مسلم (بحوالہ زجاجۃ المصابیح ج : 4 ص : 40 )
اس حدیث شریف کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی نے برے نام کو بدل کراچھا نام رکھنا مستحب و پسندیدہ قرار دیا ۔ ’’ وفیہ استحباب تغییر الاسم القبیح کما یستحب تغییر  الاسامی المکروھۃ الی حسن ‘‘ ( حوالہ مذکور)
لہذا اگر آپ کے شوہر کا رکھا ہوا نام اچھا نہیں ہے اور آپ اس کو بدل کر اچھا نام رکھنا چاہیں تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اس سلسلہ میں شوہر کو راضی کرلیں تو بہتر ہے ۔ ردالمحتار ج : 5 کتاب الحظر والاباحۃ میں ہے : وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یغیر الاسم القبیح الی الحسن جاء ہ رجل یسمی اصرم فسماہ زرعۃ وجاء ہ آخر اسمہ المضطجع فسماہ المنبعث وکان لعمر رضی اللہ عنہ بنت تسمی عاصیۃ فسماھا جمیلۃ

غیر مسلم کا نماز ادا کرنا
سوال:   ادباً عرض کرنا یہ ہے کہ میں دبئی میں رہتا ہوں اورمیرے ساتھ میرے گھر میں ایک ہندوستانی لڑکا رہتا ہے اور وہ غیرمسلم ہے اور وہ میرے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور روزہ بھی رکھتا ہے اور جمعہ کے دن مسجد میں آتا ہے اور ہمارے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتا ہے۔ کیا اس لڑکے کے روزہ رکھنے سے روزہ قبول ہوتا ہے اور کیا یہ نماز پڑھنے سے اس کی نماز ہوجاتی ہے کیا اس لڑکے کے مسجد میں جانے اور مصلیوں کے ساتھ جمعہ پڑھنے سے تمام مصلیوں کی نماز صحیح ہوگی کیونکہ یہ لڑکا غیرمسلم ہے۔ مہربانی ہوگی کہ آپ اس سوال کا جواب دیں تاکہ میں اس لڑکے کو بتاسکوں ۔
محمد خالد صدیقی، ای میل
جواب :  شرعاً مسلمان ہی نماز روزہ ، زکوٰۃ ، حج اور دیگر احکام شرعیہ کا مکلف ہے۔ غیر مسلم جب تک وہ اسلام قبول نہ کرے احکام شرعیہ کا پابند نہیں۔ اگر کوئی شخص اسلام قبول کئے بغیر احکام شرعیہ ادا کرے تو اس سے کوئی اجر و ثواب متحقق نہیں ہوتا۔ لہذا آپ کے دوست جو آپ کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں تو وہ غیر مسلم ہیں اس لئے ان کو آخرت میں اس کا کچھ اجر و ثواب حاصل نہیں ہوگا اور مسجد میں ان کے نماز ادا کرنے کی وجہ سے دیگر مصلیوں کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ چونکہ وہ آپ کے دوست ہیں اور اسلامی احکامات سے متاثر ہیں، خوش دلی سے احکام شرعیہ مثلاً نماز ، روزہ کو ادا کرتے ہیں تو آپ اس کو غنیمت جانے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں، مؤثر انداز میں اسلام کی تبلیغ کی کوشش کریں، بالخصوص نماز اور روزہ کے دنیاوی اور طبی فوائد سے ان کو واقف کروائیں تاکہ اسلام کی حقیقت ان پر واضح ہوجائے اور وہ داخل اسلام ہوجائیں۔ کسی غیر مسلم کو سیدھا راستہ بتانا اور راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔