اثر غوری کے سانحۂ ارتحال پر اثر جنھیں موت نے بے اثر کردیا

محمد عثمان شہید ۔ ایڈوکیٹ
چکبست نے کیا خوب کہا ہے   ؎
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
اسی طرح عناصر میں جب تک ظہور ترتیب ہے اور یہ ترتیب جاری و ساری ہے اس وقت تک جسم اور روح کا رشتہ قائم ہے ۔ جس گھڑی عناصر جیسے اجزا کا تعلق طبعی منقطع ہوجائے گا جسم سے روح جدا ہوجائے گی اور خاک کا پتلا پیوند خاک ہو کر طاق نسیاں ہوجائے گا ۔ اسی لئے خالق کا فرمان ہے کہ ہر شئے کو فنا ہے کوئی شئے بشمول اولاد آدم باقی رہنے والی نہیں ہے ۔
محمد یوسف غوری المتخلص اثر غوری کا چراغ حیات بزم جہاں میں اپنے کردار و عمل کی روشنی بکھیرتے ہوئے 11 نومبر 2015 کی تقریباً 8 بجے شب ہمیشہ کیلئے گل ہوگیا ۔ اور اپنے پیچھے آنسو بہاتے ہوئے سوگواران کو چھوڑ گیا ۔
اثر غوری صاحب سے ہماری ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی وہ غزل سنارہے تھے ۔
وہ آئیں یا نہ آئیں گھر سجا کر دیکھ لیتا ہوں
گلی کی موڑ تک چکر لگا کر دیکھ لیتا ہوں
بے ساختہ واہ واہ نکل گئی ۔ ہر شعر مرصع تھا ۔ ہر شعر داد کا مستحق تھا ۔ اس مشاعرے کے اختتام پر ہم دونوں کی رسمی ملاقات ہوئی ۔ اس کے بعد دو تین مشاعروں میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا ۔ بالآخر مسکراہٹ ہنسی میں بدل گئی ۔ اور پھر دوستی کا آغاز ہوا ۔ اثر غوری انتہائی شریف النفس انسان تھے ۔ وہ شاعرانہ تعلی سے پرہیز کرتے تھے ۔ کبھی کسی کی پیٹھ پیچھے برائی یا غیبت نہیں کی ۔ ہر چوٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتے اور کہتے ’’سرکار یہ تو چلتا رہتا ہے‘‘ ۔ یا پھر غالب کا یہ مصرعے دہراتے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے
وہ ہمیشہ مجھے ’’سرکار‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے ۔ اثر صاحب ہر ایک سے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ملاقات کرتے ۔ یہ مسکراہٹ گویا ان کی شخصیت کا لازمی جز بن گئی تھی ۔ لگتا تھا خالق ایزدی نے مشاعرے کے علاوہ انھیں صرف مسکرانے کے لئے پیدا کیا تھا ۔ اوسط قد لانبے بال ، گہرا سانولا رنگ ، بسا اوقات سوٹ میں ملبوس اثر غوری صاحب مخاطب پر اپنی شخصیت کا گہرا اثر چھوڑ جاتے تھے ۔
اخبار ’’سیاست‘‘ کے اتوار کے ایڈیشن میں جب بھی میرا مضمون شائع ہوتا ، اثر صاحب سب سے پہلے مجھے فون کرکے مبارکباد دیتے ہوئے خلوص و محبت کی بارش کردیتے ۔
1992 میں جب ان کی شریک حیات نے ان کے دامن حیات کو چھوڑ دیا تو اثر گویا اندر سے ٹوٹ گئے ۔ وہ خود کہتے ہیں ’’یہ سانحہ میری زندگی کا سب سے بڑا المیہ تھا‘‘ ۔ زوجہ محترمہ کی بے وقت جدائی تین بیٹیوں کی شادی کا مسئلہ ، تنہائی ، کوئی شریک غم تھا نہ شریک سفر ۔ ان حالات میں اثر صاحب کو کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا تھا کہ زندگی کے سفر میں پیشرفت ہو ، وہ خود لکھتے ہیں
گریاں بشکل شیشہ و خنداں بطرز جام
اس میکدے کے بیچ عبث آفریدہ ہوں
انھیں شاعر کی بے بضاعتی کا شدید احساس تھا ۔ اس احساس کو شعر کی شکل میں یوں ڈھالا
کیا لگاؤں میں نام کی تختی
ایک کمرے کے مکان میں ہوں
اثر غوری نے حمد و نعت بھی لکھی اور بہت خوب لکھی ۔ فرماتے ہیں ۔
عرش اعظم پر ضوفشاں تو ہے
کیا بتاؤں کہاں کہاں تو ہے
دل کے اندر صدا ہے تیری ہی
دل کے باہر بھی نغمہ خواں تو ہے
نعت شریف کا شعر ملاحظہ ہو
تباہی ہر علاقے میں مچی ہے
میں راہ حق سے شاید ہٹ گیا ہوں
دنیا نبیؐ کے نور سے ایسے سنور گئی
ساری خدائی جیسے زمیں پر اتر گئی
اثر غوری نے اظہار بیان کے لئے ایسی بحروں کا انتخاب کیا تھا جو آسان اور رواں دواں ہیں ۔مشکل پیچیدہ اور طویل بحروں سے اجتناب کیا ۔ کیونکہ بقول اثر ایسی بحریں عموماً ترسیل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتی ہیں اور شاعری کی روح کو مجروح کرتی ہیں ۔ اثر غوری جدید لب و لہجے کے شاعر تھے ۔ جدید شاعروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اثر غوری نے یوں لکھا تھا ’’جدید شعراء نے اظہار بیان کی کامیاب ترسیل کے لئے نئی نئی علامتیں خلق کی ہیں اور شاعری کی معنویت اور معنوی جہت کو اتنا وسیع کیا کہ آج کے دور کے انسان کی پیچیدہ نفسیاتی پہلوؤں کی ان علامتوں کے ذریعے عکاسی ممکن ہوسکی‘‘ ۔
(لہو لہو سائباں)
ان کی جدید شاعری کا نمونہ ملاحظے کیجئے
اثر تنہائی کا بستر کسی دن صاف کرلوں گا
غموں کی میلی چادر کو بچھا کر دیکھ لیتا ہوں
اثر غوری صاحب نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ وہ اے پی آر ٹی سی میں بحیثیت کنٹرولر کام کرتے تھے ۔ زندگی کی رہگذر پر اثر صاحب نے پانچ چراغ روشن کئے ۔ چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔
چار بیٹیوں ، ایک بیٹے کا باپ اپنے نواسے کا نانا اب ان سے اتنی دور چلا گیا ہے کوئی آواز ، کوئی پکار ان کی سماعت سے ٹکرا نہیں سکتی ۔ اثر غوری جو کل تک اپنے گھر میں متحرک و فعال تھے اچانک تصویر بن کر دیواروں کی زینت بن گئے ہیں ۔