اتحاد کا ’’دھرم‘‘ نبھانے شیوسینا کی بی جے پی کو ہدایت

ممبئی 13 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی پر آج تازہ تنقید کرتے ہوئے اِس کی حلیف شیوسینا نے ’’اعتماد کی قلت‘‘ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا اور کہاکہ راج ٹھاکرے زیرقیادت مہاراشٹرا نو نرمان سینا سے انتخابات کے پیش نظر قربت میں اضافہ درست طریقہ کار نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ بی جے پی اپنے طور طریقے درست کرلے اور اتحاد کا ’’دھرم‘‘ نبھائے۔ سخت لب و لہجہ والے اداریہ میں جو شیوسینا کے ترجمان ’’سامنا‘‘ میں شائع ہوا، صدرپارٹی ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی سے خواہش کی کہ اتحاد کے دھرم پر قائم رہے اور بال ٹھاکرے کی مثال دی جنھوں نے بی جے پی کے باغی شنکر سنگھ واگھیلا کو گجرات میں شیوسینا کی حکومت تشکیل دینے کی 1996 ء میں کی ہوئی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

اودھو ٹھاکرے نے کہاکہ گجرات میں مودی کی ترقی اِسی لئے ممکن ہوسکی کیونکہ بال ٹھاکرے اتحاد کے دھرم پر قائم رہے اور اُنھوں نے واگھیلا کے ساتھ اتحاد کو قبول نہیں کیا۔ بی جے پی قائدین نے شیوسینا سے انحراف کرنے والوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی ہے۔ اُنھیں اِس تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ادھو ٹھاکرے نے پرزور انداز میں کہاکہ بی جے پی چاہتی ہے کہ مودی ملک کے وزیراعظم بن جائیں لیکن اِس کے لئے بی جے پی کو اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’سامنا‘‘ کے اداریہ میں اُنھوں نے تحریر کیاکہ ہندوتوا کا ہمارا نظریہ اقتدار کے حصول کے لئے نہیں ہے۔ ہم اقتدار کی بھوک کو ہندوتوا کے پردے میں نہیں چھپاتے اور ہندوتوا سے غداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندوتوا کا ہمارا نظریہ کسی بھی شخص کے ہمارے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کا لحاظ کئے بغیر جاری رہے گا۔ ادھو ٹھاکرے نے کہاکہ اگر بی جے پی مرکز میں اقتدار اور مودی کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے تو اُسے اعتماد کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔

اگر آپ دوسروں پر اعتماد نہ کریں تو دوسرے بھی آپ پر اعتماد نہیں کریں گے۔ شیوسینا کے صدر نے کہاکہ اُن کی پارٹی اپنے بل بوتے پر مقابلے کرنے کے قابل ہے۔ اگر آپ دوستوں کو نظرانداز کرنا اور اُن سے غداری کرنا چاہتے ہیں جو آپ کے دُکھ اور سکھ کے ساتھی رہے ہیں تو آپ کو خود غداری کا لیبل اپنے آپ پر چسپاں کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ چند خبروں کا حوالہ دیا جن میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی نے ہر علاقائی پارٹی کو آزمانے اور پس پردہ دوسرے کے ساتھ سودے کرنے کی نئی پالیسی اپنالی ہے۔ اُنھوں نے نشاندہی کی کہ سابق صدر بی جے پی نتن گڈکری کی راج ٹھاکرے سے ملاقات اور ایم این ایس سے لوک سبھا انتخابات میں حصہ نہ لینے کی خواہش تاکہ کانگریس کے حق میں ووٹوں کا ارتکاز روکا جاسکے، حوالہ دیا اور کہاکہ شیوسینا کی جانب سے اتحاد کی برقراری کے لئے اپنی طاقت کے مظاہرہ سے مہاراشٹرا کی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔ بی جے پی کی اعلیٰ سطحی قیادت بشمول راج ناتھ سنگھ اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی ادھو ٹھاکرے کی برہمی کم کرنے کوشاں ہیں۔ ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی پر خود حفاظتی حکمت عملی اختیار کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

اُنھوں نے کہاکہ بی جے پی کی قومی شناخت علاقائی پارٹیوں جیسے شیوسینا کی وجہ سے ہی قائم ہوئی ہے۔ رتھ یاترا کے بعد ہندوتوا کی لہر کے باوجود بی جے پی اپنے بل بوتے پر حکومت تشکیل نہیں دے سکی۔ حالانکہ اِس کے پاس اٹل بہاری واجپائی اور اڈوانی جیسے قدآور قائدین رہبری کے لئے موجود تھے۔ وہ پرمود مہاجن تھے جنھوں نے اتحاد قائم کرنے کے لئے 30 تا 32 پارٹیوں سے نمٹا۔ اُنھوں نے کہاکہ بی جے پی کے ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی پارٹیوں کے اتحاد سے گریز کی خبریں مل رہی ہیں۔ بی جے پی نے ہریانہ میں اپنے حلیف کلدیپ بشنوئی سے مشاورت نہیں کی اور بھارتیہ لوک دل کے پرکاش چوٹالہ سے بات چیت کی۔ اِسی طرح بی جے پی نے چندرابابو نائیڈو کو اعتماد میں لئے بغیر این ٹی راما راؤ کی دختر کو حال حال تک کانگریس کی وزیر تھیں، پارٹی میں شامل کرلیا۔ کئی بی جے پی قائدین رام ولاس پاسوان کے این ڈی اے میں داخلہ پر اُلجھن زدہ ہیں۔ اڈوانی یدی یورپا کو پارٹی میں دوبارہ شامل کرنے پر ناراض ہیں اور سشما سوراج، ونود شرما کو جو جسیکا لال قتل کیس کے مجرم منو شرما کے والد ہیں، بی جے پی میں شامل کرنے پر ناخوش ہیں۔