اب ٹیپو سلطان نشانہ پر

اب ٹیپو سلطان نشانہ پر
سنگھ پریوار کی تنظیموں کی جانب سے مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کی کوششیں ویسے تو بہت پہلے سے ہو رہی ہیں۔ چاہے یہ اورنگ ذیب عالمگیر ہوں یا دوسرے حکمران ہوں ۔ مغل حکمران اکبر ہو یا شاہجہاں ہوں ‘ ہر مسلم حکمران کے ساتھ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں کی تنگ نظر ی متعصب ذہنیت کسی نہ کسی طرح آشکار ہوتی رہی ہے ۔ مسلم حکمرانوں کی رواداری اور ان کے بھائی چارہ کو ان تنظیموں نے ہمیشہ ہی نظر انداز کیا ہے ۔ اب یہ تنظیمیں ٹیپو سلطان کے خلاف آواز بلندکر رہی ہیں جنہوں نے اس ملک پر انگریزی تسلط کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند کی تھی ۔ انہیں ہندوستان کے اولین مجاہد آزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کیلئے ٹیپو سلطان نے اپنے دور کے مرہٹہ حکمرانوں سے بھی دوستی اور مفاہمت کی کوشش کی تھی اور مرہٹہ حکمرانوں کا ایک طبقہ انگریزی سامراج کی مدد حاصل کرنے کی بجائے ان کے خلاف ٹیپو سلطان سے مفاہمت کرنے پر بھی تیار تھا ۔ انگریزوں کو ہندوستان میں سب سے پہلے ناکوں چنے چبوانے میں ٹیپو سلطان سب سے آگے رہے ہیں اور اس مسلم حکمران کی رواداری اور بھائی چارہ کی بھی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ کرناٹک میں سدارامیا حکومت نے 10 نومبر کو ان کی یوم پیدائش منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ریاستی کانگریس حکومت کا یہ فیصلہ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار کی تنظیموں کو پسند نہیں آیا ہے اور وہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف سرگرم ہوگئی ہیں۔ کئی تنظیموں نے اس فیصلے پر احتجاج کیا ہے اور یوم پیدائش تقاریب کے دن ریاست بھر میں مظاہروں کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ وشوا ہندو پریشد نے اس تقریب کو درہم برہم کردینے کا اشارہ دیا ہے تو آر ایس ایس نے ان تمام احتجاج کرنے والی تنظیموں کی تائید کا اعلان کردیا ہے ۔ اس طرح ملک کے اولین مجاہد آزادی کی یوم پیدائش تقریب ہندو تنظیموں کیلئے ناقابل قبول بن گئی ہے ۔ ان تنظیموں کے اپنے عزائم و مقاصد ہیں جس کی تکمیل کے ذریعہ وہ ٹیپو سلطان جیسے حکمران کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اس طرح کے اقدام کے ذریعہ سماج میں ایک بار پھر زہر گھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان عدم روادار حکمران تھے اور کرناٹک کے عوام کی اکثریت ان کی یوم پیدائش تقاریب سرکاری طور پر منانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ایک بہتان ہے جو ملک کے اولین مجاہد آزادی پر باندھا جا رہا ہے ۔ ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے جو کام انجام دئے گئے تھے وہ آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اس حقیقت کو بدلا نہیں جاسکتا کہ ٹیپو سلطان کی سلطنت خداداد کے وزیر اعظم پرنیا پنڈت تھے ۔ ان کے دور حکومت میں کئی مندروں کیلئے حکومت کی مدد جاری کی جاتی تھی اور عوام میں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں تھا ۔ ٹیپو سلطان کے سامنے سب سے اہم اور فوری توجہ کا مسئلہ سلطنت کی برقراری اور ہندوستان پر انگریزی تسلط کی مخالفت تھا ۔ انہوں نے اس پر جو توجہ دی اور جو انگریزوں کے قدم اکھاڑنے کیلئے جو قربانیاں بھی پیش کی ہیں ان کی اس ملک کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں مل سکتی ۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف نہ صرف مسلسل و متواتر جنگ کی بلکہ انہوں نے جب تاوان کی ادائیگی میں مشکل پیش آر ہی تھی تو اپنے شہزادوں کو انگریزوں کے پاس بھیج دیا تھا ۔ تاوان کی ادائیگی کے کچھ وقت کے بعد ان کی واپسی عمل میں آئی تھی ۔ یہ لڑائی صرف سلطنت خداداد کی برقراری یا توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ ہندوستان کی اولین جنگ آزادی تھی اور اس حقیقت کا تذکرہ تاریخ کے بے شمار اوراق میں موجود ہے جس کا آر ایس ایس کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
سنگھ پریوار کی تنظیموں کی جانب سے اس طرح سے مسلم حکمرانوں کی تاریخ سے کھلواڑ اور ان پر بہتان تراشی اور عدم روادار قرار دینا انتہائی مذموم عمل ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ حکومت کرناٹک نے ٹیپو سلطان کی یوم پیدائش تقاریب سرکاری طور پر منانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ۔ اس دن ٹیپو سلطان کے کارہائے نمایاں اور ملک کی جدوجہد آزادی کی شروعات کے ان کے کارناموں کو خراج پیش کیا جانا چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو اس سارے معاملہ کا نوٹ لینا چاہئے اور ان تنظیموں پر لگام کسنے کی ضرورت ہے جو ایک مجاہد آزادی مسلم حکمران کے تعلق سے تاریخ کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔