اب راہول کی شہریت پر سوال

وقت بدلا تو سبھی نے اپنی نظریں پھیر لیں
تم بھی نظریں پھیر لوگے اس کا اندازہ نہ تھا
اب راہول کی شہریت پر سوال
سیاسی زندگی میں ایک دوسرے پر الزامات اور بے قاعدگیوں کا پردہ فاش کرنا معمول کی بات ہے ۔ سیاست میں اکثر قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے اس طرح کی کوششیں کرتے رہتے ہیں تاہم کسی کی قومیت اور شہریت پر سوال اٹھانے کا مسئلہ ہندوستان میں بہت کم پیدا ہوتا ہے ۔ اب بی جے پی کی جانب سے راہول گاندھی کی شہریت پر سوال اٹھایا گیا ہے ۔ ماضی میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی تھی اس وقت سونیا گاندھی کی اطالوی شہریت کا مسئلہ پیدا کرتے ہوئے انہیں ملک کی حکومت سنبھالنے سے روکنے میں بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو کامیابی ملی تھی ۔ یہی نہیں بلکہ خود کانگریس کے کچھ سینئر قائدین نے سونیا گاندھی کی شہریت کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرلی تھی ۔ شرد پوار نے اس وقت پی اے سنگما اور طارق انور کے ساتھ مل کر کانگریس سے علیحدگی اختیار کی تھی ۔ وہ اپنی علیحدہ سیاسی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ سونیا کی شہریت پر سوال کرنے کے باوجود کانگریس کی قیادت میںتشکیل پانے والی مرکزی حکومت میں وہ شامل بھی رہے ہیں۔ان کی پارٹی مہاراشٹرا اور مرکز دونوں حکومتوں میںکانگریس کے ساتھ شامل رہی ۔ اب بی جے پی کی جانب سے راہول گاندھی کی شہریت پر سوال اٹھایا گیا ہے ۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے ‘ جو اکثر و بیشتر متنازعہ بیانات دینے اور سنسنی پیدا کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں ‘ یہ ادعا کیا ہے کہ راہول گاندھی نے لندن میں ایک خانگی کمپنی کے قیام کیلئے اپنی شہریت برطانوی ہونے کا اعتراف کیا تھا ۔ سبرامنیم سوامی نے راہول کی ہندوستانی شہریت اور لوک سبھا کی رکنیت ختم کرنے کیلئے وزیر اعظم اور خود اسپیکر لوک سبھا کو مکتوب بھی روانہ کردیا ہے ۔ کانگریس نے اس الزام کی تردید کی تھی اور اب خود راہول گاندھی نے اس مسئلہ پر واضح چیلنج کیا ہے کہ اگر حکومت کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے تو ان کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا جائے ۔ حکومت یا بی جے پی کے قائدین راہول گاندھی کی وضاحت کو قبول کرنے تیار نظر نہیں آتے ۔ سبرامنیم سوامی خود الزام عائد کرنے کے بعد اب خاموشی اختیار کرچکے ہیں۔
سیاست میں الزام تراشیوں کی روایت رہی ہے لیکن جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اب وہ اپوزیشن میں نہیں ہے بلکہ وہ ملک پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ اگر بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے پاس راہول گاندھی کے تعلق سے کوئی ثبوت موجود ہے تو انہیں اس طرح کی الزام تراشی کرنے یا بیان بازی کے ذریعہ سنسنی پیدا کرنے کی بجائے حکومت کو یہ ثبوت حوالے کرتے ہوئے راہول گاندھی کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ جہاں تک الزامات عائد کرنے کا سوال ہے یہ اپوزیشن کا کام ہے ۔ جس طرح سے للت مودی معاملہ میں کانگریس نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کچھ دستاویزات پیش کرنے کی کوشش کی تھی وہ اس کیلئے واحد راستہ تھا لیکن بی جے پی حکومت میں ہے اور اس کیلئے الزام تراشی مناسب روایت نہیںہے ۔ حکومت اپنے کنٹرول والی تمام تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس طرح کے الزامات کی تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے ۔ اگر برسر اقتدار جماعت اپنے رکن پارلیمنٹ کے ثبوت کو درست مانتی ہے تو اسے تحقیقات کا حکم دینے سے گریز نہیں کرنا چاہئے اور اگر یہ الزامات درست ثابت ہوجاتے ہیں تو پھر راہول گاندھی کے خلاف کارروائی بھی کی جاسکتی ہے ۔ تحقیقات کے احکام کی اجرائی سے گریز اور صرف الزامات عائد کرنے سے یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ یہ محض سیاسی حربہ ہے اور اس میںکسی طرح کی سچائی نہیں ہے ۔ اس طرح کی بیان بازی یا پھر محض سیاسی مقصد براری ہندوستانی سیاست کی روایات اور اقدار کی مطابقت میں نہیں ہے اور اس سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
بی جے پی اور خود وزیر اعظم نریند رمودی پر اکثر یہ ریمارک یا جاتا ہے کہ وہ ہنوز خود کو اپوزیشن میں محسوس کرتے ہیں اور تنقیدوں اور الزامات کا سہارا ہی لیتے ہیں ۔ راہول گاندھی کی شہریت کے مسئلہ میں بھی ایسا ہی تاثر پیدا ہو رہا ہے ۔ واقعی اگر راہول گاندھی برطانوی شہریت رکھتے ہیں یا پھر انہوں نے اپنے دستاویزات میں اس کا ادعا کیا ہے تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے ۔ اس کیلئے پہلے سبرامنیم سوامی کے دعوی کی تحقیقات کی جانی چاہئے اور باضابطہ طور پر دستاویزات پیش کرتے ہوئے خود راہول گاندھی سے بھی وضاحت اور جواب طلب کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ایسا نہیںہے اور محض سیاست کی جا رہی ہے تو پھر اس طرح کی سیاست سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ محض سیاسی مقصد براری کیلئے ایسے مسائل اٹھانا جن کا ملک کی ترقی یا عوام کی بہتری سے کوئی تعلق نہ ہو ‘ ایک برسر اقتدار جماعت اور اس کے رکن پارلیمنٹ کیلئے مناسب نہیں ہے ۔