ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری اور زرد چہرے

منظور وقار (گلبرگہ)
ابراہیم جلیس 22-09-1923 میں گلبرگہ ضلع کے تعلقہ چنچولی میں پیدا ہوئے ، آپ کی ابتدائی تعلیم گلبرگہ میں ہوئی ۔ حیدرآباد میں میٹرک پاس کرنے کے بعد 1942 ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی۔ اردو ادب اور افسانہ نگاری سے انہیں بچپن سے ہی لگاؤ تھا ۔ ان کا پہلا افسانہ ’’تکونہ دیش‘‘ کے عنوان سے 1943 ء میں ماہنامہ نگار (لکھنو) میں شائع ہوا۔ اس رسالے کے مدیر اپنے وقت کے بلند پایہ صحافی نیاز فتح پوری تھے۔
بعد ازاں ان کے افسانے ماہنامہ ساقی (پاکستان) کے علاوہ ہند و پا ک کے معروف رسائل میں شائع ہونے لگے ، ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’زرد چہرے‘‘ کے نام سے 1945 ء میں شائع ہوا ۔ ابراہیم جلیس کی کوئی 18 تصانیف شائع ہوچکی ہیں ، ان کے افسانوی مجموعہ کے عنوانات ہیں، زرد چہرے ، تکونا دیس ، چور بازار ، ترنگے کی چھاؤں میں، کچھ غم دوراں ، میں مر نہیں سکتا ، آسمان کے باشندے، پاکستان کب بنے گا ، افسانوی مجموعوں کے علاوہ ایک ڈراموں کی کتاب ’’اُجالے سے پہلے‘‘ ایک سفرنامہ ’’نئی دیوار چین ‘‘ تین انشائیوں کی تصانیف’’سننے تو پھنسے ‘‘ نیکی کر تھانے جا ، شگفتہ شگفتہ ایک مزاحیہ کالموں کا انتخاب ’’اوپر شیروانی اندر پریشانی ‘‘ قحط بنگال کے موضوع پر ایک کتاب ’’بھوکا ہے بنگال‘‘ کے علاوہ دو رپورتاژ‘‘ دو ملک ایک کہانی ‘‘ ، ’’جیل کے دن جیل کی را تیں‘‘ شائع ہوچکی ہیں، ان کی جملہ تصانیف میں زرد چہرے ، تکونا دیش، چالیس کر وڑ بھکاری اور رپورتاژ دو ملک ایک ہانی کو بے حد شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔ سقوط حیدرآباد کے بعد آپ 1948 ء میں پا کستان چلے گئے اور مستقبل طور پر کراچی میں قیام پذیر ہوگئے ۔ پاکستان قیام کے دوران روزنامہ امروز (کراچی) میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر خدمات انجام دیں ۔ 1956 ء میں روزنامہ جنگ میں طنزیہ و مزاحیہ کالم نگاری شروع کی ۔ علاوہ ازیں روزنامہ حریت اور روزنامہ مساوات سے وابستہ رہے ۔ خود اپنا ایک ہفتہ روزہ اخبار ’’عوامی عدالت‘‘ جاری کیا ۔ معروف صحافی محبوب حسین جگر عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا شمار ان کے بھائیوں میں ہوتا ہے۔ گلبرگہ کے ممتاز دکنی شاعر سلیمان خطیب اور ممتاز نقاد و خاکہ نگار وہاب عندلیب کا شمار ابراہیم جلیس کے ہم عصر قلمکاروں اور دوستوں میں ہوتا ہے ۔ ابراہیم جلیس کا انتقال 26 اکتوبر 1977 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں ہوا۔ اس تعارف کے بعد آیئے
ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری اور کتاب زرد چہرے پر روشنی ڈالتے ہیں۔
بحیثیت افسانہ نگار آپ تر قی پسند تحر یک سے متاثر ہوکر ملکی انتشار ، افراتفری ، بیروزگاری ، بھوک مایوسی مذہبی جنون کے خلاف نبردآزما ہوئے۔
بعد ازاں قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت قاسم رضوی کی جوشیلی تقریروں اور جذبہ غیرت اسلامی سے متاثر ہوکر ترقی پسند تحریک سے دور ہوگئے ۔ تاہم ان کے افسانوں میں کرشن چندر کی انسان دوستی نظر آتی ہے تو منٹو اور خواجہ احمد عباس کی تندی و تلخی بھی ان کے افسانوں میں زندگی کی تلخیاں جنسی ناآسودگی نفسیاتی کشمکش اور قنوطیت کی جھلکیاں جابہ جا نظر آتی ہیں۔ زبان برجستہ اور رواں ہے طنزیہ جملوں اور مکالموں کے ذریعہ کہانی تخلیق کرنا ابراہیم جلیس کی انفرادیت ہے ۔ ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا اعتراف بے شمار نقادر ادب نے کیا ہے ، یہاں ہم صرف دو مشاہر ادب کے تاثرات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، یوسف ناظم لکھتے ہیں۔
’’ابراہیم جلیس نے اس انسدادی دوڑ میں اپنا نام کانسے اور چاندی کے تمغے پانے والوں کی فہرست میں نہیں سونے کا تمغہ حاصل کرنے والوں کی مختصر سی فہرست میں لکھوایا ۔ زرد چہرے اور تکونا دیش کا یہ نوجوان مصنف آج سے 31-30 سال پہلے ہی قد آور افسانہ نگار بن چکا تھا ۔ اس وقت کے حیدرآباد میں دو ہی نوجوان محبوب تھے ۔ شاعروں میں نظر حیدرآبادی اور نثر نگاروں میں ابراہیم جلیس ، اس نوجوان افسانہ نگار کی ترقی کی رفتار میں طوفان کی سی تیزی تھی اور اس کے ہم جلیس اسے رشک و حیرت کی نظروں سے دیکھتے تھے‘‘۔ (شگوفتہ مئی 1978 ء)
عاتق شاہ رقمطراز ہیں :
’’زرد چہرے ہوں کے چالیس کروڑ بھکاری یا چور بازار ان کی کوئی کتاب اٹھا لیجئے ، اس میں ان کا چبھتا ہوا طنز ابھر کر اپنے پڑھنے والے کے دل و دماغ کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وہ مصنف کے ساتھ زندگی کی ان تلخ اوربے رحم حقیقتوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جس پر اس انداز سے اس کی نظر پہلے کبھی نہیں گئی‘‘ (ماہنامہ شگوفہ مئی 1978 ء )
مشاہر ادب کے ان خیالات کے بعد آیئے اب ہم ابراہیم جلیس کے افسانوں کا مجموعہ ’’زرد چہرے‘‘ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ زرد چہرے ابراہیم جلیس کا اولین افسانوی مجموعہ ہے، یہ کتاب پہلی بار جنوری 1945 ء میں شائع ہوئی 195 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں جملہ پندرہ افسانے شامل ہیں۔ افسانوں کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں بلیک آؤٹ ، فرشتہ ، چور ، تنحواہ کا دن ، آنسو جو بہہ نہ سکے ، رزاق اور عبدالرزاق ، صراطِ مستقیم ، اشرف المخلوقات ، ریلیف فنڈ ، سگ لیلیٰ ، دلدر، توند ، سرخ پھریرا ، درانتی اور ہتھوڑا اور زرد چہرے۔
کتاب کی ابتداء میں قاضی عبدالغفار (مصنف ماہنامہ پیام) کا مقدمہ شامل ہے ، ملاحظہ فرمایئے مقدمہ سے لیا گیا ایک اقتباس
’’یہ کتاب دراصل حقیقت نگاری کی پہلی کوشش ہے جو جلیس نے کی ہے۔ جو موضوع انہوں نے اختیار کیا ہے ۔ سماج کے پست طبقات کی نفسیات وہ ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے ، میں نے ان کے افسانوں میں ایک نو جوان جذبہ دیکھا جو جلیس کی جوانی کو ہندوستان کی سماجی زندگی کی تاریک گلیوں میں لے جارہا ہے۔ ان گلیوں میں جہاں بھوک احتجاج مفلسی اخلاقی اور مالی قنوطیت کے گندے چھیڑوں میں ملک کی انسانیت لپٹی پڑی ہے ، اس نے ہمیں جنسی جذبات کی گھناونی تصویریں دیکھیں ،کہیں غریبوں کی عزت کی کوئی چنگاری چمکتے دیکھی کہیں تعلیم یافتہ بیروزگاروں اور کہیں جاہل مزدوروں کے دلوں کے پردوں میں جھانکا اور جس لہجہ کوئی اثر پیدا ہوا اس لمحہ اپنے قلم کی قوت اس کی تصویر کشی میں لگائی ‘‘۔
کتاب زرد چہرے میں موجود تمام افسانوں کا ہم سرسری جائزہ بھی لیں گے تو ہمارا یہ مضمون ایک ضخیم کتاب کی شکل ا ختیار کر جائے گا ۔ لہذا ہم صرف تین افسانے ’’بلیک آؤٹ‘‘ اشرف المخلوقات‘‘ اور ’’تنخواہ کا دن ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان افسانوں سے ایک ایک اقتباس پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کو ابراہیم جلیس کی طرز تحریر کا پتہ چل جائے۔
’’بلیک آؤٹ ‘‘ بیس صفحات پر مشتمل افسانہ ہے ، اس افسانے کا ہیرو سجاد ایک لا اُبائی اور آزاد خیال نوجوان ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت تلاش کرنے کیلئے لاہور میں مقیم ہے ، اس کا بھائی اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس کے خرچ کیلئے رقم روانہ کرتا ہے ۔ پورا افسانہ سجاد اور اس کے دوست خالد کے درمیان ہونے والے مکالموں پر مبنی ہے ، سجاد سگریٹ پھونکتا ہے ، شراب نوشی کرتا ہے اور خوبصورت عور توں کا دلدادہ ہے۔
اقتباس ملاحظہ فرمایئے :
’’سجادنے جھنجھلاکر کتاب میز پر پھینک دی اور تھکی ہوئی آنکھوں کو تراواہٹ پہنچانے کیلئے بالکونی میں آگیا ، آسمان کے کنارے کسی شرمائی ہوئی لڑکی کے گالوں کی طرح سرخ ہورہے تھے ۔ سانولی سلونی شام آہستہ آہستہ دھرتی پر اتر رہی تھی جیسے کوئی بھکرائی ہوئی لڑکی دبے پاؤں کسی سے ملنے جارہی ہو وہ مسکرانے لگا جیسے کسی کی پتلی لمبی ملائم انگلیاں اس کے دل کو گدگدا رہی ہوں اس کا کمھلایا ہوا دل کھل اٹھا اس لڑکی کی طرح جو عین انتظار کے عالم میں اپنے چاہنے والے کو دیکھ لیتی ہے‘‘۔
’’تنخواہ کا دن ‘‘ یہ افسانہ غریبی افلاس مجبوری ناکام حسرتوںاور خواہشوں کی منہ بولتی تصویر ہے ، اس افسانے کا ہیرو مراد ایک مزدور ہے لوہا کوٹ کرپیٹ پالتا ہے ۔ تنخواہ کے دن اس کی بیوی انتظار کرتی ہے کہ اس کا شوہر کھانے کیلئے کوئی اچھی چیز لائے گا ، ربر کے جوتے یا کوئی تحفہ لے آئے گا مگر تنخواہ کے دن قرض داروں کے تقاضے سود کی رقم اور مکان کا کرایہ ادا کرتے کرتے اس کے ہاتھ میں بس اتنی رقم رہ جاتی ہے کہ مہینہ بھر پیٹ کی آگ بجھا سکے ملاحظہ فرمائے اقتباس :
’’مکان مالک گونبد بابو کا نوکر مکان کا کریہ وصول کرنے آیا تھا مکان کا کرایہ دور روپئے ایک دم دو روپئے ایسے غلیظ مکان کا کرایہ جس میں دو اندھیرے کمرے دھوئیں سے کالی دیواریں ٹوٹے چھپر کا دالان جو برسات میں تالاب بن جاتا ہے ۔ چار قدم کا صحن سنڈاس تک موجود نہیں مگر کرایہ دو روپئے اور مہینے کے مہینے وصول ہوتا ہے ، خواہ مخواہ کا غصہ مراد کے جسم میں سرایت کرنے لگا مگر کس پر غصہ کرے بچارہ اس نے بڑبڑاتے ہوئے دو روپئے نوکر کے ہاتھ میں تھما دیئے گویا وہ روپئے انگارے تھے جن کی جلن کی وہ تاب نہیں لاسکتا تھا‘‘۔
’’اشرف المخلوقات‘‘ یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے ، افسانہ کا ہیرو حقیقت پسند ہے ، خوبصورت لڑکیوں اور ہیجان انگیز عورتوں کے مقابلے چمکتے سکوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پیٹ کی آگ جنسی آگ کو شکست دیتی ہے ، ایک اقتباس ’’سچ مچ میں جانور ہوں جذبات سے عاری انسان ہوں میں نے بھی اس مال روڈ کی حسینہ کو بار بار دیکھا ہے ۔ مگر نہ تو کبھی میرے دل کی دھڑکنوں میں کوئی اضافہ ہوا اور نہ میں نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ میں نے کوئی چیز کھودی ہے ۔ مجھ جیسے نوجوان لڑکے کو دیوانہ بنانے کیلئے اس لڑکی میں کتنی ہی رعنائیاں تھیں، کتنی ہی نزاکتیں تھیں مگر میرا خون سفید ہے ، چاندی کے ایک سکے کی طرح سفید ، اس کی آنکھوں میں ستارے جگمگاتے ہیں اور میری زندگی ایک اندھیری رات کے اندھیرے دور نہیں کرسکتے، مجھے حسن سے زیادہ پیٹ کی پرواہ ہے ، حسن روح کی غذا ہے مگر روپیہ پیٹ کی پیٹ کیلئے تو سب کچھ کیا جاسکتا ہے اور خوبصورت لڑکیاں تو ٹکے ٹکے میں بازار جاؤ وہاں خوبصورتی کی قیمت صرف ایک روپیہ ہے‘‘۔
زرد چہرے کے افسانے قاری کو جھنجھوڑتے بھی ہیں سوچنے پرمجبور بھی کرتے ہیں۔ ہر افسانہ ایک حقیقت اورایک تلخ سچائی کا عکاس ۔ افسانوں کا پلاٹ گھٹا ہوا کہانی بکھرتی ہے اور نہ راستہ بھٹکتی ہے ، تمام ہی افسانے خوصورت بیانیہ کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ابراہیم جلیس صرف ایک افسانہ نگار مزاح نگار ڈرامہ نگار اور رپور تاژ نگار ہی نہیں اپنے عہد کے ایک بلند پایہ قلمکار تھے ۔ ان کی قلمی کاوشوں نے اس دور کے ہزاروں لاکھوں اردو قارئین کو اپنا گرویدہ بنالیا تھا !