آپ کو کیا تکلیف ہے؟

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پنڈت ہری چند اختر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب بھی اپنے کسی شناسا سے ملتے تھے تو معمول کے مطابق یہ نہیں پوچھتے تھے کہ میاں کس حال میں ہو اور کیسے ہو ؟ بلکہ سیدھے سیدھے یہ پوچھ لیتے تھے کہ بھیا تمہیں کیا تکلیف ہے؟ ۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان کا مخاطب انہیں اس سوال کا کیا جواب دیتا تھا ۔ تاہم قیاس اغلب ہے کہ پنڈت ہری چند اختر چونکہ زندہ دل اور بذلہ سنج انسان تھے اس لئے ان کا مخاطب اُن کے اس سوال کو پنڈت جی کی زندہ دلی کے کھاتے میں ڈال دیتا ہوگا اور ہنس کر خاموش ہوجاتا ہو گا ۔لیکن غور سے دیکھا جائے تو پنڈت جی کے اس سوال میں نہ صرف گہری معنویت موجود ہے بلکہ اس میں انسانی ہمدردی کا سچا جذبہ بھی پوشیدہ ہے۔ یوں بھی یہ سوال کہ ’’ کیا حال ہے جناب کا ؟‘‘ اب ایک بوسیدہ اور رسمی سا سوال بن کر رہ گیا ہے ۔ صدیوں سے سماج میں یہ سوال اتنی مرتبہ پوچھا گیا ہے اور اب بھی پوچھا جاتا ہے کہ اب اس سوال کی حیثیت بالآخر ایک دُم چھلہ یا تکیہ کلام کی سی ہوگئی ہے ۔ جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔

ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ کسی نے کسی کا حال پوچھا ہو اور مخاطب نے اچانک اپنے حال کے خراب ہونے کا دُکھڑا رونا شروع کردیا ہو ۔ ایک مہذب انسان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ اس سوال کے جواب میں یہ کہہ دے کہ بالکل ٹھیک ہوں ، خیریت سے ہوں ، آپ کی دعاؤں کے طفیل اچھاہوں اور اوپر والے کا کرم ہے وغیرہ ۔ اگر خدانخواستہ وہ بے انتہاء تکلیف میں بھی ہوتو اپنے حال کے خراب ہونے کا اعلان نہیں کرے گا بلکہ اسے پوشیدہ رکھے گا کیونکہ ہماری قدیم روایات کے مطابق تہذیب اور شائستگی کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی تکلیف کو برداشت کرتا رہے اور اس کا اظہار کسی کے سامنے نہ کرے اور کرے بھی تو اس انداز سے کرے کہ مخاطب کے جذبات برانگیختہ اور برگشتہ نہ ہوں ۔ نمونے کے طور پر دو مہذب افراد کے بیچ بات چیت کا ایک ریکارڈ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے ۔
’’کہو میاں کس حال میں ہو ؟
’’بالکل اچھا ہوں ، آپ کی دُعا ہے ‘‘
’’ بہت دنوں بعد ادھر آنا ہوا ۔ پچھلے ہفتے بالکل غائب رہے ‘‘۔
’’کیا کروں پچھلے ہفتے آپ کی عنایت سے میرے گھر کو آگ لگ گئی تھی ‘‘۔

’’ کیا کہا! گھر کو آگ لگ گئی تھی؟ ‘‘
’’ جی ہاں! گھر کو آگ لگ گئی تھی ، اور وہ بھی گھر کے چراغ سے ‘‘
’’ گھر کے چراغ سے ! کیا مطلب ؟‘‘
’’ مطلب یہ کہ اپنے ہی محلے کے بلوائیوں نے میرے گھر پرحملہ کرکے آگ لگادی تھی ‘‘۔
’’ کوئی مرا تو نہیں ؟‘‘
’’ بلوائیوں کے سوائے ہر کوئی مر گیا ‘‘
’’ پھر تم کیسے بچ گئے ؟‘‘
’’ پولیس نے نقض امن کے اندیشے کے تحت پہلے ہی مجھے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا تھا ‘‘
’’ پولیس کبھی کبھی اچھے کام بھی کردیتی ہے ‘‘
’’ شکر ہے ہماری پولیس کا ورنہ میں بھی کب کا مرگیا ہونا ‘‘
’’ اور کیا حال ہے ؟‘‘
’’ بالکل اچھا ہوں ۔ پانچ دن سے بھوکا ہوں ۔ تین دن سے بخار میں مبتلا ہوں ، جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں ہے مگر آپ کی دعاء سے پھر بھی زندہ ہوں ‘‘۔
’’ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ تم میں صبر جمیل کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ خدا تمہیں اور بھی صبر جمیل عطا کرے ۔ جس حال میں بھی رہو خوش رہو ۔ اسی کا نام زندگی ہے ۔مستقبل میں زندہ رہو تو پھر کبھی ملنے کیلئے ضرور آنا ، خدا حافظ ‘‘

اس بات چیت سے آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ لوگ زیادہ تر رسمی باتیں کرتے ہیں اور ان کے پیچھے کوئی جذبہ ، کوئی ارادہ کار فرمانہیں ہوتا ۔ پنڈت ہری چند اختر ایک ذہین اور زندہ دل انسان تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ رسماً کسی کا حال پوچھنے اور اس شخص کو اپنا حال اچھا بتانے پر مجبور کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ اس سے سیدھے سیدھے اس کی تکلیف کے بارے میں پوچھ لیا جائے تاکہ وہ دل برداشتہ ہوکر ہی اپنی تکلیف بیان کردے کیونکہ اس طرح بھی اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے ۔ گھٹن کو اپنے سینے میں دبائے رکھنے کی بجائے اسے باہر نکال دیں تو آدمی کوتھوڑا بہت سکون مل جاتا ہے ۔ یوں بھی کسی سے اچانک یہ پوچھ لینا کہ وہ کس حال میں ہے کوئی مناسب بات نہیں ہے ۔ کیونکہ آج کے زمانے میں کوئی کسی کے حال کو بہتر بنانے کااہل نہیں رہا اور کسی کو کسی کے حال سے دلچسپی نہیں رہی ۔ نفسا نفسی کا عالم ہے اور اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔ مانا کہ کسی سے اچانک یہ پوچھ لینا کہ اسے کیا تکلیف ہے ایک غلط حرکت ہوگی لیکن سوال بالکل غلط بھی نہیں ہوگا کیونکہ آج کی دنیا میںکوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے کوئی تکلیف نہ ہو ۔ایسے میں ایک رسمی سا سوال پوچھ لینا کہ مخاطب کس حال میں ہے اور پھر اُسے اپنا حال اچھا بتانے کی خاطر جھوٹ بولنے پر اُکسانا بھی گناہ کبیرہ سے کم نہیں ۔ ہمیں علم ہے کہ آپ کسی کی تکلیف کم نہیں کرسکتے لیکن اس طرح آپ تکالیف کے بارے میں اپنی معلومات میں بیش بہا اضافہ تو کرسکتے ہیں۔ مشکلیں اتنی بڑھیں کہ آساں ہوگئیں والے فارمولے پر عمل کرکے آپ اپنی اور دوسروں کی تکلیف کے احساس کو کم بھی کرلیتے ہیں ۔پرانا مقولہ ہے کہ دُکھ بانٹنے سے کم ہوجاتا ہے اور خوشیاں بانٹنے سے بڑھ جاتی ہیں ۔ ہم نے بھی ایک دن پنڈت ہری چنداختر کے طرز عمل کو اپنا کر دیکھ لیا کیونکہ اس دن ہم جس سے بھی ملے یہی سوال پوچھتے رہے کہ میاں تمہیں کیا تکلیف ہے ؟

ایک نوجوان سے ہم نے جب یہ سوال پوچھا تو اس نے کہا ’’ کوئی ایک تکلیف ہوتو بتاؤں یہاں تو سینکڑوں تکلیفیں ہیں ‘‘۔
’’ پھر بھی کوئی بڑی تکلیف ہوتو بتاؤ ؟‘‘
’’ بڑی تکلیف کا ذکر میں آپ سے کیوں کروں ۔ کسی بڑے آدمی سے کیوں نہ کروں ۔ ہوسکتا ہے وہ اس کا کوئی حل نکال ہی لے ۔ آپ تو میری تکلیف کو جان کر صرف مزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔ بلکہ اندر ہی اندر خوش ہوں گے کہ آپ کو یہ تکلیف نہیںہے ۔ آج کا انسان ایسی ہی گھٹیا باتوں سے خوش ہوتا ہے ۔ ‘‘
’’ لیکن میں گھٹیا باتوں سے خوش نہیں ہوتا ‘‘۔
’’ جناب ! آپ کو یہ خوش فہمی ہے ۔ بھلا بتائے آپ میری تکلیفوں کے بارے میں جان کر کیا کریں گے ۔ یہ کام اصولا حکومت وقت کا ہے کہ وہ ہم جیسوں کی تکلیفوں کا حال جانے ۔ پرانے حکمران لوگوں کی تکلیفوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی غرض سے بھیس تک بدل لیتے تھے ۔ آج کے حکمران لوگوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے خود نہ صرف بھیس بدل لیتے ہیں بلکہ عوام کا لباس چھین کر انہیں ننگا کردیتے ہیں تاکہ وہ بھیس بدلنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ ‘‘
ہم نے ایک اور نوجوان سے پوچھا ‘‘ میاں تمہیں کیا تکلیف ہے ؟‘‘
بولا ’’ میری تکلیف سے آپ کو کیا تکلیف ہو رہی ہے ؟‘‘
’’ میں اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں ‘‘۔
’’ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے فائدے کیلئے میری تکلیفیں جاننا چاہتے ہیں ۔ ایسی بات ہے تو میں فی تکلیف دس روپئے معاوضہ لوں گا ۔ میں مفت میں کوئی چیز دینے کا قائل نہیں ہوں‘‘ ۔ ’’پہلے دس تکلیفوں کے سو روپئے پیشگی ادا کرو تو تکلیفوں کا بیان شروع کروں ‘‘۔

’’اُدھار کھاتہ نہیں چلے گا ؟‘‘
‘‘آپ کو شرم آنی چاہئے کہ جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے اور آپ لوگوں کی تکلیفیں جاننے کیلئے نکلے ہیں ۔ جاؤ آگے کا راستہ ناپو ‘‘۔
پھر ہم نے ایک معصوم اور سادہ لوح نوجوان سے پوچھا ’’ میاں ! تمہیں کیا تکلیف ہے ؟‘‘
اس پر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ پھر بولا ۔’’ میری تکلیف یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں دن اتنا بڑا کیوں ہوجاتا ہے ؟‘‘
’’ دن کے بڑے ہونے سے تمہیں کیا تکلیف ہے ؟‘‘
’’ بے روزگاری میں وقت بڑی مشکل سے کٹتا ہے ۔ اتنے بڑے دن کو کاٹنے کیلئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ رات کو آدمی پھر بھی سوجاتا ہے اور گرمی کے دن ہوں تو آدمی کھلے میں سو جاتا ہے اور آسمان پر چاروں طرف تارے ہی تارے ہوتے ہیں ۔ ایسے میں آدمی کو نیند نہ آئے تو وہ تارے گننے میں اپنے آپ کو مصروف رکھ سکتا ہے ‘‘۔
’’ تمہاری بے روزگاری کی خاطر قدرت اپنے موسموں سے تو دستبردار نہیں ہوسکتی ۔ قدرت کا کارخانہ اسی طرح تو چلتا ہے ۔ ‘‘
’’ قدرت کے کارخانے کو چلتے رہنے دیں ۔ آپ بیچ میں مداخلت نہ کریں ۔ اگر میں گرمی کے موسم میں دن کے بڑے ہونے کی تکلیف کا ذکر کر رہا ہوں تو اس سے آپ کو کیا تکلیف ہوتی ہے ۔ دنیا تکلیفوں سے ہی مل کر بنتی ہے ۔ تکلیف ہی زندگی ہے ۔ آج کے دور میں کوئی کسی کی تکلیف کو دور نہیں کرسکتا اور سب سے بڑی تکلیف یہی ہے ۔