آلودگی کا سفر

ڈاکٹر فریدہ زین
قدرت کی بنائی ہوئی ہر شئے پاک صاف و شفاف ہوتی ہے۔ ساری کائنات اس کی پاکی کا مظہر ہے ۔ مگر اس شفاف ماحول کو آلودہ کرنے والا انسان ہے ، جس نے نہ صرف کائنات کو آلودہ کیا بلکہ ذہنوں اور دلوں کو بھی ناپاک کردیا ۔ آلودگی کا بیج جانے کس نے اور کب بویا تھا کہ اسکا پودا دیکھتے دیکھتے تناور درخت بن گیا جس کی جڑیں زمین میں دور دور تک پھیل گئیں ۔
نظر اٹھا کردیکھئے قدرت کے شفاف چشمے ، دور دور تک پھیلی ہریالی ، پھولوں کی خوشبو ، پھلوں کی لذت سبھی میں آلودگی آگئی ہے اور تو اور معصوم ذہن ، نادان جوانی ،دانا ضعیفی سبھی اسکی گرفت میں ہیں ۔
آخر یہ آلودگی آئی کہاں سے ؟ اس سوال کے جواب میں غور کرنے بیٹھ جائیں تو ذہن کہاں کہاں قلابازیاںکھاتا پھرے گا ، اس کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا ۔ آلودگی کا یہ سفر جب سے شروع ہوا ہے پوری کائنات کثافت میں بھرگئی ۔پہلے تو فضا آلودہ ہوئی پھر پانی ، کھانا اور انسان ۔ اس کے بعد ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا  ۔فضائی اور آبی آلودگی تو بڑے شہروں کا حصہ بن گئی ۔ صوتیآلودگی نے ماحول کو کثیف کردیا ، کہیں فیکٹریوں سے نکلتا دھواں ، کہیں بسوں ، لاریوں اور گاڑیوں سے خارج ہوتا دھواں ، بے ہنگم ٹرافک ،مختلف سواریوں کی آمد و رفت پر انجن کی گھڑگھڑاہٹ اور چیختے ہوئے ہارن سماعت کو آلودہ کررہے ہیں ۔ اب بصارت بھی آلودگی کا شکار ہوگئی ۔ عریاں اور چست لباس پہنی حسینائیں ،کچرا چنتے ہوئے نیم برہنہ مریل سے بچے ، کوئی کہاں تک نظر بچائے؟ ذہن کی آلودگی نے تو سماج کو برائیوںکا مسکن بنادیا ۔ مختلف جرائم ،قتل و غارت گری ، چوری چکاری ، لوٹ کھسوٹ ، دغا ،فریب کھل کر دعوت دینے لگے ۔ اس آلودگی نے اعتبار اور بھروسے کو سرے سے مٹا ہی دیا ۔ کون کس وقت کس انداز میں کیا سوچتا ہے سمجھنا مشکل ہے ۔ احساسات اور جذبات بھی آلودہ ہوچکے ۔ رشتوں کا تقدس اس آلودگی میں کہیں گم ہوگیا ۔ ضعیفوں کے لئے آرام گھر سج گئے ، نوجوانوں کے لئے پب اور اسنوکر بار سنور گئے ۔ رات کی تاریکی کو فخر ہونے لگا ۔ گناہوں کی لذت بڑھ گئی  ۔ بڑوں میں شفقت نہ رہی ،چھوٹوں میں شرافت نہ رہی ۔ ایکدوسرے کا مذاق اڑانا شعار بن گیا ۔ جھوٹ ، فریب اور ڈھکوسلہ زندگی کا حصہ بن گئے۔ نہ کسی کے لئے درد دل نہ پاس وفا ، نہ غمگساری نہ چارہ سازی، نہ غمزدوں کی دل بستگی نہ پریشان حالوں کی تسلی، نہ ہمدردی نہ اخلاق ۔ ساری باتیں خیال خام بن گئیں ۔ لوگ ماضی کی شاندار روایتوں کو فراموش کرکے خود غرض  ، لالچی ، وعدہ خلاف ، احسان فراموش اور منافق بن گئے۔

سیاست کی آلودگی نے تو عوام کی کمر ہی توڑ دی ۔ ہر پارٹی جھوٹے وعدوں سے معصوم عوام کو بہلاتی ہے ۔ ووٹ کے حصول کے لئے چکنی چپڑی باتیں ، حصول اقتدار کے لئے ہر سچ کو جھوٹ بتانا ۔ عوام کی راحت کے لئے نہیں ،بلکہ صرف اور صرف اپنی آسائش کے بارے میں سوچنے والے سیاستداں کیا جانیں کس کس طرح کی مہنگائی نے غریب عوام پر بوجھ ڈال رکھا ہے ۔ ایرکنڈیشنڈ ، انورٹر کااستعمال کرنے والوں کو گرمی کی شدت ، برقی کی قلت کا کیا احساس ہوسکتا ہے ۔ آلودہ سیاست نے آلودہ پانی کو عوام کے لئے رکھ دیا ۔ ٹینکرس کے ذریعہ سربراہ ہونے والے پانی کی بھی قیمت لگائی ۔ ٹھنڈے مشروبات سے خود کو ستانے والے لیڈر کیا جانیں کہ ڈرینیج سے آلودہ پانی معصوم بچوں کو کیسے موت کی آغوش میں سلاتا ہے ،گلیوں میں کچرے کے انبار ، سڑی گلی اشیاء کے جلنے کادھواں ، قرب و جوار کے مکینوں کی سانسوں پر کس طرح حملہ آور ہوتا ہے ۔ اچھے دنوں کی امید ، امید ہی رہی ۔ مختلف آلودگیوں سے بھرا ملک سوچھ کیوں کر ہوگا ۔
ہسپتال کو شفاخانے کی جگہ مارچری بنادیا گیا ۔ ڈاکٹروں نے پیشے کو آلودہ کردیا ۔ مریض کے اعضاء کے سوداگر بن گئے ۔ مردہ جسموں کو وینٹیلیٹر کا سہارا دے کر یومیہ ہزاروں کی وصولی کرنا پیشے کے ساتھ سب سے بڑی غداری ہے ۔ کہیں دم توڑتے ، سسکتے مریض دواخانوں کے باہر پڑے نظر آتے ہیں اور آوارہ کتنے وارڈس کے مکین بن جاتے ہیں ۔ دواؤں میں ملاوٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ زہر بھی لیتے ہوئے خودکشی کرنے والا سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہیں یہ بھی آلودہ نہ ہو ۔

انجینئرس نے تعمیراتی سرگرمیوں میں ایسی آلودگی پیدا کردی کہ بلند وبالا عمارتیں ،فلائی اوور برج ٹوٹنے کے حادثات اخبارت کی زینت بن گئے ہیں ۔ ناجائز قبضوں پر اپنی ملکیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے یہ فراموش کر بیٹھے کہ آلودگی کا یہ سودا مہنگا بھی ثابت ہوسکتا ہے ۔
محبت کے نام پر ایثار ، قربانی اور وفا کا تذکرہ نہیں ملتا ۔ برخلاف اس کے اس میں اس قدر آلودگی آگئی ہے کہ محبت کے نام پر انتقام لیا جانے لگا ۔ محبوبہ کے چہرے پر تیزاب ڈالا جاتا ہے تو کبھی اس کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے اور کبھی شادی کے خواب دکھا کر اسے کال گرل بنادیا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس محبت کا اختتام خودکشی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ورنہ محبت تو وہ پاکیزہ جذبہ ہے جو وجہ کائنات بنا ۔ اولاد آدم کو اس محبت کا سرچشمہ بنایا گیا ۔ محبت کے وہ رشتے جو انمول ہوتے ہیں ، پامال ہوگئے ۔ ماں باپ کی شفقتوں میں اولاد کو آلودگی نظر آنے لگی ۔ زر اور زمین سے رشتے تلنے لگے ۔ بھائی ،بہن جائیداد کے لئے دیوانے بن گئے ۔ زن و شوہر کے رشتوں میں آلودگی آگئی ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلاق اور خلع کا رواج ہوگیا ۔ دوستی کے نام پر دغا ، محبت کے نام پر بے وفائی شعار بن گئے ۔ ذہنی آلودگی نے نفرتیں ، کدورتیں ، انتقامی جذبے اور منافقت کا چلن عام کردیا ۔ محبت کی شفافیت آلودہ ہوگئی ۔ زندگی شطرنج کی بساط بن گئی ۔
تعلیم ، ملازمت ، تجارت ، دھوکے کی منڈی میں بکنے والی اشیا بن گئیں ۔ ڈونیشن اور جعلی ڈگریوں کے نام پر علم کو آلودہ کردیا گیا۔ حصول ملازمت کے لئے رشوت کا دروازہ کھلا تو کہیں اقربا پروری نے جگہ سنبھال لی ۔ تجارت کے تو سارے اصول آلودہ ہوگئے ۔ ایمان داری عنقا ہے ، بے ایمانی کا رواج ہے ۔ حلال اور حرام کی تمیز معدوم ہوگئی ۔ جائز و ناجائز کا فرق ختم ہوگیا ۔ انسان خود زندگی کے بازار میں نیلام ہوگیا۔ تجارت نے ایسا زور پکڑا کہ جنس اور جسم میں تمیز نہ رہی ۔ عصمت کے سوداگر شباب کی بولی لگاتے ہیں ، درندہ صفت تاجر اعضائے جسمانی کا سودا کرتے ہیں ۔ بے حس و بے رحم لوگوں نے معصوم بچوں کے اغوا کو پیشہ بنالیا ۔ روزگار کے ذرائع میں آلودگی بھرگئی۔ عریاں اور فحش سی ڈیز کی تجارت تیزی سے ترقی کررہی ہے ۔کھانے پینے کی اشیاء میں آلودگی انسانی زندگی کے لئے خطرے کا سبب بن گئی ۔ ترکاریوں کو اگانے ، پھلوں کو پکانے ،پھولوں کو رنگین بنانے  کے لئے  قدرت کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ نت نئے تجربوں سے اسے آلودہ کرکے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ خود انسان سر تا پا آلودگی سے بھرگیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے اپنے خالق کی عبادت میں بھی آلودگی کو شامل کرلیا ۔ مسجدوں میں خشوع و خضوع نہ رہا ۔ عجلت پسندی نماز کا حصہ بن گئی ہے ۔ آلودہ ذہنوں کے ساتھ عبادت کی جانے لگی ہے ۔ مساجد کو مسلکوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ عالم اسلام کو مسلکی زہر ، آلودہ کررہا ہے ۔ بزرگوں کے آستانوں کو عقیدتمندوں سے نذرانے وصول کرنے کا اڈہ بنالیا گیاہے ۔ رمضان میں افطار کے اہتمام کو تقابل کا حصہ بنالیا گیا۔ تراویح تک مساجد کو آباد رکھا اور عید کے گزرتے ہی مسلمان مساجد سے دور ہوگئے ۔ اپنے خالق کے ساتھ بھی وفاداری نہ نبھاسکے ۔ اپنے مالک کو ناراض کرتے ہوئے یہ بھی سوچنے کی صلاحیت کھو بیٹھے کہ قحط سالی ، زلزلے ، آفات ارضی ،آفات سماوی اسی مالک حقیقی کے غیظ و غضب کا نتیجہ ہیں ۔ اخلاق حسنہ کی تعلیم کو خیرباد کہہ کے بداخلاقی جہالت ، ظلم اور جرم کے نمونے پیش کررہے ہیں ۔ ذہن کی اس آلودگی نے ہر سطح پر کردار کو مسخ کرکے رکھ دیا ۔اس آلودگی کو کیونکر دور کیا جائے ۔ آلودگی کا یہ سفر کیسے ختم ہو ۔ یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے ۔ ہر طرح کی پریشانیوں ، بربادیوں ، مصیبتوں سے ہم گذر رہے ہیں مگر خود کا محاسبہ کرنے کی توفیق ہمیں نہیں ہوتی ۔ پتہ نہیں وہ کون چند بے ریا ، معصوم عبادت گذار بندے ہیں ،جن کے دم سے ابھی یہ بستیاں آباد ہیں ۔
سمندر کے نمکین پانی کو فلٹر کے ذریعے پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ فضا ئی آلودگی دور کرنے کے لئے بہتر نظم و نسق سے کام لیا جاسکتا ہے ۔ حصول علم کو پاکیزہ کیا جاسکتا ہے ۔ کاروبار میں شفافیت آسکتی ہے ۔ کھانے پینے اور جینے میں قناعت سے کام لیا جاسکتا ہے ۔ محبت کو بے لوث ، دوستی کو بے غرض بنایا جاسکتا ہے ۔ خواہشات کو اعتدال پر رکھا جاسکتا ہے ۔ نفس امارہ کو نفس مطمئنہ کی طرف رجوع کیاجاسکتا ہے ۔ مگر یہ سب اس وقت ممکن ہے ، جب انسان خود اپنا معلم ، اپنا محاسب ، اپنا نقاد ، اپنا مصلح اور اپنا منتظم بن جائے ۔ خود شناس ہوجائے تو اسے کسی رہنما یا رہبر کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ بس کتاب اللہ اور کتاب نبویؐ ہی کافی ہیں ۔ اس طرح سے آلودگی کا سدباب ہوسکتا ہے۔  ہم اور ہمارا ماحول صاف ستھرا شفاف بن سکتا ہے ۔ حکم خدا اور روز حشر کا خوف اپنے دل میں رکھیں یقیناً ہر آلودگی ، ہر کثافت پاکیزہ اور لطیف ہوجائے گی ۔ بس تھوڑی سی توجہ دیں خود پر ………!!