آصف جاہی دور میں لسانی پالیسی

آرکائیوز کے ریکارڈ سے     ڈاکٹر سید داؤد اشرف
بہمنی سلطنت اور اس کے زوال کے بعد دکن میں جو پانچ چھوٹی سلطنتیں وجود میں آئی تھیں ، ان تمام سلطنتوں میں علاقائی زبانوںکو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ دکن کے مسلم حکمرانوں کے فرامین سے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل عادل شاہی حکمران کے ایک اور قطب شاہی حکمراں کے ایک فرمان کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ عادل شاہی حکمرانوں کے فرامین میں محمد عادل شاہ کا فرمان مورخہ 9 ذیقعدہ 1051ھ ؍ 20 جنوری 1642ء موجود ہے ، جس میں محمد عادل شاہ نے مرہٹہ حکمراں شیواجی کے باپ شاہ جی بھونسلے کے لئے کرناٹک میں انجام دی گئی خدمات کو سراہتے ہوئے اعلی القاب کا استعمال کیا ہے ۔ اس فرمان میں عادل شاہی حکمراں نے شاہ جی بھونسلے کے لئے فرزند کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اس فرمان کے حاشیے میں مرہٹی میں چند جملے تحریر کئے گئے ہیں ۔

آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ قطب شاہی عہد کے کاغذات میں قطب شاہی حکمرانوں کے فرامین موجود ہیں ۔ ان فرامین کے حاشیوں میں تلنگی میں چند جملے لکھے گئے ہیں ۔ آخری قطب شاہی حکمراں ابوالحسن تانا شاہ کے ایک فارسی فرمان کا تلنگی میں مکمل ترجمہ محفوظ ہے ۔
دکنی کے مسلم حکمرانوں کے دور میں علاقائی زبانوں کو جو اہمیت حاصل تھی آصف جاہی دور میں اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ رائے رایان خاندان کے بانی کرشنا جی پنت شاہ جہاں کے عہد میں مغلوں کی ملازمت میں تھے ۔ نظام الملک آصف جاہ اول مورو پنت اور ناروپنت کو جو کرشنا جی پنت کے بھتیجے تھے اپنے ہمراہ دکن لائے ۔ ان دو مرہٹہ سرداروں نے نہ صرف دکن میں مستقل طور پر قیام کیا بلکہ وہ نظام الملک کے قریبی اور بااعتماد مشیر بن گئے ۔ شنکرجی جو نارو پنت کے بیٹے تھے دکن کے چار صوبوں کے دفتردار کی حیثیت سے برسرکار رہے ۔ شنکرجی کے انتقال کے بعد ان کے دو بیٹے ناناجی پنت اور ڈھونڈھاجی پنت شریک دفتردار کے طور پر اپنے باپ کے جانشین ہوئے ۔ ان بھائیوں نے نظام علی خان آصف جاہ ثانی اور مرہٹوں کے درمیان پرامن تعلقات برقرار رکھنے میں اہم رول انجام دیا ۔ ڈھونڈھاجی پنت کے ایک بیٹے رینوکاداس کو رائے رایاں دیانت ونت اور راجا شام راج کا خطاب دیا گیا ۔ وہ پیشکار بنائے گئے اور انھوں نے ارسطو جاہ کے غیاب میں جبکہ وہ 1781ء تا 1784ء تک پونا میں تھے قائم مقام وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دیں ۔
پونا اخبار 1776ء تا 1781ء کے دوران پوریندر سے اور بعد ازاں پونا سے پابندی کے ساتھ مغل صوبہ دار کے دربار میں بھیجے جاتے تھے ۔
اس طرح عادل شاہی سلطنت کی طرح آصف جاہی دفاتر (نظم و نسق) میں بھی مرہٹی کو کافی دخل حاصل ہوگیا تھا ۔
ابتدائی آصف جاہی عہد کا نظم و نسق دفاتر کے ایک سلسلے پر قائم تھا ۔ یہ دفاتر سرکاری کاروبار انجام دیتے تھے ۔ اس طرز کے نظم و نسق کا ارتقا دکن میں مغل حکمرانی کے دوران میں ہوا تھا ۔ آصف جاہی خاندان کے بانی نظم الملک آصف جاہ اول صوبۂ دکن کے مغل صوبہ دار تھے ۔ اسی لئے ان کے دور میں بڑی حد تک اسی طرز کا نظم و نسق جاری رہا ۔ ابتدائی آصف جاہی دور میں حسب ذیل چودہ دفاتر تھے (۱)دفتر دیوانی (۲)دفتر مال (۳)دفتر داداالانشا (۴)دفتر استیفا (۵)دفتر ملکی (۶)دفتر پیش کاری (۷)دفتر بخشی گیری (۸)دفتر قانون گوئی (۹)دفتر مناصب و خطابات (۱۰)دفتر مواہیر (۱۱)صدارت العالیہ (۱۲)منشی خانہ (۱۳)خزانۂ عامرہ (۱۴)دفتر نظم جمعیت

ان دفاتر میں دفتر دیوانی اور دفتر مال اہم ترین دفاتر تھے اور ان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ اورنگ آباد ، برار ، بیجاپور اور ہربان پور کے انتظامی امور دفتر دیوانی کے سپرد تھے جبکہ حیدرآباد اور بیدر کے انتظامی امور دفتر مال میں انجام پاتے تھے ۔ دفتر دیوانی اور دفتر مال کو نظم و نسق میں محور کی حیثیت حاصل تھی ۔ انتظامی امور میں تفویض اختیارات کے اصولوں کے مطابق دوسرے ماتحت دفاتر دفتر دیوانی اور دفتر مال کی مدد کیا کرتے تھے ۔ ان تمام دفاتر کا ریکارڈ فارسی میں ہے ۔ بعد ازاںان قدیم دفاتر کے نظم و نسق میں بڑی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ۔سالار جنگ اول نے ان دفاتر کو انتظامی امور سے محروم کردیا اور ان کی جگہ بتدریج نئے سکریٹریٹ محکمے قائم کرنے شروع کئے ۔ ان سکریٹریٹ محکموں کا ریکارڈ بھی 1886ء تک فارسی میں ہے
آصف جاہی دور کے مرہٹی کاغذات آندھرا پردیش آرکائیوز کے محافظ خانے میں محفوظ ریکارڈ کے ذخیرہ کا اہم حصہ ہیں ۔ ان کاغذات کو جو دفتر دیوانی میں محفوظ تھے 1944 اور 1946ء میں دفتر دیوانی سے علاحدہ کرکے تفصیلی اور غائر مطالعہ کی غرض سے الگ رکھا گیا ہے ۔ ان مرہٹی کاغذات میں پونا اخبارات ، اسناد ، رائے رایاں کی خط و کتابت و متفرق کاغذات محفوظ ہیں ۔ یہ مرہٹی  کاغذات بڑی حد تک موڈی رسم الخط میں ہیں ۔
دکن کے مسلم حکمرانوں کے ابتدائی دور ہی سے علاقائی زبانوں کو جو اہمیت حاصل تھی مختار الملک سالار جنگ اول کے زمانے میں اس کا سلسلہ جاری رہا ۔ سالار جنگ اول کے دور میں علاقائی زبانوں سے واقفیت اشخاص ہی متعلقہ زبانوں کے اضلاع میں متعین کئے جاتے تھے ۔ مقدیوں ؍ منشیوں کے لئے فارسی پر عبور کے ساتھ مقامی ؍علاقائی زبانوں سے واقفیت ضروری تھی ۔ تحصیلداروں اور تعلقداروں کے لئے اپنے ضلع کی زبان میں مہارت کا امتحان کامیاب کرنا ضروری تھا ۔
آصف جاہی عہد یا ریاست حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کروانے میں بشیر الدولہ صدر المہام (وزیر) عدالت کی کوششیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں ۔ بشیر الدولہ بعد ازاں آسمان جاہ کے خطاب سے مشہور ہوئے اور لائق علی خان سالار جنگ دوم کے بعد ریاست حیدرآباد کے مدارالمہام (صدراعظم) مقرر ہوئے تھے ۔

بشیر الدولہ نے 1869ء میں صدر المہام (وزیر) عدالت کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی عدالت میں اصلاحات کی جانب توجہ دی ۔ انھیں اس وقت اس بات کا شدید احساس ہوا کہ عدالتوں میں فارسی کا رواج غیر ضروری اور نامناسب ہے ۔ ریاست حیدرآباد میں اگرچہ اردو والے اقلیت میں تھے لیکن یہ وہی زبان تھی جسے دوسری زبان والوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی اور لکھنا ،پڑھنا جانتی تھی ۔ اس کے علاوہ ریاست کے حکمراں طبقے کی مادری زبان اردو تھی ۔ جس وقت بشیر الدولہ عدالت کے صدر المہام (وزیر) بنائے گئے اس وقت عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی استعمال ہوتی تھی جبکہ ریاست میں اردو کا رواج عام ہوگیا تھا ۔ ان حالات میں بشیر الدولہ نے عدالتوں میں فارسی کی  بجائے اردو رائج کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا ۔ ان ہی کوششوں کے نتیجے میں سب سے پہلے 1871ء میں عدالتوں میں اردو اظہارات (بیانات) کی قلم بندی کی اجازت دی گئی ۔ عدالتوں میں اس طرح داخلہ پانے سے اردو سازگار حالات سے دوچار ہوئی اور مختلف مراحل طے کرنے کے بعد 1884ء میں اسے عدالتوں میں مکمل طور پر رائج کیا گیا ۔ بشیر الدولہ کو جب اس بات کا اندازہ ہوا کہ اضلاع میں عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں کی یکسوئی میں مختلف زبانوں کے رواج اور فارسی کے استعمال سے رکاوٹیں درپیش ہیں تو انھوں نے اضلاع کے عدالتی عہدیداروں اور عملے کو اردو میں سرکاری خط و کتابت کے لئے اہل بنانے پر توجہ دی ۔عدالتوں میں اردو کو مکمل طور پر رواج دینے کے صرف چند ماہ بعد محکمہ مال میں اردو کا نفاذ عمل میں آیا ۔ اس کے تقریباً دو سال بعد 1886 میں معتمدین کے دفاتر میں اردو نافذ کردی گئی ۔ اس طرح ریاست حیدرآباد میں کئی مراحل طے کرنے کے بعد اردو کو مکمل طور پر سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی۔
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بلنٹ کی اسکیم Scheme for a University at Hyderabad حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کی پہلی  منظم تحریک تھی ۔ اس اسکیم کو وائسرے ہند لارڈ رپن، ریاست حیدرآباد کے چھٹے حکمراں میر محبوب علی خان آصف سادس اور بااثر حضرات کی تائید حاصل تھی ۔ اس اسکیم پر غور  وخوض کے لئے باغ عامہ میں 23 اپریل 1885 ء کو آصف سادس کی صدارت میں جلسہ منعقد ہوا جس میں نظام یونیورسٹی قائم کرنا طے پایا لیکن یہ اسکیم عملی صورت حاصل نہ کرسکی ۔
ریاست حیدرآباد کے وزیر تعلیمات فخر الملک بہادر اور معتمد تعلیمات مولوی عزیزمرزا کو حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام سے بڑی دلچسپی تھی ۔ فخر الملک نے ایک سے زائد بار محکمے کے عہدیداروں کو یونیورسٹی کے خاکے کے بارے میں تفصیلی نوٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ، لیکن محکمے کے نظماء نے ہر بار متعلقہ وزیر کو مطلع کیا کہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں یا موافق حالات کے لئے ایک عرصہ دراز درکار ہے۔

اکبر حیدری نے 1911ء میں معتمد تعلیمات مقرر ہونے کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے قیام پر پوری طرح توجہ مبذول کی ۔ انھوں نے ریاست کے زیادہ سے زیادہ مدارس میں اردو کے ذریعے تعلیم دینے کا جو فیصلہ کیا وہ اہم اور بنیادی فیصلے کی حیثیت رکھتا تھا ۔ حیدرآباد میں اردو ذریعہ تعلیم کی یونیورسٹی قائم کرنے کے لئے حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس کی جانب سے چلائی گئی مہم سب سے زیادہ کارگر اور موثر تھی  ۔اس مقصد کے تحت اس کا پہلا اجلاس 1915ء کے اوائل میں منعقد ہوا ، جس کی صدارت اکبر حیدری نے کی ۔ یہ اجلاس عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کا محرک بنا ۔ اسی اجلاس میں اکبر حیدرینے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی پالیسی کا اعلان کیا ۔ اکبرحیدری نے یونیورسٹی کے قیام کے لئے ضروری اقدامات کرنے کے بعد ایک تفصیلی اور مدلل یادداشت تیار کی جس کو وزیر تعلیمات نے عرض داشت مورخہ 22 اپریل 1917ء کے ذریعے ریاست کے حکمراں میر عثمان علی خان کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کیا ۔ اکبر حیدری کی یادداشت میں ایک ایسی یونیورسٹی کے قیام کی منظوری مانگی گئی تھی ، جس میں اردو کو تعلیم کا ذریعہ قرار دیا جائے اور انگریزی زبان بہ حیثیت ایک مضمون کے لازم ہو ۔عربی ، فارسی ، سنسکرت ، تلنگی ، مرہٹی اور کنڑی زبان کی تعلیم اور ان کے متعلق علمی تحقیق کا انتظام ہو ۔ اکبر حیدری نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے حسب ذیل دلائل پیش کئے ۔
۱ ۔ اردو وہ زبان ہے جو وسیع پیمانے پر ہندوستان میں رائج ہے ۔ (۲) وہ ایک آریائی زبان ہے اور اس طرح اس کا ملک کی دوسری زبانوں سے راست رشتہ ہے ۔ (۳) اردو ریاست کی سرکاری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست کی مقبول ترین زبان ہے نیز ریاست کی آبادی کی اکثریت اس زبان کو بولتی اور سمجھتی ہے ۔ تاہم انھوںنے اس خیال کا اظہار کیا کہ ریاست کی نمائندہ چار زبانوں اردو ، تلنگی ،مرہٹی اور کنڑی ذریعہ تعلیم کے لئے چار جامعات کاقیام زیادہ قابل ترجیح ہوتا لیکن ریاست کا مالیہ اتنا بوجھ سہارنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
ریاست حیدرآباد یا مملکت آصفیہ کی حکومت وقت اور حکمراں ہر دو جانب سے فراخ دلی اور رواداری کے برتاؤ کی شہرت رہی ہے ۔ یہ شہرت کسی تشہیری مہم یا رسمی طور پر مدح و ستائش کا نتیجہ نہیں تھی ۔ آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ سرکاری ریکارڈ کے ذخیرہ سے راقم الحروف نے ایسی کارروائی کا مواد حاصل کیا ہے جو لسانی نقطہ نظر سے آصف جاہی دور کی متذکرہ خصوصیات کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس مواد سے پتہ چلتا ہے کہ آصف جاہی عہد کی حکومت میں صدراعظم کی سطح تک ارباب ذمہ دار نے ہی نہیں بلکہ ریاست کے حکمران نے آج سے 71 سال قبل تلنگی زبان کی اشاعت و فروغ کے لئے جو بھی مانگا گیا دیا اور بخل سے کام نہیں لیا ۔

پروفیسر سباراؤ صدر حیدرآباد تلگو اکیڈیمی نے ایک مکتوب مورخہ 12 نومبر 1943ء حکومت ریاست حیدرآباد کے نام روانہ کیا تھا جس میں انھوں نے حیدرآباد تلگو اکیڈیمی کو دو ہزار روپے سالانہ اور چار ہزار روپے یکمشت بطور امداد دینے کی استدعا کی تھی تاکہ یہ اکیڈیمی بھی تلنگی زبان میں کتابیں شائع کرسکے ۔ پروفیسر سباراؤ کے مکتوب پر معتمد تعلیمات نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا کہ یہ ادارہ غیر فرقہ وارانہ نوعیت کا ہے اور وہ بہت اچھا ثقافتی کام انجام دیتا رہاہے ۔ اس ادارے کے اراکین کا مقصد مختلف تہذیبوں اور مختلف زبانوں کے ادب سے ربط قائم کرکے تلنگی زبان اور ادب کو فروغ دینا ہے ۔صدر المہام (وزیر) تعلیمات مہدی یارجنگ نے حیدرآباد تلگو اکیڈیمی کو سالانہ اور یکمشت  مالی امداد دینے کی سفارش کی ۔ اس کارروائی کے بارے میں باب حکومت (کابینہ) کے اجلاس بالاتفاق طے پایا کہ تلگو اکیڈیمی کو چار ہزار روپے یکمشت اور دو ہزار روپے سالانہ منظور کئے جائیں ۔ جب اس کاروائی تفصیلات ایک عرض داشت کے ذریعے آصف سابع کی خدمت میں ملاحظے اور احکام کے لئے پیش کی گئیں تو آصف سابع نے بذریعہ فرمان مورخہ 27 جون 1944ء حیدرآباد تلگو اکیڈیمی کے لئے چار ہزار روپے یکمشت اور دوہزار روپے سالانہ کی منظوری عطا کی ۔

اس مقالہ میں آصف جاہی دور میں لسانی پالیسی کا جائزہ لینے پر یہ حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ آصف جاہی خاندان کے بانی آصف جاہ اول کے عہد میں فارسی سرکاری زبان تھی ۔ 1886ء میں اردو مکمل طور پر سرکاری زبان کے طور پر رائج کی گئی ۔ فارسی سرکاری زبان رہی ہو کہ اردو ، آصف جاہی دور میں علاقائی زبانوں کو کافی اہمیت دی جاتی رہی ۔ آصف جاہ اول کے عہد میں مرہٹی زبان کو نظم و نسق میں بڑی اہمیت حاصل ہوگئی تھی ۔ سالار جنگ اول کے زمانے میں علاقائی زبانوں کو اہمیت دینے کا سلسلہ جاری رہا ۔ ریاست حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کے سلسلے میں اکبرحیدری نے جو یاداشت پیش کی تھی اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ یونیورسٹی میں تلنگی ،مرہٹی اور کنڑی زبانوں کی تعلیم اور ان زبانوں میں تحقیقی کام کرنے کا انتظام رہے گا ۔ حیدرآباد تلگو اکیڈیمی کے صدر نے ریاست حیدرآباد کے ہند یونین میں انضمام سے تقریباً پانچ سال قبل تلنگی میں کتابوں کی اشاعت کے لئے یکمشت اور سالانہ مالی امداد جاری کرنے کی درخواست کی تھی ۔ ریاست حیدرآباد کے آخری حکمراں میر عثمان علی خان نے جتنی امداد مانگی گئی تھی اس میں بغیر کسی تخفیف کے یکمشت اور سالانہ مالی امداد جاری کرنے کی منظوری دی ۔