آصفہ میری بچی …!

محمد عثمان شہید
اے کاش اللہ نے ہمیں نعمت بینائی سے محروم کردیا ہوتا ‘ اے کاش اللہ نے قوت سماعت سے معذور کردیا ہوتا ‘ اے کاش خالق ایزدی نے جذبات احساسات تڑپنے کی صلاحیت سب کچھ نہ دیئے ہوتے ‘ اے کاش اللہ نے پرندہ یا چرندہ بنایا ہوتا تاکہ کوئی ہمارا شکار کرتا ‘ لمحوں میں زندگی کی حرارت سے محروم کردیتا ‘ ہم بے دل ہوتے بے حس ہوتے نہ دل میں تڑپ ہوتی نہ دل تڑپتا ‘ نہ کلیجہ ہوتا نہ منہ کو آتا ‘ نہ غدود گریا ہوتے نہ بے تحاشہ روتے ‘ نہ گریباں ہوتا نہ گریباں چاک کرتے ‘ نہ سینہ ہوتا نہ سینہ کوبی کرتے ۔
یہ سب کچھ ہوتا ہے اس لئے کہ خالق نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر پیدا کیا ہے ۔ دل و دماغ کو مختلف جذبات و احساسات کی آماجگاہ بنادیا ہے اور ہمارا دل تو بس
بے چینیاں سمیٹ کر سارے جہاں کی
جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنادیا
میرے مالک کیوں نہ مجھے پھتر بنادیا کہ کسی کے در پر پڑا رہتا ‘ کوئی سایہ دار درخت بنایا ہوتا کہ برگ و بار دیتا اور ایک دن کاٹ دیا جاتا ‘ پھول بناتا کسی کے گلے کی زینت بنتا ‘ کسی کے گلے کا ہار بنتا مرجھاتا نور خاک میں مل جاتا ‘ حلال جانور کی شکل میں تخلیق کیا ہوتا کہ ذبح کیا جاتا کسی کی بھوک مٹاتا ۔ شہد کی مکھی بنایا ہوتا کہ لوگوں کیلئے شہد بناتا اور ختم ہوجاتا ‘ گلاب کا پھول بنایا ہوتا کہ چمن کو معطر کرتا اور مرجھا جاتا ‘ میرے مالک تو نے مجھے انسان کیوں بناکر پیدا کیا !؟؟
پیدا بھی کیا تو ایسے انسانوں کے بیچ ‘ جو انسان کم ‘ درندہ زیادہ ہیں ‘ انسان کم جانور زیادہ ہیں ‘ انسان کم وحشی زیادہ ہیں ‘ جن کے دل میں رحم نہیں ‘ رحم کے جذبات نہیں ‘ جن کے سینے میں دل نہیں پتھر ہے ‘ جن کو انسانیت چھوکر بھی نہیں گزرتی ہے جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کیلئے 19ماہ کی شیرخوار ‘ تین سالہ گڑیا ‘ چھ سال کی نونہال 8سال کی بچی ‘ 60سالہ عورت ‘ تین بچوں کی ماں ‘ 16سالہ دوشیزہ ‘ کسی کو نہیں بخشتے ‘ ایسا گھناؤنا فعل تو وہ جانور بھی انجام نہیں دیتے جو حقیقتاً جانور ہیں ۔
دیکھ مولیٰ دیکھ تیرے ان درندوں نے ایک چھ سالہ بچی آصفہ کو اپنی ہوس کی آگ میں جلاکر رکھ دیا ‘ ایک کلی کو مسل کر رکھ دیا جو پھول نہ بن پائی تھی جو اپنے غریب ماں باپ کے آنکھوں کا نور تھی ‘ دل کا سرور تھی کلیجہ کی ٹھنڈک تھی ‘ زندگی کی شام کی دہلیز پر سہارے کا چراغ تھی ‘ ہائے ان درندوں نے اس ننھے منے دیا کو ٹھوکروں سے بجھا کر رکھ دیا ۔
میرے اللہ یا جبار القہار غریب بے سہارا مجبور و لاچار والدین کے دل پر اپنے رشک قمر جیسی بیٹی کی خون میں لت پت ہوئی نعش کو دیکھ کر کیا گذری ہوگی ؟ جو گھر سے ہنستی کھیلتی ’’ ابھی آئی ماں ‘‘ کہہ کر روانہ ہوئی لیکن پھر کبھی نہیں آئی … کبھی نہیں ۔

میرے مولیٰ کبھی زمین پر اُتر ‘ عرش سے فرش پر آ‘ ان درندوں کو ان کی درندگی کی ایسی سزا دے کہ ساری دنیا لرز جائے ۔ میرے مالک ننھی منی آصفہ کے ساتھ کھلواڑ اور اس کو موت کی نیند سلاتے وقت کیا ان جانوروں کو اپنی بیوی ‘ اپنی بہو ‘ اپنی ماں ‘ اپنی بیٹی کا خیال نہیں آیا کہ ان کے ساتھ ایسا ہوتا وہ ایسی درندگی کا شکار ہوجاتیں تو ان کے دل پر کیا گذرتی !
الٹے یہ بے حیا‘ بے غیرت ‘ بے ضمیر ‘ تنگ انسانیت افراد بعض گوشوں سے اپنی اس بے رحمانہ کارروائی پر داد لے رہے ہیں ‘ قانون کے بعض دلال ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ رحم رحم میرے آقا کیسے کیسے بے رحم افراد کو جنم دے کر تو نے ماؤں کی کوکھ کو شرمندہ کردیا ۔ رحم یا خالق کائنات رحم ‘ اب تو مظلوم انصاف کا طلب گار و حق دار بھی طالب انصاف ہونے کیلئے مارے خوف کے مثل شاخ نازک کانپ رہے ہیں کہ کہیں ایسے مطالبہ پر ان کی بہو بیٹیوں کے ساتھ آصفہ کے جیسا سلوک نہ کیا جائے ‘ کہیں ان کے گھر نذرآتش نہ کردیئے جائیں ‘ کہیں ان کی تجارت تباہ نہ کردی جائے ‘ کہیں انہیں بیروزگار نہ کردیا جائے ‘ کہیں ان کی زبان نہ کاٹ دی جائے ‘ گوری لنکیش کا انجام ان کے سامنے ہے ۔

یقیناً تو نے مسلمانوں کو دنیا کی امامت کیلئے پیدا کیا ‘ ا نہیں صداقت ‘ شجاعت ‘ عدالت کے سبق پڑھنے کی تعلیم دی ‘ دنیا کی امامت کیلئے آج خالد بن ولیدؓ ‘ محمد بن قاسم ؓ ‘ طارق بن زیاد ‘ نور الدین زنگی ‘ صلاح الدین ایوبی ‘ ٹیپو سلطان جیسے شیروں کی ضرورت ہے اور تو گیدڑوں کو پیدا کررہا ہے میرے معبود ! ؟
ایسے مسلمانوں کو پیدا کررہا ہے جنہیں تجھ سے کوئی محبت نہیں ‘ محبت ہے تو اپنے بیوی بچوں سے ‘ اپنی مال و متاع سے ‘ اپنی جائیداد سے اپنی دولت سے اس دو دن کی دنیا سے تو نے کہا
کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
جہاں کیا چیز ہے لوح و قلم تیرے ہیں
اور ان مسلمانوں نے آقائے دو جہاںؐ سرور کائنات ؐ سے صرف دکھاوے کی محبت کی ہے ‘ سچے دل سے ان ؐ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی کبھی کوشش نہ کرتے ہیں اس لئے ذلیل و خوار ہیں ‘ جنہیں نماز سے زیادہ اپنی نیند پیاری ہے ‘ جن کے پاس تیرے سامنے جوابدہی کا کوئی ڈر نہیں ‘ جن کی صفوں میں کوئی اتحاد نہیں ‘ جن کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے یہ اب تیرے بندے نہیں رہے بندۂ زر ہوچکے ہیں ۔ قیادت کا تاج بھی رکھا تو ان کے سرپر جو گردن ہی نہیں رکھتے ‘ خود غرض مفاد پرست قوم فروش ‘ ضمیر فروش اور مفاد حاصلہ کے غلام مسلمانوں کو پیدا کررہا ہے جو یتیموں کو گلے نہیں لگاتے جو قبروں کو بیچ کر کھارہے ہیں ‘ جو شریعت محمدیؐ پر عمل کرنے سے معذور ہیں جنہیں نماز کی ادائیگی کے لئے وقت نہیں ملتا جو زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے حیلے ڈھونڈتے ہیں جو قرآن تو پڑھتے ہیں عمل نہیں کرتے ‘ ان کی بے عملی دیکھ کر میرے معبود ‘ میرے پیارے محبوبؐ کی شریعتپر ڈاکہ پڑا ‘ یہ گفتار کے غازی بنے رہے ۔ اخلاق کا قتل ہوا ‘ یہ اپنی خانقاہوں میں مست رہے ‘ تیرے نام لیوا کو گوبر کھلایا گیا ‘ یہ صرف زبان ہلاتے رہ گئے ‘ جنید کو قتل کیا گیا اور ہم مفلوج ہوکر رہ گئے ‘ آلیر انکاؤنٹر میں پانچ پہاڑ جیسے مضبوط مسلم نوجوانوں کو پولیس نے گولی مار کر شہید کردیا ہم نے چیف منسٹر کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالا ۔افغانستان میں 90 سے زیادہ کم عمر حفاظ کو امریکہ نے گولیاں برساکر شہید کردیا ‘ ہم پتھر بن کر رہ گئے نہ کسی کا دل تڑپا نہ کسی کا کلیجہ کانپا ‘ نہ کسی کی آنکھ میں آنسو آئے ‘ نہ کسی نے سیاہ جھنڈے لئے امریکن ایمبسی کے روبرو احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ جلسے منعقد کرنا ‘ جلسے سننا ‘ نعرے تکبیر لگانا ہمارے احتجاج کی معراج ہے ۔ ہماری قیادت کی معراج ہے ۔ جب کبھی راہ عمل میں گرد و غبار اڑانے کا موقع آتا ہو ہمیں ’’ حمل ‘‘ ٹھرجاتا ہے ۔ ہم دنیا کو اپنا دین و ایمان دے بیٹھتے ہیں ۔ دنیا وی معاملات میں اتنے اُلجھ گئے کہ غافل ہوگئے ۔

آصفہ کے قتل کے بعد تین ماہ تک ہم اندھے ‘ گونگے اور بہرے بنے رہے ۔ اس مسئلہ کو اٹھایا بھی تو ایک ہندو وکیل محترمہ دیپیکا سنگھ نے جنہوں نے جموں و کشمیر ہائیکورٹ میں رٹ داخل کی اور عدالت سے استفسار کی کہ آصفہ کے قتل کے کیس میں پولیس کو جلد چارج شیٹ داخل کرنے کی ہدایت دی جائے ۔ اس واقعہ کی اطلاع ایک ہندو رپورٹر نے سب سے پہلے دی اور حق پسندوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا ۔ ایک ہندو جج نے پولیس کو سختی سے پابند کیا کہ وہ اندرون تین ماہ چارج شیٹ داخل کریں ۔ ڈی آئی جی جموں مسٹر آلوک پوری نے اس ہدایت پر ہزار رکاوٹوں کے باوجود چارج شیٹ وقت پر داخل کیا ۔ ایس پی وید اور شرما جی چھلہ دونوں اڑے رہے کہ کرائم برانچ جموں میں چارج شیٹ داخل کرے گا نہ کہ کوئی اور ایجنسی ‘ یہ سب ہوتا رہا اور ہم غفلت کی رضائی اوڑھے بے حسی کے بستر پر آرام فرمارہے تھے ۔ اس لئے ہم نے اسی اخبار کے انہی کالموں پر اپنے اس ایقان کا اظہار کیا تھا کہ
’’ ہندوستان میں سیکولرازم مر نہیں سکتا ‘ لاکھ نفرت کے سوداگر کوشش کرلیں ‘ ہندو بھائی کے دل و دماغ و روح پر گیرو رنگ نہیں چڑھ سکتا ۔ ایسے روح کو لرزا دینے واقعات کا تدارک اس وقت ممکن ہے ‘ جب ہم اسلامی سزاؤں پر عمل کریں جس کی تائید مسٹر کے ایل کے اڈوانی نے بھی کی تھی جب وہ وزیر داخلہ تھے ۔