آسام میں عوام کانگریس حکومت سے بیزار، مودی کی لہر

گوہاٹی ۔ 13 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) حکمراں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان یہاں کے 14 لوک سبھا حلقوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوسکتا ہے کیونکہ آسام میں کانگریس اور بی جے پی ہی دو اہم پارٹیاں ہیں جبکہ آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک (AIUDF) کو بھی تن آسانی سے نہیں لیا جاسکتا کیونکہ جن علاقوں میں اقلیتوں کی اکثریت ہے وہاں یہ پارٹی کچھ اہم نتائج پر ضرور اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ آسام میں آسوم گنا پریشد کا بول بالا تھا لیکن اب اس میں وہ دم خم نہیں رہا کیونکہ پارٹی کے بیشتر سینئر قائدین علحدگی اختیار کرتے ہوئے بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف 2009ء کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو وہاں کانگریس ہی واحد واضح اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس نے سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی

جبکہ اس کی حلیف جماعت بوڈولینڈ پیپلز پارٹی نے صرف کھوکھراجھار نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کو چار نشستوں پر کامیابی کے بعد دوسرا مقام حاصل ہوا تھا جبکہ اے جی پی اور اے آئی یو ڈی ایف کو فی کس ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ 2011ء کے اسمبلی انتخابات میں اے جی پی کو تیسرا مقام حاصل ہوا تھا کیونکہ اس دوران ریاست اے آئی یو ڈی ایف کا موقف کافی مستحکم ہوگیا تھا۔ اے جی پی سے سب سے پہلے علحدگی اختیار کرنے والے پہلے اہم لیڈر طلباء کے سابق قائد سریانندا سونووال تھے جنہوں نے نہ صرف بی جے پی میں شمولیت اختیار کی بلکہ انہیں پارٹی کی ریاستی یونٹ کا صدر بھی بنایا گیا۔ ان کے بعد پارٹی کے بانی و رکن اور سابق ریاستی وزراء چندر موہن پٹواری اور ہیتن گو سوامی شامل ہیں۔ علحدگی اختیار کرنے والوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کے بانی و صدر پر ان کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے جو کوئی اور نہیں بلکہ سابق وزیراعلیٰ پرفل کمار مہنتا تھے لیکن انہوں نے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا۔ گذشتہ انتخابات میں اے جی پی کو دوسرا مقام حاصل ہوا تھا

لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہیکہ بی جے پی کے منظرعام پر آنے اور ریاست آسام پر مخصوص توجہ دینے کی وجہ سے اے جی پی کیلئے انتخابی مہم اور کامیابی مشکل ترین اور پیچیدہ ہوجائے گی۔ اس موقع پر بی جے پی کی تائید کرتے ہوئے مسٹر سونووال نے کہا کہ آسام میں عوام کانگریس کی عوام مخالف پالیسیوں سے بیزار ہیں اور کانگریس کے بعد بی جے پی کو حکومت کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ادعا کیا کہ اس وقت ملک میں مودی کی لہر سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی لہر کی بنیاد پر بی جے پی ریاست میں اپنی بہتر کارکردگی دکھانے کے موقف میں ہے اور گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں جہاں اسے صرف چار نشستیں حاصل ہوئی تھیں، اس بار زائد نشستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہوگا۔