آزادیِ نسواں

کے این واصف
دشمنان اسلام نے ’’چادر اور چار دیواری‘‘ کو عورت کا قید خانہ قرار دیا۔ اس کا مقصد صرف شریعت محمدیؐ کے خلاف آواز بلند کرنا اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ شریعت کی رو سے ہمارے معاشرے پر جو پابندیاں ، جائز و ناجائز کی تمیز ، حرام و حلال کا فلسفہ یہ سب عین فطری تقاضوں کے مطابق اور سائنٹفک ہیں۔ جسے خود اغیار کی تحقیقات 14 سو سال بعد ثابت کر رہی ہیں ۔

اس کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ مغرب میں عورت کی آزادی کے نام پر معاشرے میں جو گندگی اور بے حیائی پھیلائی گئی آج اس سے مغربی معاشرہ خود پریشان ہے۔ اب مغرب کے ذی شعور افراد اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور خواتین کیلئے Back to Home کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یعنی اب وہ چادر اور چار دیواری کے قائل ہورہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سوشیل میڈیا پر مدر ٹریسا اور چندرا ہیباؤں کی تصویریں لگاکر ایک ای میل بھیجا گیا تھا جس میں سوال کیا گیا تھا کہ تقدس اور پاکیزگی کی علامت مانی جانے والی شخصیت بی بی مریمؓ کی تقلید میں زندگی بسر کرنے والی دنیا بھر کی یہ راہبائیں جو لباس زیب تن کرتی ہیں، کیا یہ عورت پر ظلم ، قید و ند یا پابندی ہے یا حیا و پاکیزگی کی علامت ہے ؟

سوشیل میڈیا ، اخبارات وسائل میں آزادی نسواں کی تحریک کے مضر اثرات پر کافی کچھ لکھا جارہا ہے ۔ حال ہی میں یہاں کے ایک عربی اخبار ’’عکاظ ‘‘ میں ایک سینئر صحافی احمد محمد علی نے ادارتی صفحہ پر ایک مضمون لکھا جس کے اقتباسات یہاں پیش ہیں جس سے یہ موضوع اور بھی واضح ہوگا اور قارئین کو عرب میڈیا کے رجحان کا بھی کسی حد تک اندازہ ہوگا ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ہم اسلام کے احسانات کو نہیں یاد رکھتے ، بس ان معاملات میں الجھے رہتے ہیں جو ہمارے ہی دل کی تنگی کے باعث پیدا ہوتے رہتے ہیں اور شکایتیں کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کی حیثیت کو کم کیا ہے جبکہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے ہیں جو کسی اور مذہب نے نہیں دیئے۔ دنیا کی کسی بھی مذہبی کتاب میں عورتوں کے نام سے کوئی Chapter موجود نہیں لیکن قرآن وہ واحد کتاب ہے جس میں عورتوں کے نام کی ایک مکمل سورۃ موجود ہے۔

جدیدیت کا مطلب ہم نے یہ لے لیا کہ مرد اور عورت، مادر پدر آزاد ہوجائیں، انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ مغرب نے جب اس طرح کی آزادی اور حقوق عورت کو دیئے تو آج اس کے نتائج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آج وہاں ناجائز بچوں کی تعداد جائز سے زیادہ ہے اور یہی بچے مستقبل کے جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں۔ گھریلو زندگی مفقود ہوچکی ہے جس پر مغربی مفکر پریشان ہیں اور کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ عورت کیلئے Back to Home کا نعرہ لگایا جارہا ہے ۔ مغرب نے عورت کو چند حقوق تو دیئے لیکن بدلے میں عورت نے اپنا سکون ، شرم و حیا اور گھر جیسے پرسکون ادارے کو خیر باد کہہ دیا ۔ اتنا کچھ گنواکر ہی اسے نام نہاد آزادی ملی ۔ کیا ہم مسلمان بھی یہ چاہتے ہیںکہ اتنا بہترین نظام زندگی جو اسلام نے دیا ہے، اسے چھوڑ کر غیروں کی تقلید کریں ۔ مسلمان عورت کو معاش کی ذمہ داری سے مبرا کیا گیا ، اس کا دائرہ کار مخصوص کیا گیا اور اسے گھر کی ذمہ داری سنبھالنے کو کہا گیا ۔ آج مغربی دنیا میں اسلام تیزی سے پھیلتا جارہا ہے ۔ اس میں اکثریت تعلیم یافتہ خواتین کی ہے اور خواتین یہی کہتی ہیں کہ جو حقوق اور تحفظ اسلام میں ہے وہ کہیں اور نہیں ۔ عورت کو اسلام میں اتنی آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تجارت کرسکتی ہے۔ اپنی علحدہ جائیداد رکھ سکتی ہے ۔

تعلیم حاصل کرسکتی ہے ۔ صحابیاتؓ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ عائشہ صدیقہؓ نے 48 سال تک دین کا علم پھیلایا اور 88 علماء کی وہ معلمہ تھیں۔ اگر اسلام نے عورت کے ساتھ ناانصافی کی ہوتی تو ان خواتین کو یہ مقام نہ ملتا۔ مغربی معاشرہ یا اس سے مرعوب مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین کو حقوق دیئے جائیں لیکن اس معاشرے نے خواتین کو کیا دیا ؟ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں کے پیچھے اس کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ مردوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئیں ۔ اسلام عورت کو عورت ہی رہتے ہوئے وہ تمام جائز کاموں کی اجازت دیتا ہے جو مردوں کو حاصل ہے اور کوئی چیز اس کی ترقی میں مانع نہیں ہوتی ۔ عورت تعلیم میں مردوں سے بھی آگے جاسکتی ہے لیکن حدود وہی رہیں گے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کیلئے مقرر کئے ہیں ۔ کچھ جگہ مسلم معاشرے کا خود قصور ہے کہ وہ عورت کو اس کا جائز حق نہیں دیتے اور یہ صرف قرآن اور سنت کی تعلیم سے دوری کا نتیجہ ہے۔ قرآن اور سنت میں دیئے گئے حقوق کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں وہ موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔

عورت کو تجارت کے حق کے سلسلے میں ہمارے سامنے ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی مثال ہے جن کا اپنا ایک بڑا تجارتی ادارہ تھا جو شہر مکہ سے باہر دوسرے شہروں سے مال کی درآمد و برآمد کا کام کرتا تھا ۔ اغیار ہوں یا مسلمان انہیں اسلامی شریعت کا گہرائی سے مطالعہ کرنے اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ مطالعہ کئے بغیر اور احکامات کو اچھی طرح سمجھے بغیر ان پر عملدرآمد شروع کردیتے ہیں۔ حال میں معروف سینئر صحافی عبدہ خال نے یہاں پیش آئے ایک واقعہ پر عربی روزنامہ ’’عکاظ‘‘ میں اپنا ایک مضمون لکھا ۔ موضوع تھا ’’نیل پالش کا مسئلہ‘‘۔ انہوں نے لکھا ’’گزشتہ دنوں سعودی عرب میں نیل پالش لگانے والی لڑکی کا قضیہ دلچسپ موضوع رہا ۔ اس لڑکی کی وجہ سے معاشرہ کئی حصوں میں بنٹ گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کی اصلاح اور تحفظ کے نام پر ان چیزوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ،جو ہمارے بنیادی مسائل ہی نہیں۔

یہ قضیہ اس طرح ہے کہ ایک شاپنگ مال میں نیل پالش لگائی ہوئی ایک لڑکی شاپنگ کرنے آئی تو ادارہ امر بالمعروف ونہی عن ا لمنکر (جسے یہاں عام فہم زبان میں مطوع کہتے ہیں) کے ایک اہلکار نے اسے دیکھا اور نیل پالش لگانے کی وجہ سے اسے شاپنگ مال سے باہر جانے کا مطالبہ کیا ۔ اس پر وہ لڑکی ناراض ہوگئی اور دونوں کے درمیان بحث و تکرار ہوئی ۔ یہ سارا منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا اور چند منٹوں میں یہ واقعہ سوشیل میڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ۔ لوگوں کے درمیان یہ بحث چھڑگئی کہ آیا ادارہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے اہلکار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی شخص کو شاپنگ مال سے باہر جانے کا مطالبہ کرے۔ آیا اسے یہ اختیار ہے کہ کسی عورت کے میک اپ یا نیل پالش پر اعتراض کرے۔ یہ بحث اس قدر پھیل گئی کہ ادارہ امربا لمعروف ونہی عن المنکر کے اہلکاروں کے حدود و اختیارات پر بات ہوئی کہ اہلکاروں کے اختیارات کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ شاپنگ مال جاتے ہوئے مرد عورتیں، بچے اور یہاں تک کہ خود ادارہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے اہلکار بن سنور کر جاتے ہیں۔ نیز کیا اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سب کو نظر بچائے رکھنی چاہئے ۔

اس معاملہ کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ قضیہ اس قدر اہمیت کا حامل نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے معاشرہ کئی حصوں میں منقسم ہوجاتا۔ اس سے ایک اور حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ ادارہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کے اہلکاروں کے اختیار اور حدود واضح ہونے چاہئیں۔ اگر ادارے کے اہلکاروں کے حدود میں یہ بات شامل ہیکہ وہ نیل پالش اور میک اپ کرنے والی ہر عورت کا تعاقب کریں تو یہ کام انہیں حد درجہ تھکا دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کون عورت ہے جو بن سنورکر گھر سے باہر نہیں نکلتی ہے ۔ اگر یہ قانون ہے جو کہیں لکھنے سے رہ گیا ہے تو ہمیں اپنے بازار اور شاپنگ کو خواتین سے خالی کرانا پڑے گا کیونکہ شاید ہی کوئی خاتون ایسی ملے گی جو میک اپ اور نیل پالش نہیں لگاتی ہو۔ یہ محض ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا جس پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں تھی مگر اس قضیہ پر بحث و مباحثے نے ثابت کردیا کہ لوگ غیر متعلقہ امور میں ز یادہ الجھ جاتے ہیں۔

خیر یہ تو تھے آزادیٔ نسواں سے متعلق دو سعودی صحافیوں کے خیالات ۔ اب آخر میں اس سلسلہ میں یہاں کے ایک عالم دین نے خواتین پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے بارے میں جو باتیں کہیں وہ جو عربی روزنامہ ’’الحیاۃ‘‘ میں شائع ہوئی تھیں۔

سعودی عرب کے ممتاز عالم ڈاکٹر سلمان العودہ نے واضح کیا کہ خواتین کو حد سے زیادہ الگ تھلگ کرنا پاک دامنی کا ضامن نہیں بن سکتا جو والدین اور جو سرپرست خواتین کو زندگی کے دھارے اور معاشرے کی سرگرمیوں سے الگ تھلگ کر کے ان کے اطراف حصار باندھے ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں مبالغے کی حد تک سختی برت رہے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس قسم کی پابندیوں سے خواتین کی پاک دامنی کی ضمانت نہیں مل سکتی ۔ سلمان العودہ نے کہا کہ بعض حضرات گھر میں ریڈیو پر تک پابندی عائد کئے ہوئے ہیں۔ شوہر نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اناؤنسر کی آواز سنے۔ انہیں ساتھ مارکٹس یا شاپنگ پر نہیں لے جایا جاتا ۔ اس قسم کے رویوں سے ذہنی مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔ یہ پابندیاں کشیدگی ، گھٹن اور جبر کا ماحول پیدا کر رہی ہیں ۔ سلمان العودہ نے افہام و تفہیم ، صاف گوئی اور محبت آمیز تعلق پیدا کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ عسکری اوامر جاری کرنے سے تربیت نہیں ہوتی ۔ ہمیں اپنی اولاد ، اپنی بیگمات اور اپنی عزیز خواتین کی تربیت پیار محبت سے کرنی چاہئے۔

مرد کے بغیر عورت اور عورت کے بغیر مرد کی بقاء کا تصور ہی نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ مرد کو قدرت نے کچھ معاملات میں فوقیت بخشی ہے جو فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ دوسری جانب ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ‘‘ کی بات بھی عورت کی اہمیت کا اظہار کرتی ہے ۔ بہرحال ہر دو کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے اور بقائے باہمی، شرعی حدود میں رہنا اور احکامات الہیٰ کی پابندی کرنے میں ہی مضمر ہے ۔ آزادی کے نام پر خلاف فطرت زندگی گزارنے کی کوشش ہی ساری تباہیوں کا باعث بنی ہے ۔ آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو تاخیر سے ہی سہی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ انہوں نے محض اسلام دشمنی کے جنون میں جو کچھ کیا وہ آج انہی کے گلے کا پھندہ بن گیا ۔ شیطانی پیروی کے شکار افراد میں تاخیر سے سہی غلطی کا احساس ہوا یہ ایک خوش آیند بات ہے۔
knwasif@yahoo.com