آر اپادھیائے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اچھی تعلیم تاریخی پس منظر

مرکزی وزیر فروغ انسانی وسائل پرکاش جاودیڈکر نے 17 ڈسمبر 2016 کو 20 ویں کل ہند اردو کتاب میلہ ( بھیونڈی ۔ ممبئی ) کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان ترقی نہیں کرسکتا اگر سماج کا ایک طبقہ ( مسلمان ) اچھی تعلیم حاصل نہ کرے ۔ وزیر موصوف نے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی تھی کہ ہندوستانی سماج کا یہ طبقہ آزادی کے بعد سے مساوی مواقع فراہم کئے جانے کے باوجود اچھی تعلیم حاصل کرنے میں پیچھے کیوں ہے ۔ جب 19 جنوری 2017 کو مسلم قائدین کے ایک وفد نے وزْر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تب وفد نے اب تک کی ان کی کارکردگی کی ستائش کی تاہم ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اچھی تعلیم کے مواقع پر کوئی بات نہیں کی ۔ وفد کے ارکان نے اپنی برادری کیلئے اچھی تعلیم کیلئے کچھ تعمیری تجاویز پیش کرنے کی بجائے حکومت سعودی عرب کی ستائش کی جس نے ہندوستان کیلئے عازمین حج کے کوٹہ میں اضافہ کیا ۔
تاریخ :ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ اتنی پیچیدہ ہے کہ قومی دھارے سے ان کی دوری اور خاص طور پر بہتر تعلیم اور اس کے نتیجہ کے طور پر سماجی ۔ نفسیاتی الجھن سوشیل سائینسدانوں کیلئے ہنوز ایک معمہ ہے ۔ اس مخصوص اور ایک منفرد مذہبی ۔ سماجی گروپ کے تعلق سے حقائق پر مبنی حالات کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے کہ قاری کوئی درست نتیجہ پر پہونچ سکے ۔ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے ایک جمہوری اور سکیولر ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی ۔ لیکن اس وقت انہوں نے یہ غلطی کی کہ اپنے سماجی ‘ تعلیمی اور سیاسی حالات کی رہنمائی کیلئے اپنے مذہبی رہنماوں کا سہارا لیا ۔ خود ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اپنی برادری کو قومی دھارے کی تعلیم کا حصہ بننے کیلئے حوصلہ افزائی کرنے کوئی پہل نہیں کی ۔ اس کے نتیجہ میں اسلامی تعلیم والی برداری کو مذہبی / مدرسہ تعلیم کے ذریعہ اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ۔
مسلم لیڈروں نے بھی مذہبی قائدین کی حمایت کی کیونکہ اس کو انہوں نے اس برادری کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنے کے موقع کے تناظر میں دیکھا تاکہ وہ دوسرے سیاسی طبقات سے سودے بازی کرسکیں۔ یہ سودے بازی اپنی برادری کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ خود اپنے ذاتی مفادات کیلئے تھی تاکہ وہ اقتدار کے مراکز تک رسائی حاصل کرسکیں۔ مسلم مذہبی رہنما بھی مسلمانوںکو ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ مجتمع رکھنے میں واضح تھے اور ان کا بھی ذاتی مفادات کا مسئلہ تھا ۔ ایسے میں مسلم مذہبی رہنماوں اور مسلم سیاسی طبقہ کے مفادات اسی بات میں مضمر تھے کہ برادری کو ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ مجتمع رکھا جائے تاکہ ان کے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل ہوتی رہے برادری کی فلاح و بہبود کیلئے نہیں ۔ اس کے علاوہ سابق حکمران طبقہ کے وارثوں اور امرا طبقہ کے افراد نے خود کو مسلم ہندوستانی قرار دینا شروع کیا ( پہلے مسلمان پھر بعد میں ہندوستانی ) ۔ ان لوگوں نے مذہبی طبقہ کے ساتھ برادری کے عام افراد کو اسلام کے سپاہی سمجھنا شروع کردیا ۔ اسی گروپ نے برادری کو خود ساختہ کافروں سے ایک علیحدہ طبقہ بناکر رکھ دیا ۔ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ فرق کرتے ہوئے ان لوگوں نے برادری کے لوگوں کو قومی دھارے کے افراد کے ساتھ مشترکہ تعلیم سے دور رکھا ۔
آزادی کے بعد  :مابعد آزادی کے مسلم ہندوستانیوں کی زندگی اور سیاست کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ خود ہی ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ‘ سماجی اور سیاسی ترقی کو متاثر کرنے کے ذمہ دار ہیں اور انہیں عصری بننے سے روکا گیا ہے ۔ اس کی ایک اچھی مثال 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے ملتی ہے کہ کس طرح سے ووٹ بینک کی سیاست مسلمانوں پر اثر انداز ہوئی ہے کیونکہ ان انتخابات میں ایک بھی مسلمان اترپردیش سے منتخب نہیں ہوا جبکہ یہ ایسی ریاست ہے جہاں 20 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں۔ ہندوستان میں آج جس طرح کا ہند ۔ مسلم سماجی و سیاسی منظر نامہ ہے وہ کچھ اور نہیں بلکہ مسلمان نسل در نسل جو غلام بناکر رکھ دئے ہیں اسی کا تاریخی ورثہ ہے ۔ خود ساختہ مذہبی شناخت کے مسئلہ کو ہی برادری کی قیادت زیادہ اہمیت دیتی ہے اور اس کا جواب اسلامی ریاڈیکلس کی گرفت سے ان کے آزاد ہونے میں ہے ۔ آج کے دور کے بھی ’ آزاد خیال ‘ مسلمانوں نے بھی اس تاریخی غلطی کو سدھارنے کی کوئی جامع اور مشترکہ کوشش نہیں کی ۔   ( جاری ہے )