آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ کی تعمیر افتتاحی تقریب …آصف سابع کا خطاب

آرکائیوز کے ریکارڈ سے     ڈاکٹر سید داؤد اشرف
جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں میں آرٹس کالج کی عمارت کو مرکزی عمارت کی حیثیت حاصل ہے ۔ منفرد طرز تعمیر اور وسعت و رفعت کے باعث آرٹس کالج کوایک فقیدالمثال عمارت کہا جاسکتا ہے ۔ یہ بات کسی مبالغے کے بغیر کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ صدی میں حیدرآباد میں ایسی عظیم الشان ، یادگار اور پرشکوہ دوسری کوئی عمارت تعمیرنہیں کی گئی۔ اس عمارت کی تعمیر تقریباً چھ سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اسے خوب سے خوب تر بنانے میں کوئی کسر چھوڑی نہیں گئی۔ اس مضمون میںاس عمارت کی تعمیر کے منصوبے ، ماہرین فن کے انتخاب، مالیہ کی فیاضانہ فراہمی اور تعمیر مکمل ہونے پر اس کے افتتاح کا بیان شامل ہے ۔یہ مواد آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ کے ذخائرمیں بکھرا ہوا تھا ۔اسے بڑی تلاش ، تحقیق اور غائر تجزیے کے بعد مربوط انداز میں پیش کیا جارہا ہے ۔
جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کیلئے ابتداء میں بمقام اڈیکمیٹ 14 سو ایکڑ اراضی کا علاقہ منتخب کیا گیا لیکن علی نواز جنگ معتمد تعمیرات نے جامعہ کی عمارتوں کو بمقام گولکنڈہ تعمیر کر نے کی تجویز پیش کی ۔ میر عثمان علی خان آصف سابع نے اس تجویز کو منظوری دینے کی بجائے شاہی عمارتوں کی پیشکش کی ۔ چونکہ شاہی عمارتوں سے جامعہ کی ضرورت کی تکمیل ممکن نہیں تھی اس لئے یہ اسکیم عملی صورت اختیار نہ کرسکی ۔ ملک پیٹ میں بھی جامعہ کی عمارتوں کو تعمیر کرنے کے بارے میں غور و خوض کیا گیا لیکن یہ اراضی بھی جامعہ کی ضروریات کیلئے کافی نہیں تھی ۔ اس لئے آخرکار بمقام اڈیکمیٹ ہی عمارتوں کی تعمیر شروع کرنے کے احکام جاری کئے گئے ۔ مقام کے انتخاب کیلئے جنوری 1921 ء میں کارروائی کا آغاز ہوا تھا اور اس بارے میں آٹھ سال بعد جنوری 1929 ء میں قطعی فیصلہ ہوا اور منظوری دی گئی ۔اس کارروائی کی ابتداء ہی میں آصف سابع نے فرمان مورخہ 18 جولائی 1921 ء کے ذریعہ یہ احکام صادر کر دیئے تھے کہ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر مشرقی طرز پر ہو اور ہندوستان کے قدیم اسلامی طرز کو ترجیح دی جائے۔ مقام کے انتخاب کی کارروائی کے دوران مجلس اعلیٰ جامعہ عثمانیہ کی تجویز پر جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کی تعمیر کیلئے ایک کمیٹی کے ذریعہ مہر علی فاضل ماہر فن آرکیٹکٹ کے طور پر انتخاب عمل میں آیا ۔

جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کیلئے مقام کے انتخاب کا قطعی فیصلہ ہوجانے کے بعد بلڈنگ کمیٹی نے محکمہ تعمیرات کے دو انجیئروں زین یار جنگ اور سید علی رضا کو جاپان ، امریکہ ، یوروپ ، مراقش ، مصر ، شام اور عراق روانہ کرنا طئے کیا تاکہ یہ انجنیئر ان ممالک کی جامعات کی نئی تعمیر کردہعمارتوں کا معائنہ کریں اور کسی ماہر اور موزوں آرکیٹکٹ کا نام تجویزکریں جس کا بطور مشیر آرکیٹکٹ تقرر کیا جاسکے ۔ باب حکومت (کابینہ) کی سفارش پر آصف سابع فرمان مورخہ 20 ستمبر 1930 ء کے ذریعہ ان انجیئروں کی تعیناتی ، تنخواہ ، الاؤنس اور اخراجات سفر کی منظوری دی ۔ ان انجنیئروں نے بیرونی ممالک کے دورہ میں آرکیٹکٹ ارنسٹ جاسپر کو بہت موزوں اور اہل پایا ۔ چنانچہ اکبر حیدری نے لندن سے ایک ٹیلی گرام مورخہ 22 اکتوبر 1931 ء روانہ کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ ارنسٹ چاسپر کو چند شرائط کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کی عمارتوں کا مشیر آرکیٹکٹ مقرر کرنے کے لئے حکومت کی ضروری منظوری حاصل کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زین یار جنگ اورف سید علی رضا نے ارنسٹ چاسپر کی سفارش کی ہے کہ سراسنگ طرز تعمیر کے یہ ماہر ہیں اور انہوں نے قاہرہ کی چند عمدہ اور نفیس عمارتوں کے نقشے تیار کئے ہیں ۔ ان کی شرائط ملازمت کو انہوں نے اور علی نواز جنگ نے سر رچرڈ ٹرنچ اور مہدی یار جنگ کے مشوروں سے طئے کیا ہے ۔ سب کی رائے ہے کہ ارنسٹ چاسپر اس کام کیلئے نہایت موزوں ہوں گے اور ان کا فوراً تقرر ہونا چاہئے۔ اس کارروائی کی ساری تفصیلات اور باب حکومت کی سفارشی قرارداد ایک عرض داشت کے آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئی ۔آصف سابع نے فرمان مورخہ 5 نومبر 1931 ء کے ذریعہ ارنسٹ چاسپر کے تقرر کی منظوری دی۔

آرٹس کالج کی عمارت کے نقشہ جات ارنسٹ چاسپر ، مشیر آرکیٹکٹ کے مشوروں سے مرتب کر کے عثمانیہ یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی میں پیش کئے گئے ۔ اس کمیٹی کے دو اجلاسوں میں اس بارے میں صلاح و مشورہ ہوا اور ان پر پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ۔ اس کالج کی عمارت کی تفصیلی برآورد مرتب کی گئی جو 27 لاکھ 13 ہزار روپئے قرار پائی ۔ ایک عرض داشت میں آرٹس کالج کی عمارت کی 27 لاکھ 13 ہزار روپئے کی برآورد کی تفصیلات درج کر کے لکھا گیا کہ عمارت دو منزلہ تجویز کی گئی ہے جو مقامی ساسانی طرز پر ہوگی جس میں بیدر ، اورنگ آباداور بلدہ حیدرآباد کی عمارتوں کی اہم خصوصیات شامل رہیں گی۔ اس میں دور جدید کی عمارتوں کی جملہ ضروریات ملحوظ رکھی گئی ہیں۔ اس میں دو ہزار طلبہ کی تعلیم کیلئے گنجائش ہے ۔ یہ ساری تفصیلات درج کرنے کے بعد آصف سابع سے 27 لاکھ 13 ہزار روپئے منظور کرنے کی درخواست کی گئی۔ آصف سابع نے فرمان مورخہ 26 اکتوبر 1933 ء کے ذریعہ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کیلئے 27 لاکھ 13 ہزار روپئے کی منظوری دی۔ ابتدائی مراحل کی تکمیل کے بعد آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کے کام کا آغاز 13 جنوری 1934 ء سے ہوا اور ایک عرض داشت کے ذریعہ آصف سابع کواس کی اطلاع دی گئی۔ یہ اطلاع ملنے پر جامعہ عثمانیہ کے سنگ بنیاد کا ارادہ ظاہر کیا ۔ چنانچہ معتمد پیشی نے اپنے مراسلے مورخہ 4 جون 1934 ء کے ذریعہ معتمد باب حکومت کواطلاع دی کہ آصف سابع نے عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کیلئے 2 جولائی 1934 ء کے ذریعہ معتمد باب حکومت کواطلاع دی کہ آصف سابع نے عثمانیہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کیلئے 2 جولائی 1934 ء کو ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر کیا ہے ۔ بعد ازاں تاریخ اور وقت میں تبدیلی کے  بعد یہ تقریب 5 جولائی 1934 ء ساڑھے چار بجے مقرر ہوئی ۔ طئے شدہ پروگرام کے مطابق تقریب منعقد ہوئی اور آصف سابع نے سنگ بنیاد رکھا۔

ابتداء میں آرٹس کالج کی منظورہ برآورد میں کارنس اور پیاراپٹ وال  Cornice & Parapet Wall کی تعمیر کے لئے انتیس ہزار چھ سو بیس روپئے کی گنجائش رکھی گئی تھی لیکن ارنسٹ چاسپر مشیر آرکیٹکٹ کی سفارش یہ تجویز ہوئی کہ عمارت کی موزونیت کے لحاظ سے اسے مصفاسنگ ساق سے تعمیر کیا جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی اور باب حکومت کی سفارش پر آصف سابع نے فرمان مورخہ 24مارچ  1938 ء کے ذریعہ اس کام کیلئے دو لاکھ اٹھاون ہزار دو سو سینتیس روپئے منظور کئے ۔ ارنسٹ چاسپر مشیر آرکیٹکٹ نے یہ رائے بھی دی کہ Jack Arch آرٹس کالج کی عمارت کے باب الداخلہ کی چھت کیلئے موزوں نہیں ہے ۔ موزونیت کے مد نظر گنبد نما چھت تعمیر کی جانی چاہئے ۔ اس تجویز کے سلسلے میں یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی اور باب حکومت کی سفارشات ایک عرض داشت میں درج کر کے آصف سابع کی خدمت میں پیش کی گئیں تو انہوں نے آرٹس کالج کی گنبد نما چھت کی تعمیر کیلئے سینسٹھ ہزار ایک سو روپئے کی منظوری دی ۔ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر کیلئے ابتداء میں ستائیس لاکھ تیرہ ہزار روپئے کی منظوری دی گئی تھی ۔ بعض نئے کام انجام دیئے گئے جن کیلئے منظورہ برآورد میں گنجائش نہیں تھی ۔ اس لئے مزید رقمی منظوریاں دی گئیں۔ آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر پر جملہ مصارف انتیس لاکھ ستانوے ہزار چھ سو تینتیس روپئے ہوئے ۔ آصف سابع نے یونیورسٹی بلڈنگ کمیٹی اور باب حکومت کی سفارشات فرمان مورخہ 5 ڈسمبر 1943 ء کے ذریعہ زائد مصارف کی منظوری دی۔
آرٹس کالج کی عمارت کی تعمیر مکمل ہونے پرعرض داشت مورخہ 18 نومبر 1939 ء کے ذریعہ آصف سابع کو یہ اطلاع دی گئی کہ آرٹس کالج کی تعمیر کا کام جو 13 جنوری 1934 ء کو شروع ہوا تھا ، اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور آصف سابع سے جامعہ کی اس مرکزی عمارت کا افتتاح کرنے کی درخواست کی گئی ۔ افتتاح کے انتظامات کے سلسلے میں منجملے سفارشات کے یہ سفارش بھی پیش کی گئی کہ افتتاح کی تقریب 4 ڈسمبر 4 بجے سہ پہر منعقد کی جائے‘‘ لیکن آصف سابع کا حکم ہوا کہ افتتاح کیلئے 4 ڈسمبر کی تاریخ مناسب ہے مگر افتتاح ساڑھے دس بجے صبح اور ایٹ ہوم چار بجے سہ پہر رکھا جائے۔ چونکہ افتتاح کی تقریب بڑے پیمانہ پر منعقد کی جانے والی تھی، اس لئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک دن میں دو بار بڑے پیمانے پر انتظامات کرنا وقت طلب تھا۔ خود آصف سابع کو ایک ہی دن میں دوبار ان تقاریب میں شریک ہونا پڑتا تھا ۔ اس لئے افتتاح اور ایٹ ہوم کا وقت 4 ڈسمبر 4 بجے سہ پہر مقرر کرنے کی اجازت حاصل کرلی گئی۔

آصف سابع نے مقررہ پروگرام کے مطابق 4 ڈسمبر 1939 ء کو آرٹس کالج کی عمارت کا افتتاح انجام دیا ۔امیر جامعہ اور انجمن اتحاد طلبہ جامعہ عثمانیہ کی جانب سے آصف سابع کی خدمت میں دو سپاسنامے پیش کئے گئے ۔ ان سپاس ناموں کا جواب دیتے ہوئے آصف سابع نے کہا کہ چار پانچ سال قبل انہوں نے جس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا اس پر ایک عالیشان عمارت قائم ہوگئی ہے جو اپنی وضع کی خوبصورت ، شان اور عظمت میں غالباً ہندوستان بھر میں اپنی نظیر نہیں رکھتی جس طرح جامعہ عثمانیہ ان کے عہد حکومت کا ایک اعلیٰ کارنامہ ہے ، اسی طرح یہ عمارت بھی ان کے عہد کی ایک شاندار یادگار ہے جو صدیوں تک آنے والی نسلوںکو آج کی تہذیب و تمدن اور ذوق تعمیر کی یاد دلاتی رہے گی۔ جامعہ عثمانیہ کی خصوصیت اور آرٹس کالج کی عمارت کی طرز تعمیر پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس جامعہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں اردو کے ذریعہ تعلیم دی جاتی ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول اور آپس کے دوستانہ تعلقات سے پیدا ہوئی ۔ یہ زبان مساوی طور پر دونوں قوموں کی میراث ہے اور جو عام طور پر سارے ہندوستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ آرٹس کالج کی عمارت کی طرز تعمیر بھی اردو زبان کی طرح ہندو اور مسلمان کے طرز سے مرکب ہے اور اس کے ستونوں اور در و دیوار کے نقش و نگار میں دونوں قوموں کی کاریگری اور ان کے تمدن اور تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے ۔اس طرح یہ عمارت بھی ایک علامت ہے ، اس باہمی میل جول ، باہمی دوستانہ مراسم اور خوش گوار تعلقات کی جو صدیوں سے ریاست کے مختلف قوموں میں چلے آتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہمیشہ آپس میں شیر و شکر ہوکر رہے ہیں۔ آصف سابع نے اپنے جوابی ایڈریس کو ختم کرتے ہوئے دعا کی فلاق علم و فضل رب العالمین اس جامعہ کو دن دونی اور رات جوگنی ترقی عطا کرے اور مدت تک میرا ملک اس کے فیض سے بہرہ اندوز ہوتا رہے۔