آدھار نمبر سے موبائلوں، بینک کھاتوں کو کیوں جوڑیں؟

ششی تھرور
موبائل فونس، بینک کھاتوں کو ’آدھار‘ سے کیوں مربوط کیا جائے؟ آدھار کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ آخر کیوں اتنی بڑی تعداد میں کشادہ ذہن لوگ اس چیز کی مخالفت کررہے ہیں جسے کبھی ایسی اسکیم کے طور پر متعارف کی گئی جس سے عوام کو فائدہ پہنچے، نا کہ لوگوں کو دھمکایا جائے؟
’Aadhaar‘ کو 2009ء میں ایسے پراجکٹ کے طور پر شروع کیا گیا کہ بائیومیٹرک (حیاتی شماریاتی) پر مبنی منفرد شناخت کو حکومتی اسکیمات کے اہل استفادہ کنندگان کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ اس کو ایسے طریقہ کار کے طور پر وضع کیا گیا کہ ’غیرحقیقی استفادہ کنندگان‘ کی تعداد کا صفایا اور سرکاری فنڈز پر ’ہاتھ کی صفائی ‘ کو گھٹایا جاسکے۔ عجیب بات ہے کہ اُس وقت کے چیف منسٹر گجرات جنھوں نے اس پراجکٹ کی پُرزور مخالفت کی اور مرکز میں اقتدار ملنے پر اسے ختم کردینے کا عہد کیا، اب وزیراعظم کے طور پر وہی اس اسکیم کے سب سے بڑے حمایتی بن چکے ہیں۔ زیادہ بُری بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اسے اس قدر پھیلا دیا ہے جس کا اُن کے پیشروؤں نے کبھی قیاس نہیں کیا تھا، عملاً ہر سرویس (محض سبسیڈیز تک محدود نہیں) کو آدھار سے مربوط کیا جارہا ہے، حالانکہ اُن کی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ آدھار کا استعمال ’لازمی‘ نہیں بنایا جائے گا۔
اس وجہ سے سنگین تشویش پیدا ہوگئی ہے کہ یہ ساری اسکیم غیردستوری ہے۔ اس پراجکٹ کی اصل قانونی بنیاد میں ہی نقص ہے، کیونکہ حکومت نے آدھار (مالی اور دیگر رعایتیں، فوائد اور خدمات مطلوبہ منزل تک پہنچانا) قانون 2016ء کو رقمی بل کے طور پر آگے بڑھاتے ہوئے راجیہ سبھا کی نگرانی سے خود کو بچالیا ہے۔ اس نے یہ کام ان معلومات کے باوجود کیا ہے کہ زیادہ تر تجزیوں کے مطابق یہ ایکٹ دستور کے آرٹیکل 110 کے تحت ’مَنی بل‘ کیلئے درکار ضرورتوں کی تکمیل میں ناکام ہوا ہے۔
آدھار ایکٹ بیان کرتا ہے کہ انڈیا کا ہر مقیم شہری آدھار نمبر حاصل کرنے کا حق دار ہوگا؍ ہوگی۔ اس کے زبان و بیان سے اشارہ بھی ملتا ہے کہ حصولِ آدھار نمبر بہ اعتبار نوعیت رضاکارانہ ہے، نہ کہ لازمی۔ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے اس ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی یکجا سماعت کرتے ہوئے نشاندہی کی تھی کہ ’’آدھار کارڈ اسکیم بالکلیہ اختیاری ہے اور اسے لازمی نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ تاہم، اس حکمنامہ سے بے پروائی میں حکومت نے اندھا دھند کام اقدامات کرتے ہوئے آدھار کو عملی طور پر زندگی کی ہر چیز سے مربوط کردیا ہے، حد تو یہ ہوگئی کہ آدھار نمبر نہ ہونا کئی بنیادی خدمات سے محرومی کا موجب بن جائے گا۔ مختصر یہ کہ حکومت نے آدھار کو لازمی بنا دیا ہے حالانکہ عدالتوں کو یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہے۔
اس ایکٹ نے مقصد ِ توثیق کو محدود کردیا ہے، یعنی کنسالیڈیٹیڈ فنڈ آف انڈیا سے کوئی سبسیڈی، فائدہ، یا سرویس حاصل کرنے کے سلسلے میں کسی فرد کی شناخت قائم کرنا۔ یہ نکتہ ایک سنجیدہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کیونکر خانگی بینکوں اور ٹیلی فون آپریٹرز کی فراہم کی جانے والی سرویس ان زمروں کے تحت آنا چاہئے۔ کیوں ہمیں ہمارے بینک کھاتوں اور موبائل فونس کو آدھار نمبر سے جوڑنا چاہئے کہ ان سے استفادے کے قابل ہوسکیں؟ پھر بھی فون کمپنیوں اور بینکوں کی طرف سے اصرار ہے کہ ہمیں لازماً ایسا کرنا چاہئے۔ آدھار کو مختلف سرویسز کے ساتھ مربوط کردینے سے ایک اور سوال بھی اُٹھتا ہے: سرکار آخر کس مفاد کے تحت یہ جاننے پر مجبور ہے کہ آیا کوئی فرد نے فلائیٹ کے ذریعے سفر کیا ہے یا ٹرین سے، آیا کوئی فرد کا بینک کھاتہ ہے، یا پھر کیا کوئی فرد (بشمول صنف نازک) کا موبائل کنکشن ہے؟
کسی بھی فرد کے بائیومیٹرک ڈیٹا اور دیگر حساس نوعیت کی معلومات کو سنٹرل ڈاٹابیس سے مربوط کردینا، جبکہ اس طرح کی جمع شدہ معلومات کیلئے معقول سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی (ڈیٹا کے افشاء سے متعلق میڈیا رپورٹس کے پیش نظر) ایسے اقدامات قرار دیئے جاسکتے ہیں کہ ان سے عملاً حق رازداری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حق رازداری کو بلاشبہ کوئی ناگزیر ملکی مفاد کے سبب محدود کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، جہاں کہیں ناگزیر ملکی مفاد ہو ، اسے اس طرح کے مقاصد کی تکمیل کیلئے اقل ترین تحدیدی طریقۂ کار اختیار کرنا چاہئے۔ لیکن، اس کے برعکس پیش آیا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جہاں دیہی علاقوں میں انٹرنٹ رابطہ، یا برقی، یا دیگر معقول سہولتوں کے فقدان کے سبب وہ مشینیں ناکام ہوگئیں جن کو آدھار نمبر کے حامل افراد کی توثیق کیلئے لگایا گیا۔ اس کے نتیجے میں کئی لوگوں کو اُن کا راشن نہیں مل پایا، جو اُن کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔ وہ اسکیم جس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا رہا، لوگوں کو اُن کے استحقاق سے محروم کررہی ہے۔
آدھار کے معاملے میں موجودہ طور پر جس طرح عمل درآمد کیا جارہا ہے اسے دلیلی طور پر تباہ کن قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ نہ تو اس اسکیم کے مقصد، اور نا ہی قانون کی شرائط کی مطابقت میں ہے۔ چونکہ ان مسائل کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے، ہمیں امید ہے عدالت حکومت کو پابند کرے گی کہ آدھار پر عمل آوری ہندوستان کے دستوری اقدار ہماری جمہوریت کے مسلمہ اُصولوں کی مطابقت میں کی جائے۔
( بہ شکریہ : دی ویک)