آدتیہ ناتھ نے ہندوستانی فوج کو ’’ مودی سینا ‘‘ قرار دیا ہم سب کو غصہ کیوں آنا چاہئے

برکھا دت

چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کبھی بھی اپنے بہتر اور مہذب بیانات کیلئے چرچے میں نہیں رہے لیکن چیف منسٹر نے اس وقت خود اپنی ہی حد پار کردی جب انہوں نے ہندوستانی فوج کو ’’ مودی سینا ‘‘ قرار دیا ۔ بی جے پی ہوسکتا ہے کہ اس کا یہ جواز پیش کرے کہ بالا کوٹ میں کئے گئے حملے در اصل سیاسی عزم اور حوصلے کا ہی نتیجہ تھے لیکن جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ مناسب نہیں تھے ۔
ان الفاظ کو شدت جذبات کا نام دے کر بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ فوج کی ملکیت پر دعویداری کی کوئی بھی کوشش نہ صرف انتہائی تشویشناک بلکہ غداری کے مترادف بھی ہے ۔ ملک کے سپاہی اور فوجی مملکت ہندوستان تعلق رکھتے ہیں ‘ یا پھر ان کا تعلق ان کی پلٹن سے یا اپنے یونیفارم سے ہوتا ہے ۔ ان کا تعلق کسی حکومت یا سیاسی پارٹی سے نہیں ہوتا ۔ جو پارٹی ایک طاقتور قوم پرستی میں خود کو قابل فخر قرار دیتی ہے وہ بی جے پی ہے اور اس معاملہ میں اس نے خود حب الوطنی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے ۔
حالانکہ الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کردی ہے لیکن اگر کمیشن کی جانب سے سرزنش کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا اور خود ملک کی مسلح افواج کے تینوں شعبوں کے سربراہان نے بھی شدید اور فوری طور پر اس سے لاتعلقی ظاہر کرلی ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ مختلف مثالیں بھی اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ آدتیہ ناتھ کے تبصرے اور ریمارکس پر تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جبکہ اسی ہفتے میں آسٹریلیا کے چیف آف ڈیفنس فورسیس اینگس کیمپ بیل نے ملک کے وزیر دفاع کے ریمارکس میں مداخلت کی تھی تاکہ ان کے عہدیدار اس وقت وہاں سے کوچ کرنا شروع کرسکیں جب وزیر موصوف سیاسی سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔
سرویز میں اکثر و بیشتر پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی فوج ملک کا سب سے زیادہ اعتماد کیا جانے والا ادارہ ہے ۔ حالانکہ ملک میں جمہوریت کے تقریبا ہر ستون پر عدم اعتماد یا بے بھروسہ کی صورتحال واضح ہے اس کے باوجود اس کا اثر ہماری فوج پر نہیں ہوا ہے ۔ ہماری فوج ملک کی حفاظت کے معاملہ میں سب سے آگے رہی ہے اور اب اس فوج کو خود اپنے آپ کو سیاسی غلبہ سے پاک کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔
آدتیہ ناتھ کی سب سے موثر سرزنش اس ہفتے ایک 20 سالہ نوجوان سدھارتھ کمار نے کی ہے ۔ سدھارتھ کمار سی آر پی ایف کے ایک عہدیدار پردیپ کمار کے سپوت ہیں جو پلواما حملے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے ۔ میں مغربی اترپردیش کے شاملی ضلع میں ان کے گاوں میں ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ آدتیہ ناتھ کے الفاظ کی خبر ہم تک پہونچی ۔ نوجوان سدھارتھ نے مجھ سے کہا کہ ’’ فوج کی وردی کسی نیتا سے متعلق نہیں ہے ۔ یہ ملک سے تعلق رکھتی ہے ‘‘ ۔ یہ نوجوان وزیر اعظم کے ہندو ووٹر کے تبصرہ سے بھی متفق نہیں تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے والد کا یونیفارم کسی ہندو یا مسلمان میں امتیاز نہیں کرتا ۔ ابھی تین ماہ نہیں ہوئے ہیں جب سدھارتھ اپنے والد کے سایہ سے محروم ہوگیا اس کے باوجود وہ ایسے معاملات میں بہترین شعور اور حساسیت کا اظہار کررہا تھا جو ایک حقیقی قوم پرستی سمجھے جانے والے ‘ بھلے وہ آدتیہ ناتھ نہ ہوں ‘ چیف منسٹر کے شعور سے بالکل برعکس تھا ۔
فوج کو بھی یہ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح سے سیاسی تفریق کے خطرہ سے خود فوج کی نچلی صفوں میں پھوٹ پیدا ہوسکتی ہے ۔ یقینی طور پر ملک کا فوجی بھی ایک شہری ہوتا ہے اور اسے بھی اپنی پسند کے مطابق ووٹ ڈالنے کا حق ہوتا ہے ۔ لیکن کیا ہمیں اس بات پر مطمئن رہنے کی ضرورت ہے کہ فوجی اور سپاہی سبکدوشی کے بعد انتخابی سیاست کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ؟ ۔ ہمارے دو سابق سربراہان فوج جنرل وی کے سنگھ اور جنرل جے جے سنگھ نے سرگرم سیاست شروع کردی ہے ۔
پہلے بھی کئی دوسرے سپاہیوں اور ان کے افراد خاندان نے پارٹی سیاست کو قبول کرلیا ہے ۔ کارگل جنگ کے ہیرو وکرم باترا کی والدہ نے بھی کچھ وقت کیلئے سیاست کی ہے تاہم اس احساس کے بعد کہ وہ یا ان کا خاندان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا انہوں نے اس کو خیرباد کہہ دیا ۔ حال ہی میں میجر سریندر پونیا اور شارٹ سرویس کمیشن عہدیداروں جیسے شالینی سنگھ نے بھی سیاسی پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔ بحیثیت ہندوستانی شہری یہ ان کا حق ہے ۔ لیکن مجھے اس بات کی فکر ہے کہ آیا اس سے خود ہندوستانی فوج پر پارٹی سیاست کے مطابق اثرات پڑنے نہ لگ جائیں۔ اس کے کوئی آسان جواب نہیں ہیں۔ ایسے ہی بیشتر سوالات کا دوسرے پیشہ ور افراد جیسے صحافیوں ‘ ججس ‘ وکلا اور ٹکنو کریٹس پر بھی ہوتا ہے لیکن کوئی دوسرا پیشہ ایسا نہیں ہے جس کی آزادی اور احترام اتنی اہمیت کا حامل ہو جتنا فوج کا ہے ۔ یہاں بہت کچھ داو پر لگ جاتا ہے ۔
اب وقت ہے کہ انتخابی قوم پرستوں اور حقیقی حب الوطن افراد کے مابین فرق کیا جائے ۔ جب کوئی سیاسی پارٹی اگر ووٹ حاصل کرنے کیلئے قوم پرستی کا استعمال کرتی ہے تو وہ صرف انتخابی قوم پرست قرار دی جاسکتی ہے ۔ ایسا کیوں ؟ ۔ مثال کے طور پر ہمارے پرائم ٹائم ٹی وی پر بیٹھنے والے خود ساختہ محب وطن افراد بھی ہمارے فوجیوں اور سپاہیوں کے علاوہ نیم فوجی دستوں کیلئے نان فنکشنل فینانشیل اپ گریڈ ( این ایف ایف یو ) کی بات تک نہیں کرتے ؟ ۔ یہ معاشی پیکج دوسری مرکزی حکومت کی ایجنسیوں کو دیا جاتا ہے تاکہ ترقی کے مواقع ختم ہونے سے جو نقصان ہورہا ہو اس کی پابجائی کی جاسکے ۔
مسلح افواج ٹریبونل نے اس کے حق میں رولنگ دی ہے لیکن وزارت دفاع نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے ۔ علاوہ ازیں اس کے نمائندوں نے یہ تک تبصرے کئے ہیں کہ کس طرح سے سپاہی وسیع و عریض مکانات میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد سوشیل میڈیا پر فوجیوں کی جانب سے رد عمل کا اظہار شروع ہوگیا جنہوں نے اپنے بنکروں ‘ چھوٹے موٹے فلیٹس اور سرحدی ٹھکانوں کے تجربات کی تصاویر پیش کرنی شروع کردئے ۔ ان تمام کے ساتھ طنز کے ساتھ وسیع و عریض مکانات کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ اس کے باوجود کوئی بھی نیتا یا ٹی وی کا مجاہد ان مسائل پر بات نہیں کرتا جو حقیقی معنوں میں فوجیوں اور سپاہیوں کیلئے معنی رکھتے ہیں۔ اس پر تبصرے آسان ‘سست اور سستے انداز سے کئے جاتے ہیں۔