آخری چہارشنبہ

رفیعہ نوشین کے قلم سے
’کیا پکارئیں جی دولن بیگم …؟ مٹھی مٹھی سوندی خوشبو آری، رضیہ نے نتھنوں کو سکوڑتے ہوئے اپنی بہو ارم سے پوچھا ۔
’ماں میں مزعفر پکارہی تھی …‘ ارم نے پتیلی میں چمچا چلاتے ہوئے جواب دیا۔
’ارے رے رے رے آج سے صفر کا منحوس مہینہ شروع ہورا بول کے میں گم صم بیٹھیوں۔ میرا دل ہیبت کے مارے ریل کے مافق دھک دھک دھک کررا۔ آسمان سے کتے بلائیاں آتے کی بول کو میں سوچ ریوں تو تم مٹھا کھانا بنالیتے بیٹھیں‘ رضیہ نے ماتھا پیٹا۔
’ماں صفر کا مہینہ منحوس نہیں بلکہ یہ تو کامیابی کا مہینہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس مہینہ کو صفر المظفر کا نام دیا گیا ہے ۔ مظفر کا مطلب کامیاب، ۔ ارم نے تصحیح کی۔
’آئی آئی ۔ کیا بتاں کرریں جی …؟ دیکھ ریں میرے بالاں چیچ سفید نہیںہوئے۔ پیدا ہوئے سو دن سے لے کو آج تک سوب دیکھتے آریوں ، ہمارے اماں صفر کا مہینہ شروع ہوتیکیچ ہنڈی بھر چنے ابالیتے تھے اور مردوں کو کھلاتے تھے ۔ کیکو بولے تو صفر کا مہینہ مردوں پہ بھاری ہوتا بول کو اور تھوڑے چنے آزو بازو والوں کو بھی بھیجتے تھے ، رضیہ اپنا تجربہ سنا رہی تھیں۔
’اچھا پڑوس میں چنے بانٹے جاتے تھے۔ اس لئے کہ ا پنی بلائیں اور مصیبتیں ان کے پاس چلے جائیں …؟ ارم نے تعجب سے پوچھا ۔ اگر ایسا ہے تو ان کے ذریعہ بانٹے جانے والے چنوں کے ذریعہ ان کی مصیبتیں بھی تو ہمیں گھیر سکتی ہیں۔ یہ تو گویا مصیبتوں کا تبادلہ ہوگیا ۔ جیسے ہم عید پر یا کسی خاص موقع پر لذت دار پکوان بناکر پڑوس میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسی طرح مصیبتوں کی بھی تقسیم ہوتی ہے کہ تم میرا رنج و غم لے لو اوراپنی پریشانی مجھے دیدو‘ ۔ ارم نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا ۔
’کیا دولن تم میری باتوں کا مذاق اڑادیں ؟ تم کو ابی معلومیچ کیا ہے ؟ تم تو ابی انڈے میں کی زردی ہے ۔ کونسا مہینہ کیسا رہتا ۔ کیا کرنا …؟ کیا نہیں کرنا …؟ ابی یہ سوب سکنا ہے تمہارے کو چلو جلدی جلدی رکابیاں لے کے اس میں ایک انڈا ، پانچ لال مرچیاں ، ایک پیالی مٹھا تیل ، تھوڑا نمک آٹا اور دو بھلاویں ڈال کے رات کو سوب کے سرانے رکھ کو چھوڑو۔ صبا صبا منگنے والے ’ تیرہ تیزی کرو‘ بول کے پکار لیتے آتے دیکھو۔ ان کو دے دینا ۔ صدقہ دیئے تو بلائیں پورے ٹل جاتیں۔ آیا سمجھ میں … ؟ رضیہ نے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔
’ماں یہ سب رسمیں ہندوؤں کی ہیں۔ بلائیں انسان کے اعمال کے ساتھ اترتی ہیں۔ نقص دنوں یا مہینوں میں نہیں ہوتا یہ تو انسان کے اندر ہوتا ہے ۔ لوگ خود برے ہوتے ہیں لیکن اپنے قصور کو مہینوں اور دنوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ اگر وہ صفر میں اتنی ہی آفتیں اور بلائیں نازل ہوتی ہیں تو ’ گستاخی معاف‘ آپ کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا ۔ اچھی بھلی تو ہیں آپ اور سارے افراد خاندان ، ارم نے جرح کی۔
’’ہو سوب اچھے ہیں تو تمارے آنکھوں میں کھٹک ریں شاید زندگی بھر جتن کرلیتے بڑے بڈے لوگاں سمجھائے سو کاماں کرے بول کے آج ہٹے کٹے تمہارے سامنے موجود ہے۔ ہماری ساس ہمارے کو جو بولے وہ ہم منہ موچ کے خاموش کرتے تھے ۔ ایک سال تمہارے سسرے ہرے رنگ کی کتان کی ایسی اچھی ساڑی لائے تھے میں کیا بولوں ؟ دیکھ تیچ دل پین لینا بول را تھا ۔ دوسرے دن یحچ صفر کا مہینہ شروع ہوگیا تو ہماری ساس بولے اس سال ہری ساڑی نکو پینو اس سال ہرے کپڑوں کی نحوست ہے ۔ بولے تو میں دل پہ پتھر رکھ کو نہیں پینی ۔ پھر ایک سال بولے پھلن بچے کو نانی کنے بھیج دو نہیں تو انے مرجاتا بولے تو اس کوفوراً نانی کنے بھجادی۔ پھر ایک سال کو بولے ہرے چوڑیاں پین لو کچھ بی نیں ہوتا بولے تو چڑیوں کی دکان کو جاکو ہاتھ بھر کو ہرے تلئی کام کے چڑیاں پین کو آئی ۔ ایسا ایک ایک سال کو ایک ایک نحوست رہتی کتے۔ اس سے بچنا اپن ہم ایسا سب کرے بول کے آج زندہ ہے۔ تمارے جیسا حجتاں کرلیتے رہے تو دیکھتے بھی نئیں تھے ہوں گے‘۔ رضیہ نے تیوریاں چڑھا کر کہا۔
’ماں یہ سب اعلیٰ درجے کے شرک ہیں۔ جسے ’شرک اکبر‘ کہتے ہیں اور یہ حرام ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں ان باتو کو مانتے تھے لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کی رد کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام ان باتوں کی نفی کرتا ہے ۔
اسلام میں اس قسم کے فاسد و باطل خیالات و نظریات کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔ حضورؐ نے ایسے نظریات کو اپنے پاؤں تلے روندا ہے‘۔ ارم نے خلاصہ کیا۔
’یہ لو ۔ تم تو پورے باتینچ الٹھے کرریں۔ یہ مہینہ افلاس کا بولے توکامیابی کا کتے۔ ایسا ہے تو لوگاں یہ مہینے میں شادیاں کیکو نیں کرتے ، بچپن سے دیکھ ریوں۔ محرم کا صفر کا مہینہ آتیچ شادی خانے ’ہو‘ ہوجاتے اور بزاراں سن سان ، ۔ رضیہ اپنا جواز پیش کر رہی تھیں۔
ماں یہ سب ’خلاف شرع‘ کے کام ہیں۔ جو ایمان کی کمزوری کا ثبوت ہیں۔ زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات جیسے شادی بیاہ وغیرہ نہیں کرتے تھے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے ۔ ہماری رہنمائی کیلئے قرآن پاک اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت ان سے دور ہوکر ، نفس شیطانی ، کا شکار ہورہی ہے۔ کھٹ کھٹ دروازے پر ہوئی دستک نے ارم کی بات کے تسلسل کو توڑ دیا تھا ۔ پڑوسن رابعہ آپا آئیں تھیں۔ سلام علیک کے بعد رضیہ سے پوچھنے لگیں۔ ’رضیہ آپا میں یہ پوچھنے کو آئی تھی کہ آخری چہارشنبہ کو اپن ہریالی کھندلنے کونسے گارڈن کو جائیں گے ؟ ہر سال ایک ایک گارڈناں دیکھ کو اب پورے گارڈناچ ختم ہوگئے ۔ اب کاں جانا کی کاں نہیں کی سمجھ میچ نہیں آرا ؟
’تم اتا کیکو پریشان ہوریں جی ٹہرو۔ گوگل پاشاہ سے پوچھیں گے ، رضیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’ ہو پوچھو مگر پرسوں واٹس اپ پہ آیا کتے نا کہ پورے باتاں گوگل پاشاہ کومالوم نئیں رہتے۔ اس واسطے بڈے بڑوں کے پاس بی بیٹھ کو سکو بول کے ‘ رابعہ نے رضیہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا ’ہاں یہ سچ تو ہے لیکن اگر بزرگوں کا عقیدہ ہی صحیح نہ ہو تو ایمان تو خطرے میں پڑ جائے گا نا ‘ ارم نے لقمہ دیا۔
’عقیدہ …؟ کیا ہوا ہمارے عقیدے کو …؟ ایک اللہ اور ایک رسولﷺ کویچ مانتے اور ان کیچ سنت پہ چلتے، رابعہ نے خفگی سے کہا ۔ ’اچھا تو پھر بتایئے آپ لوگ ہر سال آخری چہارشنبہ کو باغ کی سیر کے لئے کیوں جاتے ہیں ؟ ارم نے استفسار کیا ۔
’آئی رضیہ تماری بہو پڑی لکھی دیندار ہے بولے ناجی ۔ مگر اس کو تو سنت کے باتاں بھی نئیں معلوم ، رابعہ کے لہجے میں طنز تھا ۔ ’ہو صبح سے ویچ باتوں پہ بحث ہوری دیکھو۔ میں تیر کو اُنے میر کو ۔ میں ایک بولی تو انے دس بول ری ۔ میں سمجا سمجا کو تھک گئی ۔ اب تم تو بی سمجھا کے دیکھو ۔ تماری بات تو بی اس کے بھیجے میں گئی تو اچھا ہے ‘ رضیہ نے ناگواری سے کہا ۔
’ایدے بیٹا ہمارے پیارے سرکار بیمار تھے تو شفا ہونے کے بعد صحت کا غسل کر کے باغ میں ٹہلنے گئے تھے ۔ ویچ سنت پوری کرنے سوب لوگاں آخری چہارشنبہ کو توشے بن لے کے باغوں کو جاتیں۔ ہرے ہرے باغاں لوگوں سے بھر کو ہرے بھرے ہوجاتیں اور دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ‘ ۔ رابعہ نے ارم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ۔
رابعہ خالہ ۔ آپ نے جیسا بیان کیا ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب باتیں بدعت و خرافات ہیں۔ کیا آپ بتاسکتی ہیں کہ کس کتاب میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں ؟ لوگ افواہوں کو سن کر ایسی باتوں کو اپنے ذہن میں جگہ دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے سن کر توہمات کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔ ابھی ابھی گوگل پاشاہ کا ذکر چھڑا تھا ۔ ان سے ہی پوچھ لیجے کہ اللہ تعالیٰ نے صفر کے منحوس ہونے کا ذکرکہاں کیا ہے ؟ ‘۔
ازروئے تحقیق یہ بات واضح ہے کہ اس دن سے تو سرکار کے مرض وفات کی ابتداء ہوئی تھی ۔ انہیں شفا ہوئی اور نہ ہی وہ کسی باغ میں سیر کے لئے گئے ۔ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں ۔ جب ذہن میں رہنمائی کے لئے قرآن کی تعلیم موجود ہو نہ احادیث کا فیض تو پھر اس قسم کی بے سروپا باتیں انسان کے ذہن میں موجود رہ کر بہت سارے اعمال کا سبب اور ذریعہ بنتی ہیں۔ سرکار دو عالمؐ نے فرمایا ’ولا صفر‘ یعنی کہ صفر کچھ بھی نہیں ہے ۔ اس کی اہمیت بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہی ہے۔ خوشی غم ، نفع نقصان ، بیماری ، شفا سب کچھ دینے والا اللہ ہے ۔ جب تک خدا برتر نہ چاہے کسی کو کوئی تکلیف یا نقصان نہیں ہوسکتا ۔ بس ہمارا عقیدہ مضبوط ہونا چاہئے تو بہ کیجئے ایسے عقیدوں سے جو آپ کو تو ہم پرستی کے دلدل میں ڈھکیلتے ہیں اور شرک کی ایسی آگ میں ڈال دیتے ہیں۔ جہاں آپ کے روزے نماز ، عبادتیں سب جل کر بھسم ہوجاتے ہیں۔ اس سے باہر نکلیں اور اپنے زیر تربیت نسلوں میں اس توہم پرستی کے وائرس کو منتقل نہ کریں ، ارم کی آواز فرط جذبات سے لرز رہی تھی ۔
رضیہ اور رابعہ دونوں ایک دوسرے کو ایسی نظروں سے دیکھ رہے تھے جس میں احساس پشیمانی اور ندامت کا عنصر نمایاں تھا ۔ رابعہ اُٹھ کھڑی ہوئیں اور جاتے جاتے رضیہ سے کہنے لگیں’ رضیہ تماری بہو تو آخری دیندار نکلی۔ ایسے ایسے باتاں بتائی جو آج تلک کوئی بھی نئیں بتائے تھے ۔ چلو آج کے دن ہم یہ بدشگونی کے شکنجے سے آزاد تو ہوگئے۔