آج کوئی موضوع نہیں ملا

میرا کالم             سید امتیاز الدین
ہم کم و بیش تین یا چار سال سے یہ کالم لکھ رہے ہیں لیکن ہم آپ سے سچ کہتے ہیںکہ ہر بار ہمارے لئے سب سے مشکل کام موضوع کی تلاش ہوتا ہے۔ اگر مناسب موضوع مل جائے تو قلم خود بخود چلنے لگتا ہے ۔ آج جبکہ ہم یہ سطریں لکھ رہے ہیں اگست کی پندرہ تاریخ ہے یعنی یوم آزادی ہے ۔سوچا جنگِ آزادی کے موضوع پرکچھ لکھ دیں۔ پھر  خیال آیا کہ کالم تو 21 اگست کو شائع ہوگا۔ اُس وقت یہ موضوع ذرا بعد از وقت لگے گا۔ آج کے اخبار میں یوں بھی کئی مضامین یوم آزادی کی مناسبت سے چھپ چکے ہیں۔ ایسے میں ہمیں غالب کا شعر یاد آیا۔
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
ہم کو غالب پر رشک آیا ۔ غالب میں اور ہم میں ایک ظاہری فرق تو یہ ہے کہ ہم عالم  غیب سے عالم وجود میں تو آگئے ہیں لیکن غیب سے آج تک کوئی مضمون ہمارے خیال میں نہیں آیا۔ اب صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ ایک دن ہم عالم وجود سے عالم غیب میں چلے جائیں گے۔ جب تک ہم اس عالم فانی میں ہیں ہمیں صرف آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرناہے یا پھر اپنی جیبیں ٹٹولنی ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرلیں کہ اس وقت کوئی موضوع ہمارے ذہن میں نہیں ہے اسلئے جو بات بھی ہمارے ذہن میں آئے اور جس طرح بھی ذہن میں آئے ہم آپ کے گوش گزار کردیں گے بلکہ اس سلسلہ میں بھی ہمیں غالب ہی سے مدد لینی پر رہی ہے جس  نے کہا تھا ۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

صاحبو ! اس وقت ساری دنیا مسائل میںگھری ہوئی ہے ۔ بعض ممالک میں تو یہ حال ہے کہ لوگ سبزی خریدنے کیلئے بازار جائیں تو گھر واپس آنے تک جان کا بھروسہ نہیں۔ نہ جانے کب بازار میں خودکش بم دھماکہ ہو اور کتنی انسانی جانیں تلف ہوجائیں۔ روزگار کی تلاش میں بیرونی ممالک گئے ہوئے کتنے لوگ فاقے جھیل رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں کہیں سیلاب ہے تو کہیں خشک سالی ۔ ہلاری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ میں انتخابی مقابلہ ہورہا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ محض ایک تماشہ ہے لیکن ہمارے جو ہم وطن وہاں ہیں ان کو ایک تشویش سی ہے ۔ بات یہ ہے کہ بعض ایسے خاندان بھی وہاں موجود ہیں جو بیس پچیس سال سے بغیر اجازت مقیم ہیں۔ اُن کے بچے بھی ماشاء اللہ جوان ہوچکے ہیں۔ بچوں کی پیدائش چونکہ وہیں ہوئی ہے اس لئے ان کو تو شہریت حاصل ہے لیکن ماں باپ کا قیام غیر قانونی ہے ۔ ماں باپ کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہے کہ اگر مسٹر ٹرمپ آجاتے ہیں تو وہ ملک بدر ہوجائیں گے ۔ قصہ مختصر موضوعات تو بہت ہیں لیکن ان بنتے بگڑتے عالمی حالات سے ہم کو زیادہ دلچسپی نہیں ہے ۔ ہم پچھلے پندرہ برس سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وظیفہ یاب آدمی اور بیروزگار آدمی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ ہم ایک بندھی ٹکی زندگی گزارتے ہیں۔ ہر صبح ہماری پہلی مصروفیت اخبار بینی ہوتی ہے لیکن اخبار پڑھتے ہوئے ہم کو یہ شک گزرتا ہے کہ ہم آج کا اخبار پڑھ رہے ہیں یا گزرے ہوئے کل کا ۔ خبروں میں اتنی یکسانیت ہوتی جارہی ہے کہ کوئی بات نئی نہیں معلوم ہوتی۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم ٹی وی بہت شوق سے دیکھتے تھے ۔ ان دنوں ٹی وی کے اوقات مقرر تھے ۔ آج کل ٹی وی چوبیس گھنٹے چلتا ہے لیکن ہم کو کوئی بھی پروگرام دلچسپ نہیں لگتا۔ ٹی وی سیریل دکھائے جاتے ہیںلیکن سیریل بنانے والوں کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُن کا سیریل کبھی ختم ہونے نہ پائے ۔ مثال کے طور پر سیریل کی ایک قسط میں یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ اب ہیرو ہیروئین کی شادی طئے ہوچکی ہے ۔ گھر میں پوری تیاریاں چل رہی ہیں۔ اچانک کوئی ایسی خطرناک بات ہوتی ہے کہ سارا معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے ۔ ٹی وی کے نیوز چیانل پر جو مباحثے ہوتے ہیں وہ اور بھی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ پندرہ اگست کے موقع پر وزیراعظم نے دیڑھ گھنٹے کی تقریر کی ۔ اُن کی تقریر کے فوراً بعد ایک مباحثہ ہوا جس میں چھ سات حضرات نے اُس پر تبصرہ کیا چونکہ یہ تبصرہ بالکل فی البدیہہ تھا ، اس لئے ہرمبصر ایسی زبان بول رہا تھا جسے سن کر ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ انسانی حقوقوں کی ہر حال میں حفاظت ہونی چاہئے ۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ حق کی جمع حقوق ہوتی ہے ۔ حقوقوں کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی حقوق اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ حقوق سے بھی بڑا کوئی صیغہ جمع لانا چاہئے ۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ دوسرے مبصر صاحب پہلے مبصر کے ہم نوا نکلے اور فرمانے لگے میں آپ کے جذباتوں کی قدر کرتا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ جذبے کی جمع جذبات کافی ہے ۔ اب جذباتوں کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ جذبے کی شدت اتنی ہوگئی ہے کہ دل سینے کے باہر نکلا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زبان کا جنازہ بھی نکل رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے اساتذہ سخن ہر کس و ناکس سے بات نہیں کرتے تھے کہ کہیں اُن کی زبان خراب نہ ہوجائے ۔ ایک دفعہ میر تقی میر دہلی سے لکھنو جارہے تھے ۔ ایک اجنبی صاحب ان کے شریک سفر تھے ۔ اجنبی صاحب نے میر سے کچھ پوچھا ۔ میر تقی میر نے یونہی سا جواب دیا اور منہ پھیر لیا ۔ اُن صاب نے میر کی بے رخی دیکھی تو کہا کہ کچھ تو بات کیجئے ۔ بات چیت سے سفر آسانی سے کٹتا ہے ۔ میر نے جواب دیا ’’آپ کا سفر کٹتا ہوگا یہاں ہماری زبان خراب ہوتی ہے ‘‘۔ غالب کواپنی زبان پر اتنا ناز تھا کہ اُس نے کہا تھا ۔
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھے
جولفظ کہ غالب مرے اشعار میں آئے
داغ کی زبان کا ہر ایک معترف ہے خود داغ کو بھی اس کا احساس تھا ، ان کا ایک شعر ہے۔
مجھے یہ ڈر ہے کہ ایمان لے نہ آئیں لوگ
خدا کرے کوئی غلطی مرے کلام میں ہو
دوسرے مصرعے میں ہلکا سا نقص داغ نے عمداً رکھ دیا تھا ۔ موجودہ دورکے شعراء بھی زبان پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ایک محفل میں اخترالایمان اپنی نظم پڑھ رہے تھے جس کا ایک مصرع تھا   ؎
میں نے سالوں کو کیا جمع خسارہ بیٹھا
وہیں جاں نثار اختر بھی بیٹھے تھے ۔ انہوں نے کہا ، بھئی سالوں کو جمع کروگے تو خسارہ بیٹھے گا ہی ۔ اخترالایمان نے سالوں کی جگہ برسوں کردیا ۔ شکیل بدایونی کا مشہور فلمی گیت ہے ، چودھویں کا چاندہو یا آفتاب ہو، ایک استاد شاعر نے اس پر اعتراض کیا ’افسوس کہ آپ نے ایک ناموزوں مصرع لکھ دیا۔ اسے یوں ہونا چاہئے تھے ۔ ’ تم چودھویں کا چاند ہویا آفتاب ہو‘ شکیل بدایونی نے اعتراف کرلیا کہ یہ مصرع دراصل موسیقار روی کا دیا ہوا ہے۔ اُن کا کچھ قصور نہیں۔ اس کے برخلاف آج کل مشاعروں میں بعض شاعر ناموزوں اشعار پڑھتے ہیں اور انہیں دادبھی ملتی ہے اور وہ اسے جھک جھک کر سلام کر کے وصول کرتے ہیں۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہم ٹی وی سیریل اور مباحثوں کے بارے میں کہہ رہے تھے ۔ ٹی وی دیکھتے ہوئے سب سے زیادہ تکلیف ہم کو اشتہارات سے ہوتی ہے ۔ ہم اشتہارات کے بالکلیہ خلاف بھی نہیں ہیں ۔ اشتہارات کے بغیر ٹی وی کمپنیاں کیسے چلیں گی لیکن اشتہارات کی بھرمار ہم کو ناگوار گزرتی ہے ۔ گھسے پٹے اشتہارات بار بار دکھائے جاتے ہیں۔اشتہار دینے والی کمپنیوں  کو اس بات کا خیال ہونا چاہئے کہ ٹی وی کے ناظرین کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ ہر پانچ منٹ کے بعد آپ اپنے پراڈکٹ کے تعلق سے یاد دہانی کراتے رہیں ۔ اشتہار کو دلچسپ بھی ہونا چاہئے ۔ مثال کے طور پر ایک طاقت کا مشروب بنانے والی کمپنی کا اشتہار آتا ہے ۔ کچھ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ شامل ہوناچاہتا ہے ، وہ لڑکے حقارت سے کہتے ہیں’تو ہمارے لیول کا نہیں ہے‘ ایسے میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا کپتان ایم ایس دھونی اس سے پوچھتا ہے ’’میرے ساتھ کھیلے گا‘‘ ۔ وہ بچہ اس کے ساتھ کھیلتا ہے اور دھونی کو آؤٹ کردیتا ہے ۔ وہی لڑکے جنہوں نے اس بچے کوساتھ لینے سے انکار کردیا تھا ، اب اس سے پوچھتے ہیں’’ہمارے ساتھ کھیلے گا؟ ‘‘ ۔ اب دھونی اپنی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے ’’اب یہ اس لیول پر کھیلے گا‘‘۔ آج کل سب سے زیادہ اشتہارات ایک ایسی کمپنی کے آتے ہیں جس کا نام بھی چند سال پہلے تک سنا نہیں تھا ۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ کمپنی ہر چیز بناتی ہے ۔ آٹا لینا ہو ان سے خریدیئے۔ بالوں کا تیل ، جسم پر ملنے کا تیل ، ٹوتھ پیسٹ ، میک اپ کا سامان اور نہ جانے کیا کیا۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ صابن اور میک اپ کے سامان کے اشتہارات میں فلمی ستاروں کودکھایا جاتا تھا ۔ اخباروں میں بریل کریم کے اشتہار میں اشوک کمار اور کرکٹ کھلاڑی جی ایس رام چند آتے تھے لیکن ہم جس کمپنی کا ذکر کر ہے ہیں، اس میں صنعت کار صاحب خود جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ شایداس میں مصلحت یہی ہے کہ اُن کی جلوہ نمائی سے پراڈکٹ کی افادیت بہتر سمجھ میں آتی ہے ۔ بہرحال ہم کو اعتراض کسی اشتہار پرنہیںہے ۔ اعتراض ہے تو صرف اتنا کہ ہر پانچ منٹ کے وقفے سے وہی اشتہار دہرایا نہ جائے ۔ ہم نے اپنے ایک دوست سے یہ بات کہی تو انہوں نے کہا کہ میاں ہم تو اشتہار کے لئے ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ٹی وی پروگرام کے وقت اپنے چھوٹے موٹے کام کرلیتے ہیں۔ یہ سب تو خیر تھا لیکن اب ہم جبکہ یہ کالم ختم کرنا چاہتے تھے کہ اخبار میں سرخی دیکھی جس نے ہمیں چونکا دیا ۔ ایک کمپنی نے حب الوطنی کے جوش میں ایک ایسا اشتہار دے دیا ہے کہ ایک اہم مذہب کے ماننے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور وہ اس اشتہار کو ٹی وی سے ہٹوانا چاہتے ہیں۔ چلتے چلتے ہم کو ایک بات اور یاد آگئی  ۔ اردو کے صاحب طرز ادیب اور مذہبی رہنما حضرت خواجہ حسن نظامیؒ ایک پرچہ نکالتے تھے جس کا نام تھا منادی ۔ اتفاق سے خواجہ حسن نظامی کی زیر سرپرستی ایک منجن بھی بنتا تھا جس کا نام تھا واحدی منجن ۔ منادی کے ہر شمارے میں واحدی منجن کا اشتہار شائع ہوتا تھا ۔ ایک بار کسی بات پر خواجہ حسن نظامیؒ ، علامہ اقبال سے ناراض ہوگئے اور علامہ اقبال کی اہمیت گھٹانے کیلئے ان کو شاعر پنجاب لکھنے لگے ۔ علامہ اقبال کوایک ترکیب سوجھی ۔ انہوں نے خواجہ حسن نظامیؒ کو ایک خط لکھا کہ میرے دانتوںاور مسوڑھوںمیں عرصے سے تکلیف تھی ۔ میں نے آپ کا واحدی منجن استعمال کیا ۔ اب مکمل افاقہ ہے ۔ حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کی ناراضگی فوراً دور ہوگئی ۔ منادی کے اگلے شمارے میں انہوں نے واحدی منجن کے اشتہار میں علامہ اقبال کا خط شائع کیا۔ اس عنوان کے ساتھ ’’واحدی منجن کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی رائے‘‘۔