یو پی میں بی جے پی ہار جائے تو وزیراعظم مودی کا سنبھلنا مشکل

عرفان جابری
وزیراعظم نریندر مودی کو نوٹ بندی کے طوفان سے انتخابی فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہوسکتی ہے کیوں کہ اُن کے حریف منقسم ہونے کے علاوہ قومی سطح پر کچھ خاص اعتبار کے حامل نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ عام لوگوں کی نوٹ بندی کی زحمت کو قبول کرلینے میں غیرمعمولی صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ عوام نے وزیراعظم پر اپنا بھروسہ عمومی تناظر میں ابھی تک برقرار رکھا ہے جو مہاراشٹرا، گجرات، راجستھان اور چنڈی گڑھ کے بلدی چناؤ میں بی جے پی کی سلسلہ وار کامیابیوں سے معلوم ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ترنمول کانگریس جو شاید مودی کی سب سے طاقتور نقاد ہے، اُس نے بھی اپنے سیاسی گڑھ میں کئی انتخابات جیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح مختلف پارٹیوں کے زیراثر علاقوں کی اچھی طرح نشان دہی ہوچکی ہے۔ مگر مودی کا اثر بلاشبہ زیادہ بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ تاہم مودی کی حقیقی آزمائش اِس سال (2017ء) اترپردیش (یو پی) کے اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ پنجاب، اترکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی چناؤ منعقد کئے جانے کا امکان ہے۔ لیکن کسی بھی ریاست کے چناؤ سے کہیں زیادہ اترپردیش کا نتیجہ ظاہر کردے گا کہ بی جے پی کا ’وِکاس پُروش‘ (ترقی پسند شخص) اپنی میعاد کے نصف سفر تک پہنچتے پہنچتے سیاسی طور پر کیا حیثیت رکھتا ہے۔
یہ انتخابی آزمائش اس لئے بھی زیادہ اہم ہے کیوں کہ نوٹ بندی اس نوعیت کی معاشی اصلاحات کا حصہ ہے جو وزیراعظم مودی متعارف کرانا چاہتے ہیں ۔ چونکہ اُن کا ’’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘‘ والا ترقیاتی فارمولا حقیقی معنوں میں کامیاب نہیں ہوپایا ہے، کم از کم روزگار پیدا کرنے کے معاملے میں یہی دیکھنے میں آیا ہے، اس لئے وہ متوازی معیشت پر قابو پانے اور کیش لیس سسٹم متعارف کروانے کی اپنی قابلیت پر انحصار کررہے ہیں تاکہ انھیں آئندہ عام انتخابات کی زیادہ کٹھن آزمائش سے گزرنے میں کچھ مدد مل سکے۔
اس تناظر میں اترپردیش نے ہمیشہ ہی عوامی موڈ کا اشارہ دینے میں بڑا حصہ ادا کیا ہے جس کے لئے صرف یہی وجہ کافی ہے کہ یہ ہندوستان کی سیاسی اعتبار سے کلیدی ریاست ہے۔ بہار بھی ہندی زبان والی ’’گاؤ پٹی‘‘ ہے اور وہاں کے اسمبلی انتخابات ہار جانے کے بعد وزیراعظم مودی اترپردیش میں بھی ناکامی کے ہرگز متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔بھلے ہی وہ 2014ء کے اپنے شاندار مظاہرے کا اعادہ نہیں کرسکتے جب بی جے پی نے اس ریاست کی 80 پارلیمانی نشستوں کے منجملہ 71 جیت لئے، اور اس کے حلیف اپنا دل نے دو نشستیں جیتے، اس مرتبہ دونوں حلیفوں کو اپنی دو بڑی حریف پارٹیوں برسراقتدار سماجوادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) سے بدستور کافی آگے رہنا ہوگا۔کچھ عرصہ قبل ایس پی میں چیف منسٹر اکھلیش یادو اور اُن کے چچا شیوپال سنگھ یادو کے درمیان خاندانی جھگڑے سے ایسا ظاہر ہورہا تھا کہ بی جے پی کو برتری مل رہی ہے۔ لیکن یادو خاندان میں آپسی رسہ کشی فی الحال تھم گئی ہے، جس کی وجہہ ظاہر طور پر ایس پی سربراہ ملائم سنگھ یادو (چیف منسٹر کے والد اور شیوپال کے بڑے بھائی) ہیں، جنھوں نے تاڑ لیا کہ پارٹی کے لئے داخلی تنازعہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف ہے۔

اکھلیش آج کل کے زیادہ تر نوجوان سیاسی قائدین کی طرح موافق ترقی ہونے کے ناطے ترقی پر مبنی مختلف اسکیمات سرگرمی سے متعارف کرا رہے ہیں تاکہ اس کھوئے وقت کی تلافی ہوجائے جب وہ خاندان کے بڑوں کے ساتھ بعض اختلافات کے سبب ترقیاتی اقدامات پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے پائے تھے۔شاید اسی لئے مودی اس حقیقت سے خائف ہوں گے ایس پی اب کوئی آسان حریف نہیں جیسا کہ انھوں نے سرجیکل حملوں کے وقت قیاس کیا تھا جب جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار دہشت گردوں کے اڈوں پر آرمی کے محدود حملوں پر انھیں پذیرائی مل رہی تھی۔ علاوہ ازیں، اگر ایس پی اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد ہوجاتا ہے تو بی جے پی کے لئے چیلنج زیادہ طاقتور بن جائے گا کیوں کہ مسلم۔ یادو ترکیب پھر سے وجود میں آئے گی جس کے لئے بہار کبھی بہت معروف رہا ہے۔بی جے پی کے لئے مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس چھوٹی سیاسی طاقت کے حامل اپنا دل کے علاوہ کوئی اتحاد نہیں ہے۔ اور نا ہی اس کے پاس کوئی وزارت اعلیٰ امیدوار ہے۔ بی جے پی کا واحد اثاثہ مودی ہے، لیکن وہ بھی اب ویسے سیاسی لیڈر نہیں جس طرح 2014ء میں تھے۔اترپردیش میں بی جے پی کے وجود کا احساس دلانے کے لئے وزیراعظم مودی کی نوٹ بندی کی جوکھم بھری چال کو کامیاب ہونا ہوگا۔ لیکن اگر عوام کی اپنی رقم کے لئے قطاریں باندھنے کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو مودی کو بہت بڑا چیلنج درپیش رہے گا۔

بی جے پی کی پریشانیوں میں اضافہ اس اعتبار سے بھی ہے کہ اکھلیش یادو اپنی ترقی پسند شبیہہ کی وجہہ سے نوجوانوں کے لئے زیادہ پُرکشش لیڈر ہیں۔ اگر یو پی چناؤ میں اس مرتبہ معاملہ مودی بمقابلہ اکھلیش لڑائی کا ہوجاتا ہے تو بی جے پی کی ناکامی پر مودی کو سیاسی طور پر کاری ضرب لگے گی۔
یہ سیاسی ضرب ایسی ہوگی کہ وزیراعظم کا سنبھل پانا مشکل ہوجائے گا۔ مودی حکومت کو لوک سبھا میں تنہا بی جے پی کی عددی طاقت پر سادہ اکثریت حاصل ہے لیکن راجیہ سبھا میں حکومت ایسا عددی موقف نہیں رکھتی کہ اپوزیشن کی پرواہ کئے بغیر بڑے بڑے بل منظور کروا سکے۔ جی ایس ٹی بل کی منظوری کے لئے مودی حکومت کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑا، یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ راجیہ سبھا میں بہتر عددی موقف کا حصول حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس مقصد کے لئے یو پی جیسی بڑی سیاسی طاقت والی ریاست میں بی جے پی کے لئے کامیابی اشد ضروری ہے۔
یو پی کے ساتھ ساتھ بہ یک وقت جن ریاستوں میں اسمبلی چناؤ منعقد کئے جانے کا امکان ہے وہاں بی جے پی کی کامیابی کے کوئی خاص امکانات نہیں، لیکن بہرصورت وہاں کے انتخابی نتائج میں بی جے پی کا زیادہ کچھ داؤ پر نہیں لگا ہے۔ اس لئے امیت شاہ زیرقیادت بی جے پی وزیراعظم مودی کی سرپرستی میں اپنی ساری سیاسی طاقت یو پی میں جھونک دینے پَر تول رہی ہے۔
نوٹ بندی کے خلاف کانگریس جنوری کے پہلے ہفتے سے ملک گیر احتجاج شروع کررہی ہے اور صدر پارٹی سونیا گاندھی کی اِن دنوں ناسازیٔ طبعیت کے سبب نائب صدر راہول گاندھی نے عملاً پارٹی کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ وہ اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں نوٹ بندی کے معاشی بھونچال والے اقدام کے حقیقی مقاصد کے حصول میں مودی حکومت کی تادم تحریر ناکامیوں کے پیش نظر دیر سے ہی سہی ، آپس میں متحد ہورہی ہیں جو یو پی میں بی جے پی کو انتخابی شکست دینے میں اہم تبدیلی ثابت ہوسکتی ہے۔
کانگریس نے یو پی اسمبلی چناؤ کی بہت پہلے سے تیاری کے طور پر راج ببر کو پردیش کانگریس کا صدر اور یو پی سے خاص رشتہ رکھنے والی شیلا ڈکشٹ کو آگے کرتے ہوئے اپنے سیاسی حوصلے کو آشکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ایک اہم مثبت تبدیلی برسراقتدار ایس پی اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد ہوسکتی ہے لیکن تاحال ملائم سنگھ یادو نے اس معاملے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں سب سے بڑی عددی طاقت کی حامل یو پی اسمبلی کیلئے پارٹی کے امیدواروں کی ابتدائی فہرست بھی جاری کرتے ہوئے عملاً یہ اشارہ دے دیا کہ ایس پی تنہا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی اعلامیہ کی اجرائی سے قبل تک سیاسی سطح پر کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ بہرحال یہ طے ہے کہ بی جے پی کو یو پی میں شکست دینے کی طاقت ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس میں ہے اور یہ تینوں پارٹیوں کی انتخابی حکمت عملی دیکھنے کا ہندوستانی شہریوں کو بے چینی سے انتظار رہے گا۔

مایاوتی زیرقیادت بی ایس پی نے نوٹ بندی کے خلاف کانگریس کے گزشتہ دنوں کل جماعتی اجلاس میں شرکت نہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت کے اقدام کے خلاف سب سے پہلے آواز بی ایس پی نے اٹھائی تھی، اس لئے مرکز کے خلاف تحریک میں وہ قیادت کی اہل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی ایس پی نے یہ اشارہ بھی دیا کہ یو پی چناؤ میں وہ تنہا مقابلہ کرے گی۔ اگر ایس پی اور بی ایس پی واقعتا تنہا مقابلہ کرتے ہیں تو کانگریس کے لئے کوئی بڑی انتخابی حلیف پارٹی باقی نہیں رہ جائے گی۔ بی جے پی یقینا کچھ اسی نوعیت کی صورت حال چاہے گی تاکہ اسے انتخابی فائدہ حاصل ہوجائے۔
مودی حکومت کی نصف میعاد بی جے پی کے دیرینہ انتخابی موضوعات پر زیادہ زور دیئے بغیر گزر گئی۔ اگرچہ دادری سانحہ، گھرواپسی، یکساں سیول کوڈ جیسے موضوعات کو سنگھ پریوار کی محاذی تنظیموں اور بعض بی جے پی قائدین نے بڑھاوا دینے کی کوشش کی لیکن وزیراعظم مودی نے اکثر و بیشتر خاموشی اختیار کرتے ہوئے مختلف حکمت عملی اپنائی۔ اب نوٹ بندی کے بڑے اقدام کے ذریعے وہ اپوزیشن زیراقتدار ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کی امید باندھے ہوئے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ دہلی میں اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی اور بہار میں نتیش کمار۔ لالو پرساد اتحاد کے مقابل شکست فاش کے بعد صرف یو پی چناؤ ہی اُن کی سیاسی ساکھ بچا سکتے ہیں۔