ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ

ڈاکٹر عبدالخلیل کشش
ناول ادب کی ایک انتہائی اہم صنف ہے ۔ جو ہماری زندگی کی مختلف گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے ۔ ناول انگریزی لفظ ہے جو انگریزی ادب کے ساتھ ہمارے یہاں آیا ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ادب پر چھاگیا ۔ ناول میں پرانے قصوں ، افسانوں اور داستانوں کے برعکس انسانی زندگی کا قصہ ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے موجودہ زندگی کا رزمیہ بھی کہا جاتا ہے ۔ انگریزی میں تو ناول کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوچکا تھا مگر اردو میں اس کا وجود انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہی ممکن ہوسکا ۔ جدید تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا ناول ’’خط تقدیر‘‘ مانا جاتا ہے ۔ اسے ڈاکٹر محمود الہی نے دریافت کیا ہے ۔ ورنہ مارچ 1965 سے قبل لوگ اس سے قریب قریب ناواقف تھے ۔ ’’خط تقدیر‘‘ سے پہلے مولوی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کو اردو کا پہلا ناول قرار دیا جاتا تھا ۔ جسے نذیر احمد نے 1869 میں تصنیف کیا تھا ۔ آج ناول نگاری کا فن اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے اور اردو میں کئی ایسے ناول عالم وجود میں آچکے ہیں جنھیں دنیا کے بہترین ناولوں کی صف میں فخر کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے ۔ اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد ، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آبیاری کی ہے ۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

خاتون ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ناول کی تخلیق شروع کی اور تب سے آج تک یہ عمل مسلسل جاری ہے ۔ کئی خاتون ناول نگار آج بین الاقوامی شہرت کی مالک ہیں انھوں نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے اسے وسعتیں بخشی ہیں ۔ ابتدائی خاتون ناول نگاروں کے یہاں فنی دسترس کی کمی کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ مگر ان کی مقصدیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے بنیادی مسائل کو جگہ دی ہے اور ناول کے ذریعہ عورتوں کی تعلیم و تربیت اور سماجی و اخلاقی اور معاشرتی خامویں کو دور کرنے کی بھی پوری سعی کی ہے۔
ان کے خیال میں عورتوں کا جاہل ہونا ہی تمام خامیوں اور برائیوں کی جڑ ہے ۔ عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو ہی کامیاب زندگی گذار سکے گی ۔ اس کے علاوہ انھوں نے سماج کی کہنہ اور فرسودہ رسم و روایات کی طرف بھی لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے کہ اکثر اس کا انجام پریشان کن اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ اس ضمن میں محمدی بیگم کے ناول ’’آج کل ، سگھڑ بیٹی اور شریف بیٹی‘‘ اور طیبہ بیگم کا ناول انوری بیگم قابل ذکر ہے ۔ طیبہ بیگم نے اپنے ناول انوری بیگم میں عورتوں کے اندر خانگی ذمہ داریوں کے احساس کو خصوصیت کے ساتھ جگانے کی کوشش کی ہے ۔ ’’نذر سجاد‘‘ بھی اس دور کی ممتاز ناول نگار ہے ۔ انھوں نے اپنے ایک ناول ’’آہ مظلوماں‘‘ میں بے میل شادی کے خطرناک نتائج کو پیش کیا ہے ۔ نذر سجاد نے اپنے دوسرے ناول’’اختر النساء‘‘ میں عورتوں کی تعلیم و تربیت پر کافی زور دیا ہے ۔ ان کے خیال کے مطابق اگر لڑکی پڑھی لکھی ہوگی تو اپنی عقل اور اپنے شعور سے زندگی کو جنت کا نمونہ بناسکتی ہے ۔ ان ابتدائی ناول نگاروں کے یہاں کہیں کہیں نئے زمانے اور نئے تقاضوں کی پکار بھی سنائی دیتی ہے ۔ لیکن صحیح معنوں میں حقیقت پسندی اور فنکارانہ روش کا آغاز خاتون ناول نگاروں کے دوسرے دور سے ہوتا ہے ۔ جس کا سہرا حجاب امتیاز علی ، صالحہ عابد حسن ، بیگم احمد علی ، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے سر جاتا ہے ۔ اور اردو ناول کا وقار بلند کرنے میں عطیہ پروین ، عفت موہانی ، مسرور جہاں ، دیبا خانم ، واجدہ تبسم ، جیلانی بانو ، حسنہ جیلانی ، صفیہ سلطانہ ، شکیلہ اختر ، رفیعہ منظور الامین ، جمیلہ ہاشمی ،آمنہ ابوالحسن ، ضغری مہدی ، بشری رحمن ، سلمی کنول ، ناہید سلطانہ اختر ، رضیہ بٹ ، رشید جہاں ، ہاجرہ مسرور ، ذکیہ شہید ، رضیہ سجاد ظہیر نے اہم کردار ادا کیا ۔

ان خاتون ناول نگاروں کے یہاں ماحول کے مشاہدے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کے عناصر بھی پائے جاتے ہیں ۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ان کے یہاں صرف جذبات نگاری نہیں ہے بلکہ فکر کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے ۔ اپنے موضوعات کے ساتھ انھوں نے پورا انصاف کیا ہے ۔ کیونکہ ان موضوعات پر ان کی پوری گرفت تھی ، صالحہ عابد حسین کے ناول عذرا ، آتش خاموش اور قطرے سے گہر ہونے تک ۔ حجاب امتیاز علی کے ناول ظالم محبت ، اندھیرا خواب ، اس کی بہت اچھی مثالیں ہیں ۔ ان ناولوں میں انسانی حرکات و سکنات کی نفسیاتی تاویل بہتر طور پر پیش کی گئی ہے ۔ اور یہی فنکارانہ چابکدستی عصمت چغتائی کے یہاں بہت تیز اور گہرا رنگ لئے ہوئے ہے ۔ جس کی مثال دوسری خاتون ناول نگاروں کے یہاں نہیں ملتی ۔ عصمت چغتائی کے کرداروں میں جو نفسیاتی اور تجرباتی جھلک ملتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ماحول کے اثرات ، مرد کی زندگی پر کیسے پڑتے اسے انھوں نے اپنے شہرہ آفاق ناول ٹیڑھی کھیر میں بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کیاہے ۔ ٹیڑھی کھیر نہ صرف عصمت چغتائی کا شاہکار ہے بلکہ اگراسے اردو کاایک اہم ناول کہا جائے تو کچھ بیجا نہ ہوگا ۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی کی رائے ہے ’’ٹیڑھی کھیر میں عصمت چغتائی نے ایک متوسط گھرانے میں پروان چڑھنے والی لڑکی کی جذباتی اور نفسیاتی زندگی اور وہ ماحول جس میں وہ پرورش پاتی ہے اس قدر تکمیل کے ساتھ اور جس درجہ فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ٹیڑھی کھیر اردو ناول نگاری کی تاریخ میں سنگ میل بن گئی ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر یوسف سرمست سابق صدر شعبہ اردو آرٹس کالج جامعہ عثمانیہ حیدرآباد لکھتے ہیں کہ ’’اردو ناول نگاری میں ٹیڑھی کھیر کا جواب نہیں ملتا‘‘ ۔
عصمت کے یہاں مغربی فن کا رچاؤ وقت اور زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ تیز اور گہرا ہوتا چلا گیا ہے جس کی زبردست مثال قرۃ العین حیدر کے یہاں ملتی ہے ۔ ان کے ناول میرے بھی صنم خانے اور سفینہ غم دل پر یہ رنگ پوری طرح غالب ہے ۔ ان ناولوں کا پس منظر مغرب زدہ امیروں کی دنیا ہے ۔ قرۃ العین نے مغربی تکنیک اور مغربی انداز فکر کو بڑے سلیقے کے ساتھ مشرقی روایات کے حسن میں سموکر پیش کیا ہے ۔ انھوں نے مرد کی زندگی اور اس کی ذہنی و جذباتی کیفیات کو موضوع بنایا ہے ۔

قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھا ہے ۔ ان کے بعد عائشہ جمال کے ناول ’’گرد سفر‘‘ اور الفت مینہاس کے ناول بے چارہ اور یہ کیا میں بھی فن اور موضوع کی رنگارنگی کا عکس نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ واجدہ تبسم اردو کی دنیا میں ایک باک ناول نگار کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہیں ۔ ان کے بیشتر ناول روایات سے بغاوت کے حامل ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ حیدرآباد کے روایتی ماحول اور معاشرے میں عورت کے استحصال پر انھوں نے کھل کر نشتر زنی کی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واجدہ تبسم کی بے باکی بھی کبھی اعتدال کی حد کو پار کرجاتی ہے ۔ لیکن اکثر و بیشتر وہ حقیقت پسندی اور حق بیانی ہی سے کام لیتی ہیں۔ ان کے ناولوں میں زیادہ تر جنس کا پہلو نمایاں ہوتا ہے ۔ پھول کھلنے دو ، شہر ممنوع اور روزی کا سوال وغیرہ ان کے بہترین ناول ہیں ۔
عطیہ پروین اور بشری رحمن بھی اس دور کی مقبول ناول نگار ہیں ۔ انھوں نے اردو کو درجنوں ناول دیئے ہیں ۔ بشری رحمن نے موجودہ سماج کے بیشتر مسائل پر بڑی خوبی اور چابکدستی سے قلم اٹھایا ہے ۔ان کے ناولوں میں موضوع اور فن دونوں کا تنوع ملتا ہے ۔ عطیہ پروین نے یوں تو متعدد ناول تخلیق کئے ہیں جو مقبول عام ہوچکے ہیں مگر ان کے ناول ’’جس کوسمجھے تھے مسیحا اور یہ میرا ظرف دیکھئے‘‘ خاص طور سے اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کے علاوہ موجودہ دور کی خاتون ناول نگاروں میں اور بہت سے نام لئے جاسکتے ہیں جو اردو کے افق پر ستاروں کی طرح اپنی آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں ۔ غرض کے خاتون ناول نگاروں اور ان کے ناولوں کا ایک کارواں نظر آتا ہے جو اپنی منزل کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ مثلاً مسرور جہاں کے ناول ’اجالے‘ ’رنگ ہزار‘ ’درد کا ساحل‘ ’ایک مٹھی بوجھ‘ ’پیکر‘ ’خزاں سے دور‘ ’پیار کا رشتہ‘ ’ راہوں میں‘ اور ’اپنا خون‘ وغیرہ ۔ عفت موہانی کے ناول ’’بھنور ، درد کا درماں ، آپ ہیں پھول ، پندار، داغ دل ، ہم سفر اور پہچان‘‘ وغیرہ ۔ میناناز کے ناول ’’بدنام ، انجانی منزل ، پکار ، پاگل نینا ، آشنا ، پہاڑی چاند ، بہار آنے تک اور نیند آنکھوں میں ، سپنے‘‘ وغیرہ ۔
دیبا خانم کے ناول ’’پتھر کے صنم ، پھول کی زنجیر ، پتھر کا گلاب ، راز دل، پیاسے کو شبنم ، دھوپ اور چاندنی اور خوشبو تیرے نام کی‘‘ وغیرہ ۔ رضیہ بٹ کے ناول ’’روپ ، سنگریزے اور گل بابو‘‘ وغیرہ زلیحا حسن کے ناول ’’پتھر کی لکیر ، ایک ہی ڈگر ، اپنے اور پرانے ، تاریکیوں کے بعد اور آسمان کے تلے‘‘ وغیرہ ۔ شکیلہ اختر کا ناول ’’تنکے کا سہارا‘‘ ۔ جمیلہ ہاشمی کا ناول داغ فراق ۔ امنہ ابوالحسن کا ناول واپسی اور جیلانی بانو کا ناول نغمہ کا سفر اور صغری مہدی کے نام دھند پروائی ، بام جواہ وغیرہ مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔

ہاجرہ مسرور کا ناول آنگن اور خدیجہ مستور کا ناول گھروندے ، تو غیر قانونی نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان تمام ناولوں میں عہد حاضر کی منتشر اور مضطرب زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار زندگی کا خواب بھی پنہاں ہے ۔ ان میں حسن اخلاق اور حسن عمل پر بھی زور دیا گیا ہے اور بدلتے ہوئے زمانے کے دوش بدوش چلنے کا مشورہ بھی دیا ہے ۔ ناول نگاروں نے موضوعات کی وسعت اور رنگارنگی کے ساتھ ساتھ اردو ناول کو دلچسپی اور دل نشینی سے بھی ہمکنار کیا ہے ۔ بقول وقار عظیم جہاں تک کہانی کہنے اور اسے کہانی کی طرح کہنے کا تعلق ہے تو عورتوں کے قصے اور ناول اپنی مثال آپ ہیں اور یہ مثال قدیم و جدید کے فرق کے بغیر عورتوں کے سب ناولوں میں موجود ہے ۔