میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلے مہینے حمایت اللہ اور پروفیسر اکبر علی بیگ سے حیدرآباد میں ملاقات ہوئی تو بولے ’’فروری میں ہم مغنی تبسم کے اعزازمیں ایک تقریب منعقد کر رہے ہیں ، اس میں آپ کو آنا ہوگا‘‘۔ میں نے کہا ’’اگر آپ مغنی تبسم کا جشن منارہے ہوں تو میں اپنے ہی خرچ پر آجاؤں گا لیکن اگر آپ ’’ جلسۂ اعترافی خدمات‘’ قسم کی کوئی تقریب آراستہ کرنے والے ہوں تو میں نہ صرف آنے جانے کا کرایہ لوں گا بلکہ میرے قیام و طعام کا بندوبست بھی آپ کے ذمہ ہوگا‘‘
حمایت اللہ بولے’’یہ بھی عجیب شرط ہے۔ جشن اور جلسۂ اعتراف خدمات میں فرق ہی کیا ہے‘‘؟۔
میں نے کہا ’’جشن کا معاملہ تو سیدھا سادا ہے لیکن اعترافِ خدمات میں دو گنی محنت لگتی ہے ۔ میں تو کام کے حساب سے دام لیتا ہوں۔ پہلے تو ممدوح کی خدمات تلاش کرو اور اگر یہ مل جائیں تو ان کا اعتراف بھی کرو۔ بسا اوقات تو ممدوح کی خدمات بھی مل جاتی ہیں کیونکہ جو آدمی پہاڑ جیسے ستر پچھتر برس اس دنیا میں گزارے گا وہ کچھ نہ کچھ تو کرے گا ہی ۔ چاہے کتنا ہی کاہل اور سست الوجود کیوں نہ ہو۔ چلئے خدمات مل گئیں لیکن جب آپ ان کا اعتراف کرنے لگتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ خدمات کا اعتراف نہ کر رہے ہوں۔ اس لئے میں’’اعتراف خدمات‘‘ کے جلسوں میں شرکت نہیں کرتا ۔ میں نے زندگی میں صرف ایک ہی بار ایک جلسہ اعتراف خدمات میں شرکت کی تھی اور اتفاق سے یہ جلسہ میری ہی خدمات کے سلسلہ میں منعقد ہوا تھا اور مزید اتفاق یہ کہ اس کے محرّک بھی حمایت اللہ ہی تھے ۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ لوگوں کو میری خدمات کو تلاش کرنے میں کتنی دشواری پیش آئی تھی کیونکہ اس جلسہ میں بعض ایسی خدمات بھی مجھ سے منسوب کی گئیں جن کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ یہ کام تحقیقی نہیں بلکہ تخلیقی نوعیت کا ہوتا ہے‘‘۔
خیر یہ تو ایک تمہید معترضہ ہے۔ جہاں تک مغنی تبسم کا تعلق ہے مجھے آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مغنی تبسم میرے ہم عصر ہیں اور میں ہم عصری کے معاملہ میں کشادہ دلی کا قائل ہوں۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ میرا اور اردو کے منفرد شاعر ساقی فاروقی دونوں کا سن پیدائش 1936 ء ہے۔ لندن میں ایک بار ہم دونوں یونہی اپنے معاصرین کی فہرست مرتب کر رہے تھے تو ساقی فاروقی نے کہا ’’مانا کہ علامہ اقبال 1936 ء میں ہم دونوں کے پیدا ہوجانے کے دو برس بعد 1938 ء میں فوت ہوگئے تھے لیکن دیکھا جائے تو وہ بھی دو برسوں کیلئے ہی سہی ہمارے ہم عصر قرار پاتے ہیں‘‘۔ ہمیشہ کی طرح ساقی کی بات معقول تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ ساقی فاروقی اپنے آپ کو نہ صرف علامہ اقبال کا ہم عصر سمجھتے ہیں بلکہ خود کو علامہ اقبال کا ’’ہم سر‘‘ بھی مان لیتے ہیں۔ یہ ان کی بڑائی نہیں تو اور کیا ہے جبکہ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں اپنے ہم عصروں کے معاملہ میں’’ہم عصری‘‘ کا دعویٰ تو ضرور کرتا ہوں لیکن ان کی’’ہمسری‘‘ کرنے کی جرأت نہیں کرپاتا۔ خوب یاد آیا میرے دوست شمیم حنفی بتاتے ہیںکہ اُن کے پاس ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کے بارے میں ایک ریسرچ اسکالر کا تحقیقی مقالہ جانچ کیلئے آیا تھا جس میں ریسرچ اسکالر مذکور نے ڈاکٹر زور کے معاصرین کی ایک فہرست بھی مرتب کی تھی جو علامہ شبلی سے شروع ہوکر ہمارے دوست بلراج کومل پر ختم ہوگئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ علامہ شبلی کی وفات کے وقت زور صاحب بیس پچیس برس کے ہوں گے اور خود زور صاحب کی وفات کے وقت بلراج کومل بمشکل پچیس برس کے ہوں گے ۔ گویا ہم عصری بھی الاسٹک بیلٹ Elastic belt کی طرح ہوتی ہے کہ جتنا چاہو حسب استطاعت اور حسب ضرورت کھینچ لو۔
ویسے تو مغنی تبسم علم و دانش ، فکر و آگہی اور شعر و حکمت کے معاملہ میں مجھ سے کئی برس بڑے ہیں لیکن عمر طبعی کے معاملہ میں چھ برس بڑے ہیں۔ انہیں چھیالیس برس پہلے1953 ء میں دبیر پورہ ریلوے اسٹیشن پر دیکھا تھا جہاںسے ہم دونوں ٹرین پکڑ کر یونیورسٹی جایا کرتے تھے ۔ میں تو خیر بی اے کے پہلے سال کا طالب علم تھااور یہ غالباً ایم اے کرنے کے بعد کوئی ’’فالتو تعلیم‘‘ حاصل کر رہے تھے ۔ مجھے ٹھیک سے پتہ نہیں کہ ان دنوں وہ علم کی جستجو میں یونیورسٹی آتے تھے یاکوئی اور ہی جستجو انہیں وہاں کھینچ لاتی تھی ۔ مجھے تو خیر بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ ان کی ہمہ اقسام کی ’’جستجوئیں‘‘ آپس میں کچھ اس طرح گتھی ہوئی اور جڑی ہوتی ہیں کہ کسی ایک جستجو کو دوسری جستجو پر فوقیت دینا دشوار معلوم ہوتاہے، اب میں لگ بھگ نصف صدی پہلے کے حیدرآباد کو یاد کرنے بیٹھا ہوں تو کتنے ہی چہرے ذہن کے پردے پر متحرک نظر آنے لگے ہیں ۔ مخدوم محی الدین ، سلیمان اریب ، عابد علی خان ، محبوب حسین جگر، اختر حسن ، شاہد صدیقی ، عزیز قیسی ، شاذ تمکنت ، وحید اختر ، عالم خوندمیری ، سعید بن محمد ، سردار سلیم ، سرینواس لاہوٹی ، عوض سعید ، راجہ دوبے ، ابن احمد تاب وغیرہ ۔ یہ وہ چند لوگ ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور اس وقت مجھے ان کی یاد اچانک اس لئے آگئی کہ میرے ذہن میں گزشتہ حیدرآباد کا جو بلیک اینڈ وہائیٹ خاکہ ہے اس میں یہی ہستیاں رنگ بھردیتی ہیں ۔ پچھلے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ان دنوں کتنے ہی راستے تھے جن پر ہم چلتے تھے تو خود راستے ہم سے زیادہ تیز چلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔ خود ہماری ذاتوں کے اندر اتنے راستے تھے کہ یہ فیصلہ کرنا دشوار تھا کہ کس راستہ پر چلیں۔ اب جبکہ یہ سارے راستے ایک ایک کر کے مسدود ہوتے نظر آنے لگے ہیں تو ان کھوئے ہوئے راستوں کی یاد شدت سے آتی ہے ۔ مغنی تبسم بھی اپنی ستر سالہ زندگی میں کئی راستوں پرچلتے رہے ہیں بلکہ خود مجھے بھی ترقی پسندی کے راستہ پر ان کے ساتھ کچھ دور تک چلنے کا شرف حاصل رہا ہے ۔ وہ تو خیر کمیونسٹ پارٹی کے باضابطہ رکن بھی تھے اور ’’سوشیل کمار‘‘ کے نام سے گمنام رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ پھر اچانک جدیدیت کے راستہ پر چل پڑے ۔ سنتوں اور ولیوں کی صحبتوں سے بھی فیضیاب ہوئے ۔ سنا ہے اب گھوم پھر کر پھر ترقی پسندی کے راستے پرچلنے لگے ہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ، مغنی تبسم کہتے ہیں۔
ہوسکتا ہے زندگی کے سفر میں اُن کے نظریات ، خیالات اور رجحانات بدلے ہوں لیکن ان کا چشمہ کبھی نہیں بدلا۔ انہیں جب بھی دیکھا سیاہ چشمہ کے ساتھ ہی دیکھا بلکہ مجھے تو یہ سیاہ چشمہ اُن کے بدن کا ہی ایک عضو نظر آتا ہے ۔ جو لوگ یہ سجھتے ہیںکہ مغنی تبسم نے اپنی ننگی آنکھ سے کبھی اس دنیا کے ننگے پن کونہیں دیکھا ہوگا تو وہ سراسر غلطی پر ہیں کیونکہ اس سیاہ چشمہ کی وجہ سے مغنی تبسم کو یہ سہولت حاصل رہتی ہے کہ چشمہ کے اندر سے وہ جسے دیکھنا چا ہتے ہیں اُسے بشوق اور بالاستعیاب دیکھتے رہتے ہیں لیکن انہیں دیکھنے والوں کویہ پتہ نہیں چلتا کہ وہ فی الواقعی کسے دیکھ رہے ہیں۔ ہم جیسوں کی بصارت تو ان لوگوں کو دیکھنے میں ہی ضائع ہوجاتی ہے جو ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، انہیں دیکھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ چنانچہ مغنی تبسم کے ہاں جو باریک بینی ، دروں بینی ، دور بینی ، دیدہ ریزی اور دیدہ دری وغیرہ نظر آتی ہے وہ اسی سیاہ چشمہ کی دین ہے۔ ایک بار میں نے غلطی سے ان کا چشمہ اپنی آنکھوں پر لگالیا تھا ۔ ارے صاحب کیا بتاؤں مجھ پر کیا بیتی ۔ مجھ پر جو بیتی سو بیتی اس دنیا پر جو بیتی اسے کیسے بیان کروں۔ مجھے تو یہ ساری دنیا تر مروں کی طرح ناچتی اور تھرکتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ افواہ عام ہے کہ مغنی تبسم نہایت کم گو اور کم آمیز ہیں لیکن میں اس بات کو نہیں مانتا ۔ وہ جتنا بولتے ہیں اور جس شدت سے بولتے ہیں اتنا میں نے کسی اور کو بولتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ یہ ضرور ہے کہ جو باتیں وہ بولنا چاہتے ہیں خود تو نہیں بولتے البتہ دوسر وں کی زبان سے ضرور بلواتے ہیں ۔ جب بولنے کے لئے دوسرے موجود ہوں تو ہوشیار آدمی اپنے ذاتی لفظوں کی فضول خرچی نہیں کرتا۔ چار پانچ برس پرانی بات ہوگئی ۔ مغنی تبسم کا شعری مجموعہ ’’مٹی مٹی میرا دل ‘‘ جو اس وقت نیا تھا ، شائع ہوچکا تھا ۔ اسی خوشی میں عزیز آرٹسٹ کے فارم ہاؤس پر احباب کی محفل سجی۔ پروفیسر سراج الدین ، راشد آزر ، قدیر زماں ، عبدالقدوس وغیرہ موجود تھے ۔ وہ پورے چاند کی ایک سحر انگیز رات تھی ۔ مغنی تبسم تو خیر بظاہر خاموش تھے ہی ۔ باقی احباب بھی خاموش سے تھے کیونکہ اس ماحول میں ہر ایک کے دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئی تھیں۔ البتہ جھینگروں کی آوازیں ضرور آرہی تھیں اور کبھی کبھی ہمارے قدیر زماں بیچ بیچ میں ضرور کچھ بول دیتے تھے ۔ ایسے میں میں نے جھینگروں کی آواز سے بچنے کے لئے مغنی تبسم سے خواہش کی کہ وہ اپنی کوئی غزل سنائیں۔ان کے پہلے ہی شعر پر داد کا وہ شور بلند ہوا کہ فارم ہاؤس کے سارے جھینگر ڈر کے مارے خاموش ہوگئے۔ پروفیسر سراج الدین نے شعر کی اچھوتی رومانیت اور اس کے خوبصورت تخلیقی اظہار کی تعریف کی تو قدیر زماں بولے ’’اس شعر کی ایک روحانی جہت اور Dimension بھی ہے‘‘۔ پروفیسر سراج الدین نے کہا کہ یہ تو خالصتاً رومانی شعر ہے ۔ اس میں روح کہاں سے آگئی ۔ اب جو اس شعر کو لے کر احباب میں بحث شروع ہوئی تو پتہ نہیں چل رہا تھا کہ رومان کی طرف کون ہے اور روح کی طرف کون ۔ یہاں تک کہ اس شعر کی تشریح، توضیح اور تفسیر کیلئے بچارے ارسطو ، گویٹے ، برگساں ، رومی ، حافظ اور نہ جانے کن کن کو زخمت دی جانے لگی۔ مغنی اس رات صرف ایک ہی شعر سناکر خاموش ہوگئے مگر سارے احباب لگاتار بولتے رہے۔ بعد میں یہ بحث فارم ہاؤس سے نکل کر قدیر زماں کی گا ڑی میں بیٹھ گئی تو یہاں بھی چلنے لگی بلکہ قدیر زماں کی گاڑی سے کہیں زیادہ تیز چلنے لگی ۔ گاڑی میں پٹرول ختم ہونے لگا تو قدیر زماں نے ایک پٹرول پمپ پرگاڑی روکی ۔ میں اور عزیز بحث سے بچنے کیلئے گاڑی سے اُترے تو اس وقت قدوس ، جوا پنے گلے میں ہمیشہ خضاب لگائے رہتے ہیں، اتنی زور سے بول رہے تھے اور قدیر زماں بھی اُن کی بات کاجواب کچھ اس ڈھنگ سے بہ آواز بلند دے رہے تھے کہ پٹرول پمپ کے ملازم نے مجھ سے پوچھا’’صاحب ! کس بات پر جھگڑا ہورہا ہے؟ ‘‘ اس پرعزیز نے ، جو خود بھی مغنی کی طرح ہمیشہ خاموش رہنے کے عادی ہیں، بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے کہا’’میاں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔ یہ کوئی اختلاف نہیں ہورہا ہے بلکہ اتفاق ہورہا ہے ۔ ہمارے دوست کی شاعری کی خوبیوں پر ‘‘۔
اس پر پٹرول پمپ کے ملازم نے گھبراکر کہا ’’صاحب ! اگر آپ لوگوں کا اتفاق ایسا ہوتا ہے تو آپ لوگوں کااختلاف نہ جانے کیسا ہوتا ہوگا ۔تلواریں کھنچ جاتی ہوں گی ‘‘۔
مجھے یاد ہے کہ مغنی تبسم نے اس رات صرف ایک شعر ہی سنایا تھا اور اس کے نتیجہ میں ہم سب کو گھنٹوں بولنا پڑا تھا ۔ کیا اس مثال کے بعد بھی آپ مغنی تبسم کو کم گو آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ اگر آپ انہیں سچ مچ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ آپ کی معصومیت ہے۔
ان کے قریبی احباب بخوبی جانتے ہیںکہ بعض لمحوں میں مغنی تبسم نہایت شدید جذباتی اور اضطراری ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے رفیق دیرینہ خالد قادری نے لکھا ہے کہ ایک بار قاضی سلیم حیدرآباد آئے تو رائل ہوٹل کے ایک کمرہ میں احباب کی محفل جمی ۔ مصحف اقبال توصیفی نے شعر سنایا :
جس سے لی تھیں اُسی کو لوٹادیں
یہ رہیں صبحیں ، یہ تیری شامیں
مغنی تبسم پر اس شعر نے کچھ ایسی وجدانی اور ہیجانی کیفیت طاری کردی کہ مغنی تبسم نے اچانک قا ضی سلیم کے ٹیبل پر پڑی ہوئی ریزر بلیڈ ا ٹھالی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ان کے احباب کواچانک یہ شبہ ہوگیا کہ مغنی تبسم اس ریزر بلیڈ کو ازراہ سخن فہمی ا پنی گردن پر چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ فوراً بیچ بچاؤ کر کے اُن کے ہاتھوں سے ریزر بلیڈ چھین لی گئی ۔ بعد میں مجھے اس واقعہ کا علم ہوا تو میں نے سب سے پہلے مصحف اقبال توصیفی سے کہاکہ وہ مستقبل میں ایسے مہلک اور خونخوار شعر نہ کہا کریں جن سے مغنی تبسم کی جان خطرے میں پڑجائے ۔ پھر میں نے ان احباب کو الگ سے ٹوکا جنہوں نے بلا وجہ مغنی تبسم کے ہاتھوں سے ریزر بلیڈ کو چھین لیا تھا کیونکہ میرے حساب سے ان کا ریزر بلیڈ کواٹھالینا کوئی غیر معمولی جذباتی یا اضطراری ردعمل نہیں ۔ بعض اوقات اچھا شعر سن کر میں بھی بے ساختہ ریزر بلیڈ کواٹھالیتا ہوں اور جب تک داڑھی نہیں بنالیتا تب تک اسے واپس نہیں رکھتا ۔ ہوسکتا ہے مغنی تبسم شیو کرنا چاہتے ہوں۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ شعر میں صبحوں کو واپس کرنے کا معاملہ درپیش ہے اور مغنی تبسم داڑھی بنائے بغیر اپنی کسی صبح کا آغاز تک نہیں کرتے تو اپنی صبح کو واپس کیسے کر دیںگے ۔ ذرا سوچنے والی بات ہے ۔ میں یہ تو مان سکتا ہوں کہ اس شعر کو کہنے کے بعد ممکن ہے خود مصحف اقبال توصیفی نے اپنا گلا کاٹنے کیلئے ریزر بلیڈ کو اٹھانے کی بات سوچی ہو کیونکہ مصحف اقبال جیسا حساس ، رکھ رکھاؤ والا ، شائستہ ، محتاط اور Fragile شخص زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ اپنے محبوب کو اس کی شامیں اور صبحیں لوٹاتا ہے جب کہ مغنی تبسم تو نہ جانے کتنوں کو ایسی کتنی ہی صبحیں اور شامیں لوٹا چکے ہیں بلکہ یہ تو ان کا روز مرہ کا معمول ہے ۔ میں یہ کہوں تو بیجا نہ ہوگا کہ مصحف اقبال تو اپنی فطری شرافت کے پیش نظر صرف صبحوں اور شاموں کو لٹانے پر ہی اکتفا کر گئے ۔ مغنی تبسم تو راتیں تک لوٹادینے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ (دوسری قسط اگلے اتوار کو) (1999 ء)