علی احمد جلیلی کی غزل گوئی

صابر علی سیوانی
حسرت موہانی کا ایک مشہور شعر ہے
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
یوں تو بہت سے شعراء شعر تخلیق کرتے ہیں لیکن ان میں چند ہی ایسے ہوتے ہیں جن کے اشعار سنتے ہی دل میں اتر جائیں ۔ خانوادۂ جلیلی کے نامور سپوت اور مشہور شاعر علی احمد جلیلی نے ایسے اشعار کہے ہیں جو سنتے ہی دل میں اتر جاتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو کہ ان کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے رہا ہے جسے وراثت میں شاعری ملی ۔ علی احمد جلیلی کے والد بزرگوار فصاحت جنگ جلیل مانکپوری جلیل القدر استاد سخن تھے ، جن کے متعدد اشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آصف سابع میر عثمان علی خان کے استاد سخن فصاحت جنگ جلیلؔ مانکپوری کے ان مشہور اشعار سے بھلا کون شاعر و ادیب واقف نہ ہوگا جو ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
جب میں چلوں تو سایہ بھی اپنا نہ ساتھ دے
جب تم چلو زمین چلے آسماں چلے
نگاہ برق نہیں ، چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے ، مگر دیکھنے کی تاب نہیں
پینے سے کرچکا تھا توبہ مگر جلیلؔؔ
بادل کا رنگ دیکھ کے نیت بدل گئی
آتے آتے آئے گا ان کا خیال
جاتے جاتے ، بے خیالی جائے گی
علاوہ ازیں جلیل مانکپوری کے ایسے کئی اشعار ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں ،جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ، کیونکہ یہاں علی احمد جلیلی کی شاعری کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے ۔ علی احمد جلیلی کی شاعری کا رنگ ان کے والد کی شاعری سے بالکل جدا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں کے ہاں روایتی فکرو خیال کی دنیا یکساں نظر آتی ہے تاہم دونوں کا شعری اسلوب جداگانہ ہے ۔ علی احمد جلیلی کی شاعری درددل کی مجسم تصویر معلوم ہوتی ہے ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی شاعری میں درد دل کے علاوہ اور بھی بہت کچھ موجود ہے جس کا تعلق زندگی کے نشیب و فراز اور کائنات کی ناقابل انکار حقیقتوں سے ہے ۔ ان کی شاعری میں تجربات زندگی کی تہہ در تہہ پرتیں کھلتی جاتی ہیں ، جن سے عام انسان کی زندگی عبارت ہے ۔ اپنوں کی قہر سامانیاں ، غیروں کی کج ادائیاں اور معشوق کی دل آزاریاں ، یہ تمام عناصر بیک وقت ان کی شاعری میں ایک خاص تاثراتی انداز میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ غموں کی کارفرمائیاں اور تلخیوں کی زہرناکیاں کچھ اس طرح ان کی شاعری میں سماچکی ہیں ، جن کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں ، لیکن ان کی تخلیقات میں انہی تلخیوں اور زہرناکیوں کی خوبصورت آمیزش نے ان کے معاصر شعراء کی صف میں نمایاں طور پر انھیں جگہ دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعر کو زندگی میں جس کرب و غم اور تجربات و حوادث سے گزرنا پڑتا ہے ، اس کی مکمل تصویر اس کی شاعری ہوتی ہے ، لیکن اس غم اور تجربے کو بیان کرنے کا انداز اسے انفراد و امتیاز عطا کرتا ہے اور کچھ یہی خوبی ہمیں علی احمد جلیلی کی اس غم انگیز شاعری میں ملتی ہے :۔
نشیمن کے ہی لٹ جانے کا غم ہوتا تو غم کیا تھا
یہاں تو بیچنے والوں نے گلشن بیچ ڈالے ہیں
ہزاروں دیئے غم زمانے نے لیکن
ترے غم کی شائستگی تک نہ پہنچے
زہر غم ہی کام آیا تشنگی کے واسطے
کتنے آنسو پی گئے ہم اک ہنسی کے واسطے
اشکِ غم بھرتا ہوں آنکھوں کی ہنسی کے واسطے
جمع کرتا ہوں اندھیرے روشنی کے واسطے
ایسا نہیں ہے کہ صرف غم ہی غم ہے جلیلی کی شاعری میں ، بلکہ کیف انگیز شادمانیاں بھی ان کی تخلیقات میں منور نظر آتی ہیں ۔ زندگی کی حسین دنیا بھی جگمگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور عشق و محبت کی سرسبز و شاداب وادیاں تابندگی پھیلاتی ہیں ۔وقت کی ستم ظریفی بھی ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے تو لوگوں کی مفاد پرستی کی قبیح ذہنیت کی ناہمواری بھی نظروں کے سامنے کوند جاتی ہے ۔ رومانیت کی خوبصورت دنیا بھی ہمیں ان کی تخلیقات میں موجزن نظر آتی ہے تو دوسری جانب محبوب کی بے وفائی اور دل آزاری کا غم بھی شعر کی شکل میں دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہ تمام مسائل و موضوعات ایک خاص پیرائے میں جگہ پاتے ہیں ، اور جس انداز سے جگہ پاتے ہیں وہ انداز شاعر کی تخلیقی پرواز کی بلندی کی گواہی دیتا ہے ۔ یہی انفرادیت علی احمد جلیلی کو ان کے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے ۔ کیا درج ذیل اشعار انھیں ان کے معاصرین میں انفرادیت عطا کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ؟
وقت جینے کا خود انداز سکھا دیتا ہے
شاخِ گل چھین کے تلوار تھمادیتا ہے
اس میں بھی چال کوئی دست دعا کی ہوگی
کون اس دور میں جینے کی دعا دیتا ہے
یا ان کا یہ رومانی انداز جو ان کے دل کی بیقراری کی عکاسی کرتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے یہ اشعار؎
دور ہی رکھئے یہ بھیگی ہوئی زلفیں اپنی
یہ وہ بادل ہے جو پیاس اور بڑھادیتا ہے
ہم نے دیکھا ہے زمانے کا بدلنا لیکن
ان کے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے
علی احمد جلیلی نے روایتی انداز کو ضرور اپنایا لیکن عہد جدید کے شعری تقاضوں سے بھی خود کو ہم آہنگ رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں معشوق کی بے وفائی اور شراب و شباب کی تعریف و توصیف نظر آتی ہے تو دوسری جانب زندگی کے تلخ تجربات اور انسانی رشتوں کے گہرے احساسات بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ انھوں نے اپنی شاعری کو مقصدیت کے خانے میں رکھنے کی کوشش کی اور وہ اس کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ زبان و بیان پر انھیں بے پناہ قدرت تھی جس کا اثر ان کی نثری اور منظوم تحریروں میں نظر آتا ہے ، لیکن ایک بات جو اکثر و بیشتر ان کی شاعری میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ انھوں نے نامور شعراء کے کلام کو ، ان کے خیال کو اپنے مخصوص انداز میں جابجا پیش کیا ہے ، بس معمولی لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ لیکن یہ بھی ان کا کمال ہے کہ انھوں نے مانگے کے اجالے سے ضرور کام لیا ہے ، تاہم اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے ۔ مثال کے طور پر نشورؔ واحدی کا ایک بہت ہی مشہور شعر ہے کہ؎
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
علی احمد جلیلی نے کچھ اسی طرح کی بات اپنے مخصوص انداز میں کہی ہے ؎
جلیں شمعیں کہ دل اس سے تمہیں کیا
چلے آؤ اجالا ہے جہاں تک
سحاب قزلباش نے اسی مفہوم کواپنے منفرد لب ولہجے میں کچھ اس طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے ؎
بجھ رہے ہیں چراغِ دیَر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
جلیلی نے بھی ایک شعر میں یہی بات کہنے کی کوشش کی ہے اور یہ تاثر پیش کیا ہے کہ محفل کے سارے چراغ بجھ گئے ہیں ، لیکن ایک چراغ ایسا ہے جو ابھی بھی جل رہا ہے اور وہ ایسا چراغ ہے جو شاعر کے دل کے لہو سے روشن ہے ۔ جلیلی کہتے ہیں ؎
بجھ گئے سب چراغ محفل کے
ایک دل کا چراغ جلتا ہے
راقم الحروف نے مذکورہ سطور میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ علی احمد جلیلی کی شاعری میں روایت اور جدیدیت دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک نے جلیلی کو بھی متاثر کیا اور وہ بھی نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں جگہ دینے پر مجبور ہوئے ۔ چنانچہ انھوں نے خود ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے :۔
’’میں نے روایتی طور پر مشق سخن غزل سے شروع کی ، لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب دنیائے شعر و ادب پر جوشؔ و اقبالؔ چھائے ہوئے تھے اور اختر شیرانی سلمی کے حسن صبیح کی یاد میں اپنی رومانی نظمیں فضا میں بکھیر رہے تھے ۔ مغربی تعلیم کے اثر سے کیٹس ، بائرن اور ورڈس ورتھ کی نظموں کی تقلید فیشن بن رہی تھی ۔ چنانچہ ابتدائی دور میں غزلیں کم اور نظمیں زیادہ لکھیں ۔ بعد کے آنے والے دور میں غزل کا نشاۃ ثانیہ ہوا جس نے اکثر شاعروں کو پھر اسی رہگزر پر لاڈالا ۔ چنانچہ میں بھی زیادہ تر غزلیں کہنے لگا، لیکن اب غزل پہلے کی غزل نہ تھی ۔ ترقی پسندی کی تحریک اور زندگی کی نئی قدروں نے غزل کو بھی نیا روپ دے دیا تھا اور نئے موضوعات بڑی تیزی سے غزل کو نیا موڑ دے رہے تھے ۔ میں نے بھی حسن و عشق کی واردات تک اپنی غزل کو محدود نہیں رکھا ۔ یہ احساس مجھے اچھی طرح ہوچلا تھا کہ ؎
جہاں نہ عارض کی چاندنی ہے ، جہاں نہ سائے ہیں گیسوؤں کے
علیؔ کچھ ایسے ہی موڑ اب تو ، غزل کی راہوں میں آرہے ہیں
اس طرح میں نے فکر کا انداز بدلا ۔ لیکن میرے سامنے غزل کا ماضی اور روایات بھی تھیں ۔ ان کے احترام کا پاس بھی تھا ۔ میں نے بہرقیمت غزل کے مزاج کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ یہی میرا نظریہ غزل ہے ۔ اس نظریہ کی نمائندہ میری غزلیں ہیں‘‘ (اپنے بارے میں ، مجموعۂ کلام ’’نقش قدم‘‘ علی احمد جلیلی ، انجمن ترقی اردو شاخ محبوب نگر ، 1970، صفحہ 13-14)
جب علی احمد جلیلی کا شعری مجموعہ ’’نقش قدم‘‘ شائع ہوا تھا تو اس پر ماہر لسانیات مسعود حسین خان نے تین صفحات پر مشتمل نہایت عمدہ پیش لفظ لکھا تھا اور مشہور دانشور اور ادیب ڈاکٹر حسن الدین احمد نے ’’نقش قدم‘‘ کے عنوان سے اپنے زرین خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ یہ دونوں تاثراتی مضامین مختصر ضرور ہیں ، لیکن علی احمد جلیلی کی زندگی اور شاعری پر بہترین محاکمہ پیش کرتے ہیں ۔ علی احمد جلیلی کی ابتدائی روایتی شاعری اور ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ان کی شاعری میں آئے بدلاؤ کے بارے میں حسن الدین احمد نے درست لکھا ہے؎
’’ علی احمد جلیلی شاعر پیدا ہوئے اور ایک جلیل القدر استاد سخن کے گھر پیدا ہوئے ۔ اردو کی یونیورسٹی (عثمانیہ یونیورسٹی) سے ادبیات کی اعلی ڈگری حاصل کی ۔ اردو درس و تدریس کو اپنا پیشہ قرار دیا ۔ اردو غزل کے مسائل کو ان سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا تھا اور ان مسائل میں ان سے زیادہ اور کون پُرخلوص دلچسپی لے سکتا تھا ۔ انھوں نے غزل گوئی کی ابتداء قدیم روایتی انداز میں کی ، لیکن آہستہ آہستہ ان کی انفرادیت ماضی کی روایات اور اصول کے تقاضوں کے باہمی اثرات سے نکھر کر سامنے آئی ۔ ماضی کا احساس اور حال کی قدروں کا پاس ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت اور ان کے فن کا کمال ہے‘‘ (نقش قدم صفحہ 17)
علی احمد جلیلی کی شاعری میں ماضی کا احساس اور حال کی قدروں کا پاس تو ملتا ہی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ان کی شاعری میں موضوعات کا تنوع بھی پایا جاتا ہے ۔ انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنے شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے ۔ مثلاً انسان کی بے ضمیری ، لوگوں کی بے وفائی ، حالات کی ستم ظریفی ، اپنوں کی بے اعتنائی ، غیروں کی بے رخی ، محبوب کے بدلے ہوئے تیور ، مصلحت پسندی ، زندگی کی تلخی ، غموں کی تشنگی ، مال و زر کی بے بضاعتی ، وجود کا بکھراؤ ، مفاد پرستی کا کرب ،وقت کی ضرب ، موت کی ناقابل انکار حقیقت ، وفاداری کا درد انگیز صلہ ،سچائی کی سزا اور احسان کا کرب آمیز بدلہ ، یہ تمام موضوعات و مسائل ہمیں جلیلی کے درج ذیل اشعار میں بہ آسانی دیکھنے کو مل جائیں گے ، جن سے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا ادراک ہوتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے جلیلی کے یہ چند شاہکار اشعار جو زندگی کی صداقتوں سے لبریز ہیں ؎
اشک پلکوں پہ آکے زباں بن گئے
لے کے اپنا سا منہ خامشی رہ گئی
کتنے چہرے نہ جانے اُترجائیں گے
میرے ہونٹوں پہ جس دم ہنسی آگئی
موت کی بات چھوڑیئے صاحب
زندگی کس کو راس آئی ہے
یہ سیم و زر یہ مہ و سال مجھ سے سب لے لو
بس اک سکون ذرا سا تلاش کر لاؤ
پھونکوں سے بجھا ہوں نہ مٹانے سے مٹا ہوں
میں وقت ہوں تاریخ کے ماتھے پہ لکھا ہوں
اس دور کے انسان کو کس انداز سے جانچوں
ذرے کو یہ دعوی ہے کہ سورج سے بڑا ہوں
حق کا اظہار کروں میں تو یہ دنیا بڑھ کر
میرے ہاتھوں سے قلم چھین لیا کرتی ہے
علی احمد جلیلی کی شاعری میں روایتی مزاج کی بھرپور عکاسی نظر آتی ہے ۔ خیالات و احساسات کا تنوع بھی پایا جاتا ہے ، لیکن جدید شعری روایت کے مقابلے روایتی شعری مزاج غالب نظر آتا ہے ۔ زبان کی سلاست اپنی جگہ ، لیکن انداز بیان نہایت دل نشین ہے ۔ آسان لفظوں میں اپنی پُراثر بات کہہ جانا ، خوبصورت پیرائے میں شعر کی تخلیق کرنا ،استعاروں اور کنایوں سے مزین اشعار کو معنویت عطا کرنا ، ان تمام خوبیوں سے وہ متصف نظر آتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھیں زبان پر بے پناہ قدرت حاصل ہے اور جسے زبان پر دسترس ہو ، وہ دل میں اتر جانے والے اشعار ضرور کہہ سکتا ہے ۔ زبان پر عبور حاصل ہونا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اپنے فن میں کمال حاصل نہیں کرپاتا ہے ، جبھی تو جلیلی نے کہا ہے ؎
سنواریں گے وہ کیا گیسو سخن کے
علیؔ جن کو نہیں پاسِ زباں تک
مختصراً یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ علی کی شاعری میں حزن و ملال ، یاس و ناامیدی اور قنوطیت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ، لیکن زندگی کے تجربات اور حیات مستعار کی تلخ حقیقتوں کو جس خوبصورت پیرائے میں انھوں نے بیان کیا ہے اور جس سہل ممتنع زبان کا استعمال کیا ، وہ ان کے معاصرین میں بہت کم شعراء کے حصہ میں آئی ۔ ان کے ایک رومان پرور شعر پر یہ مضمون ختم کرنا چاہتا ہوں ؎
تم تو جھونکے کی طرح آکے گزر جاتے ہو
دیر تک وقت کی رفتار تھمی رہتی ہے
mdsabirali70@gmail.com