حیدرآباد کے مایۂ ناز فرزند ! (پروفیسر محمد افضل الدین اقبال)

دستگیر نواز
ہمارے آس پاس سے روز نا جانے کتنے لوگ ہمیشہ کے لئے گذر جاتے ہیں یعنی اس دنیا فانی سے دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ کسی کا جانا کبھی دکھ درد بڑھا دیتا ہے تو کبھی سوچنے، غوروفکر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کسی کا بھی جانا، کسی کیلئے بھی، کسی نہ کسی طرح کوئی خلاء ضرور چھوڑ دیتا ہے۔ آئے دن انتقال پرملال کی خبریں ہماری نظروں سے گذرتی ہیں تو دماغ پر زور دیکر ہم یہ سوچنے لگتے ہے یہ نام یہ تصویر جانی پہچانی سی لگ رہی ہے۔ اکثر ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں دھندلا ہی سہی یاد آتا ہے کہ فلاں ابن فلاں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے یا پھر ملاقات ہوئی تھی۔ بارہا ایسا بھی ہوتا ہے۔ ہم اپنی زندگی میں، کچھ اس طرح سے مصروف ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار ملنے والوں سے مہینوں، برسوں مل نہیں پاتے۔ اسی طرح کے ملاقاتی کی موت کا اچانک انکشاف ہوتا ہے وہ صاحب نہیں رہے۔ یقین مانئیے یہ انکشاف بھی کسی خبر سے کم نہیں ہوتا۔ جو انکشاف کسی خبر کی صورت ہوا وہ یہ تھا کہ پروفیسر محمد افضل الدین اقبال کا انتقال ہوئے 7 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا۔ بظاہر سات سال کا عرصہ اچھا خاصہ ہوتا ہے لیکن میرے لئے یہ خبر تھی اور اس خبر نے مجھے سوچنے ، غوروفکر کرنے پر مجبور کیا۔ اسی کا نتیجہ یہ تحریر وجود میں آئی ۔
پروفیسرمحمد افضل الدین اقبال کا نام و شخصیت کبھی کسی تعارف کے محتاج نہیں رہی۔ اب تو یہ مشعل راہ بن گئے ہیں۔ انگنت علم کے پروانوں کیلئے شمع ہے تو دوسری طرف ادبی ذوق رکھنے والوں کیلئے خزینہ ہے۔ ان کی حیات کا زیادہ تر حصہ علم و ادب کی آبیاری میں گزرا۔ وہ مولوی محمد شرف الدین صاحب کے گھر 15 اپریل 1944ء کو پیدا ہوئے تھے۔ جب کسی نے بھی نا سوچا ہوگا کہ اگلے 64 سالوں میں یہ نونہال نہ صرف اپنی تعلیم مکمل کرے گا بلکہ ہزارہا افراد کو بھی تعلیم جیسی نہ گھٹنے والی دولت سے مالامال کر جائے گا۔ دراصل یہ خصوصیات انہیں ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کے والد بذات خود ایک ذی علم، بلند کردار، نیک سیرت اور دردمند دل کے مالک تھے۔ آپ اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے حیدرآبادی عوام کے لئے فلاحی، سماجی و مذہبی کارخیر میں نمایاں خدمات انجام دیئے تھے۔ آپ جب اس دنیا سے کوچ کر گئے، تب پروفیسر اقبال کے بچپن کا دور تھا۔ درد و غم کا ایک سمندر تھا سامنے لیکن آپ کی والدہ بہت صبر و ہمت سے کام لیتے ہوئے، اپنے لخت جگر کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ بھلے ہی ایک سلسلہ تھا مصائب کا جس سے مقابلہ بھی کرتی رہیں۔ پروفیسر اقبال کی ابتدائی تعلیم اشرف المدارس چادر گھاٹ ہائی اسکول سے ہوئی۔ سیف آباد سائنس کالج سے پی یو سی کیا۔ ممتاز کالج سے بی ایس سی کیا لیکن معاشی حالات نے انہیں ملازمت کرنے پر مجبور کردیا۔ آپ نے اسی ممتاز کالج میں لیاب اسسٹنٹ کے طور پر اپنی ملازمت کے سفر کا آغاز کیا۔

دیانتداری سے یہ ذمہ داری نبھاتے رہے اور فاضل وقت میں گھر پر ادبی ذوق کو پروان چڑھاتے رہے۔ آپ کا وقت پڑھنے، لکھنے اور لکھتے ہی رہنے میںگذرتا۔ آپ کی طبعیت میں خاموشی کا بڑا دخل رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا آپ بولتے کم لکھتے زیادہ تھے۔ یوں تو آپ سائنس کے طالب علم رہے لیکن اردو ادب و تحقیق میں اپنی سخت محنت، لگن اور جستجو کے عمل سے اپنا منفرد مقام بنایا۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی تشنگی کو بھی سیراب کرنے کیلئے کمربستہ رہے۔ اس سارے تعلیمی سفر کی جدوجہد میں اساتذہ کے ساتھ علماء و مفکرین جیسے باوقار حضرات نے بڑا کردار ادا کیا۔ اسکول کے دور سے لیکر ڈاکٹریٹ تک تعلیم کے متعلق ان کی جو وارفتگی رہی اس میں کسی بھی دور میں کوئی فرق نہ آیا۔ ہمیشہ پڑھنا، پڑھانا اور علم و ادب کیلئے کچھ کرجانے کا جو جذبہ رہا وہ مثالی رہا۔ اسی جذبہ نے انہیں ایک منفرد پہچان دی۔ تعلیمی میدان میں خاص طو رپر مولانا سید محمد صدیق دمزی، پروفیسر اکبر الدین صدیقی، ڈاکٹر حسینی شاہد اور بزرگ افراد خاندان کی خاص سرپرستی حاصل رہی۔ اس سرپرستی نے پروفیسر اقبال کی زبان و ادب کو جلا بخشی۔ دوران ملازمت ہی آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا بعنوان ’’مدراس میں اردو ادب کی نشوونما‘‘ کے تحت اپنا مقالہ پروفیسر سیدہ جعفر کی سرپرستی میں پائے تکمیل کو پہنچا اور پروفیسر اقبال نے 1978ء میں اپنے خواب کی تعبیر پا لی۔

ڈاکٹر اقبال عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے 1984ء میں وابستہ ہوئے اور ترقی کے زینے چڑھتے ہوئے 1992ء میں اسوسی ایٹ پروفیسر بنے۔ دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی محنت رنگ لائی۔ وہ 2000ء میں پروفیسر بن گئے۔ 2002ء میں آپ عثمانیہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو بنے۔ 2003ء میں یو جی سی ریفریشر کورس کے کوآرڈینیٹر رہے اور 2004ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کی تدریسی خدمت سے سبکدوش ہوئے۔ اکثر ہوتا یوں ہیکہ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مطالعہ، تحقیق، تحریر اور تصنیف سے بھی لوگ اپنے آپ کو سبکدوش کرلیتے ہیں لیکن پروفیسر اقبال نے اس کے برعکس کیا۔ آپ کے ذوق نے بلندیاں چھو لی۔ آپ کے قلم نے بہت ساری عمدہ، معیاری اور تحقیقی کتابوں کو دنیا علم و ادب کیلئے پیش کرکے 15 مئی 2008ء کو اس جہاں سے کوچ کر گئے۔

چند کے نام پیش ہیں۔ مدراس اور اردو ادب کی نشوونما۔ پرنٹنگ کی کہانی۔ تذکرہ سعید (اردو؍ انگریزی) فورٹ سینٹ کالج دکنی زبان و ادب کا ایک اہم مرکز۔ جنوبی ہند کی اردو صحافت (1857 سے پیشتر) ۔ حیدرآباد میں اردو صحافت کا آغاز و ارتقاء۔ دکنی ادب کا مطالعہ وغیرہ۔ اس طرح سے پروفیسر محمد افضل الدین اقبال کی دو درجن کتابیں یوسف شرف الدین ادبی و مذہبی ٹرسٹ کے زیراہتمام شائع ہوچکی ہیں۔ بہت ساری کتابیں ابھی طباعت کی منتظر ہیں جس کی تفصیلی معلومات آپ کے فرزندان سعیدالدین فرخ اور احتشام الدین خرم سے ورڈ ماسٹر کمپیوٹر نیو ملے پلی سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔