حیدرآباد جو کل تھا سید داؤد اشرف

سید امتیاز الدین
کہتے ہیں کہ تاریخ قوموں کے حافظے کا نام ہے ۔ اب تک ہم نے جن لوگوں کا انٹرویو لیا ان میں بیشتر اصحاب خاصے معمر تھے اور انھوں نے آنکھوں دیکھی باتیں سنائیں ۔ آج سید داؤد اشرف ہمارے مہمان ہیں ۔ آپ اسٹیٹ آرکائیوز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں برسرکار رہے جہاں صدیوں کا تاریخی ریکارڈ محفوظ ہے ۔ عام طور پر کوئی آدمی اپنے دفتر کی باتیں نہیں کرتا کیونکہ ان سے کسی کودلچسپی نہیں ہوتی ۔ لیکن داؤد اشرف جب اپنے دفتر کے ریکارڈ کی معلومات اپنے مضامین اور کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچاتے ہیں تو پڑھنے والے کو از خود دلچسپی ہوتی ہے ۔ اورنگ زیب سے لے کر آصف سابع تک کے دور کے واقعات کو کھنگالنا اور ان کو اس سلیقے اور ترتیب سے پیش کرنا کہ بادشاہوں اور امرائے سلطنت کی دور اندیشی اور حکمرانی کھل کر لوگوں کے سامنے آئے اور تدبیر و تدبّر کا نقشہ سا کھینچ جائے بجائے خود ایک کمال ہے ۔ ویسے تو داؤد اشرف کی عمر اب تقریباً 78 سال ہے لیکن ان کا حافظہ اور صحتِ بیان قابل تعریف ہے ۔
آپ نے 15 کتابیں اردو میں اور دس کتابیں انگریزی میں لکھی ہیں ۔ آپ کا موضوع زیادہ تر آصف جاہی حکمرانوں کا طرز حکومت رہا ہے ۔
داؤد اشرف کے والد سید علی اشرف کا حیدرآباد کے ایک ممتازعلمی گھرانے سے تعلق تھا ۔ آپ کے دادا حکیم محبوب علی ایک حاذق حکیم تھے ۔ حیدرآباد کی اہم اور بڑی شخصیتیں بھی حکیم صاحب کے زیر علاج رہیں اور صحت یاب ہوئیں ۔ آپ کے والد کے حقیقی ماموں سید احمد عارف حیدرآباد کے مشہور اخبار صبح دکن کے ایڈیٹر تھے ۔ بعد میں داؤد اشرف کے والد بھی صبح دکن سے وابستہ ہوگئے ۔ قاضی عبدالغفار کے بعد علی اشرف صاحب انجمن مدیرانِ جرائد کے صدر مقرر ہوئے ۔

حیدرآباد کے ابتدائی زمانے کے اخبارات بالعموم ریڈیو سے خبریں لیا کرتے تھے ۔ بی بی سی ، آل انڈیا ریڈیو اور دکن ریڈیو بھی خبروں کا بڑا ذریعہ تھے ۔ نیوز ایجنسی رائٹر سے انگریزی میں خبریں آتی تھیں جو دفاتر کو بھیجی جاتی تھیں ۔ دکن نیوز مقامی خبریں دیتا تھا جس کے مالک امام بیگ رونق صاحب تھے ۔ کبھی اچانک اہم واقعہ پیش آتا تو اخبارات ضمیمہ شائع کرتے تھے چنانچہ داؤد اشرف صاحب کو یاد ہے کہ قائد ملت بہادر یار جنگ کے سانحۂ ارتحال پر ضمیمہ شائع ہوا تھا ۔ داؤد اشرف کی عمر اس وقت سات سال تھی ۔ دارالسلام میں انھوں نے بہادر یار جنگ کا جنازہ دیکھا تھا ۔ ہزاروں کا ہجوم تھا ۔
داؤد اشرف نے بتایا کہ نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کی حکمرانی کے آخری برسوں میں حیدرآباد اور سکندرآباد میں سربراہی آب کی صورت حال اطمینان بخش نہیں تھی ۔ اس وقت حیدرآباد کو حسین ساگر اور میر عالم تالاب سے پانی سربراہ کیا جاتا تھا ۔ ان دو خزانوں میں دو لاکھ بارہ ہزار نفوس کے لئے سربراہیٔ آب کی گنجائش تھی جبکہ اس وقت حیدرآباد کی آبادی پانچ لاکھ تھی ۔ پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے آصف سابع میر عثمان علی خان نے بذریعہ فرمان ضروری کارروائی کے احکامات جاری کئے ۔ یہ طے پایا کہ آب رسانی کی اسکیم عثمان ساگر (گنڈی پیٹ) سے مربوط کی جائے ۔ ماہر آب رسانی مسٹر اِروِن Mr. Irwin کو بیرون ریاست سے طلب کیا گیا ۔ ابتداء میں کچھ تاخیر ہونے پر آصف سابع نے متعلقہ چیف انجینئر کو سختی سے احکام جاری کئے ۔ گنڈی پیٹ کے پانی کو صاف ستھرا اور پینے کے قابل بنانے کے لئے کرنل کلیشا ماہر حفظان صحت کو حیدرآباد بلایا گیا ۔ آصف سابع کے دور حکومت کے پہلے دہے میں اس پراجکٹ کی تکمیل ہوئی اور یہ بات مشہور ہوگئی کہ گنڈی پیٹ کا پانی صحت اور تندرستی کے لئے مفید ہے ۔ جس نے ایک بار یہ پانی پیا یہیں کا ہورہا ۔

آصف سابع کا دور حکومت علم و ادب کے فروغ اور سرپرستی کے لئے ہمیشہ یادگار رکھا جائے گا ۔ ملک کے ممتاز سیاست داں اور ماہر تعلیم گوپال کرشن گوکھلے کے انتقال پر بمبئی میں ان کی یادگار کے طور پر گوکھلے میموریل فنڈ کی جانب سے آصف سابع سے مالی امداد کی درخواست کی گئی ۔ مالی امداد کے بجائے یہ تصفیہ کیا گیا کہ حیدرآباد میں گوکھلے اسکالرشپ جاری کیا جائے ۔ چنانچہ 1915ء سے ہر سال ہائی اسکول کے امتحان میں اول آنے والے طالب علم کو نظام کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیس روپے ماہانہ اور گوکھلے پرائز کے طور پر سو روپے کی کتابیں دی جانے لگیں ۔ یہ اس زمانے میں بہت بڑا اعزاز تھا کیونکہ اس وقت تک عثمانیہ یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی تھی ۔ بھنڈارکر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پونہ میں گیسٹ ہاوز کی تعمیر کے لئے پچیس ہزار روپے کی امداد دی گئی اور مہابھارت کی اشاعت کے لئے دس سال تک سالانہ ایک ہزار روپے کی امداد دی گئی ۔ سر سی وی رامن کی سائنس اکیڈیمی کو بھی فراخدلانہ امداد دی گئی ۔ اس کے علاوہ علی گڑھ یونیورسٹی میں میڈیکل کالج کے قیام اور علی گڑھ میں ویمنس کالج اور بیرون ہند میں کئی اداروں مثلاً اورینٹل کالج لندن اور ہالینڈ کے علمی ادارے کو آرکیالوجی کی Bibliography تیار کرنے کے لئے رقمی امداد منظور کی گئی ۔ فلسطین میں یونیورسٹی کے قیام کے لئے ایک لاکھ روپے کلدار کی امداد منظور کی گئی ۔
غارہائے اجنٹہ و ایلورہ کی بازیافت اور ان کی تزئین نو بھی آصف سابع کااہم کارنامہ ہے ۔ اس سلسلے میں بھاری معاوضے پر دو ماہرین اٹلی سے طلب کئے گئے ۔ جناب غلام یزدانی صاحب ناظم آثار قدیمہ نے بھی بڑی جاں فشانی سے کام کیا ۔ اجنٹہ کی تصاویر کی تزئین کے بعد زرکثیر کے صرفہ سے تین جلدوں میں ایک نادر کتاب کیٹلاگ کی شکل میں تیار کی گئی جس کی نظیر آج تک نہیں ملتی ۔

داؤد اشرف نے حیدرآباد جو کل تھا کے سلسلے میں ایک نہایت اہم شخصیت کا تذکرہ کیا جن کا نام تھا میر معظم حسین ۔ معظم حسین صاحب نے کافی طویل عمر پائی ۔ ابھی چند سال پہلے ان کا انتقال ہوا ۔ میر معظم حسین کے مطابق چھٹے نظام میر محبوب علی خان کو اپنی رعایا سے بے حد محبت تھی ۔ ہندو مسلمان ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ کئی غیر مسلم اصحاب بھی اپنی اولاد کا نام محبوب رکھتے تھے ۔ میر محبوب علی خان کی وسیع النظری کا ایک واقعہ معظم حسین صاحب نے سنایا تھا ۔ میر عثمان علی خان کی تعلیم کے لئے جبکہ وہ ریاست کے ولی عہد تھے بیرون ریاست سے ایک لائق شخص کو طلب کیا گیا تھا ۔ حکمران ریاست میر محبوب علی خان نے خود اس کا انٹرویو لیا اور منتخب کیا ۔ جب منتخب شدہ اتالیق رخصت ہونے لگے تو انھوں نے کہا یہ بات مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ حضور کے مطبخ پر ایک ہندو شخص بطور مہتمم کارگزار ہے ۔ یہ بات محبوب علی خان کو اتنی ناگوار گزری کہ انھوں نے اس اتالیق کا انتخاب منسوخ کردیا ۔

آصف سابع کے دور کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کیا۔ یہ ریاست حیدرآباد کی اہم اصلاحات میں سے ایک ہے ۔ جس وقت عدلیہ کو انتظامیہ سے علحدہ کیا گیا اس وقت تک نہ تو کسی دیسی ریاست اور نہ ہی برطانوی ہند میں اس طرح کے اقدامات کئے گئے تھے ۔ اس اسکیم کو شروع کرنے سے لوگوں کو بڑی راحت ملی ۔ عدالتوں میں مقدمات جلد فیصل ہونے لگے اور انتظامیہ کا بوجھ کم ہوا ۔ لوگوں پر مالی بار کم ہوا ورنہ اس سے پہلے سو روپے کے حق کے لئے دو سو کا خرچ آتا تھا اور وقت بھی بہت خرچ ہوتا تھا ۔
مئی 1934 میں نواب صاحب چھتاری صدراعظم کی سفارش پر غلام محمد صاحب وزیر فینانس مقرر ہوئے ۔ انھوں نے خسارہ بجٹ پیش کیا۔ آصف سابع نے اسے پسند نہیں کیا ۔ وہ رعایا پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے تھے ۔ انھوں نے کہا کہ اگر خسارہ ضروری ہے تو میں صرفِ خاص سے اس کی پابہ جائی کروں گا لیکن رعایا پر ٹیکس نہیں لگاؤں گا ۔
آصف سابع نے اپنے ذاتی خزانے سے چھ کروڑ کے خیراتی ٹرسٹ قائم کئے جن سے سیکڑوں لوگ مستفید ہوئے ۔ نواب آف چھتاری کی سرکاری قیام گاہ پر ڈچپلی مسجد کے واقعے کے سلسلے میں کئی افراد کے ہجوم نے حملہ کیا تھا ۔ اور املاک کو نقصان پہنچایا تھا ۔ نقصان کا تخمینہ دیڑھ لاکھ روپیہ ہوا ۔ آصف سابع نے افسوس کا اظہار کیا اور دیڑھ لاکھ روپے بطور معاوضہ پیش کیا ۔
حکومت حیدرآباد کی طرف سے ریاست کے مندروں کے لئے اراضی اور نقد امداد مقرر تھی ۔ ان میں دیول یادگار پلی ، مہٹہ بالکداس ، دیول سہکر ، دیول سیتارام باغ اور دیول جام سنگھ ، بھدراچلم ، سری بالاجی تروپتی مندر وغیرہ شامل تھے ۔ مساجد ، درگاہوں اور عاشور خانوں کو امداد دی جاتی تھی ۔ کئی چرچس ، مشن ہاسپٹل بھی شاہانہ امداد سے مستفید ہوتے تھے ۔ پارسیوں کو ان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے خصوصی رخصت مع تنخواہ دی جاتی تھی ۔ یہی حسن سلوک مسلمانوں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی تھا ۔

نظام آف حیدرآباد ڈسپلن کے سخت پابند تھے ۔ ایک مرتبہ سراکبر حیدری اور علی نواز جنگ میں لفظی تکرار ہوگئی تھی ۔ آصف سابع نے اس کی اطلاع ملنے پر دونوں کی سرزنش کی ۔ اکبر حیدری صدرالمہام فینانس تھے اور علی نواز جنگ معتمد تعمیرات کے عہدہ پر فائز تھے ۔ دونوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ صدراعظم کے روبرو اپنی آپسی رنجش دورکرلیں ۔داؤد اشرف نے قدیم حیدرآباد کی باتیں بیان کرتے ہوئے آرکائیوز کے حوالے دیئے ۔ انھوں نے بتایا کہ آصف سابع سرراس مسعود کی قابلیت کے بہت معترف تھے ۔ اگر راس مسعود کی صحت ساتھ دیتی تو وہ ریاست حیدرآباد کی اور خدمت کرتے ۔
بہرحال آصف سابع ایک جوہر شناس حکمران تھے اور حیدرآباد جو کل تھا کی خوبیوں میں اس عالی ظرف بادشاہ کا بہت بڑا حصہ تھا ۔