تلنگانہ تحریک 58 سالہ طویل جدوجہد کے بعد کامیابی سے ہمکنار

عوام کی قربانیاں، فوج کے ذریعہ احتجاج کو کچلنے کی کوششیں، مسلم رہنماؤں کا گرانقدر رول
چناریڈی دورکی تلخ یادیں ذہنوں میں ہنوز تازہ، کے سی آر کی قیادت میںثمر آور جدوجہد

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد 18 فبروری ۔ تحریکیں قربانی طلب کرتی ہیں اور قربانیوں کے ذریعہ جن تحریکوں میں زندگی پیدا ہو وہ تحریکیں بہرصورت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے لئے چلائی جانے والی تحریک کوئی 10 یا 15 سال سے نہیں بلکہ پورے 58 سال سے جاری تحریک ہے جس میں ہزاروں افراد نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے اس تحریک کو زندہ رکھا۔ تحریک تلنگانہ نے ان 58 برسوں میں بہت سے ایسے نشیب و فراز دیکھے جہاں سیاسی بازیگروں نے اس تحریک کو اپنی ترقی کا زینہ بھی بنایا۔ ریاست دکن حیدرآباد پر ہند یونین کے آپریشن پولو (پولیس ایکشن) کے بعد بھی علاقہ تلنگانہ حیدرآباد کہلاتا رہا اور 1950 ء میں ریاست حیدرآباد پہلے انتخابات منعقد ہوئے لیکن یکم نومبر 1956 ء کو ایک منظم سازش کے تحت ریاست مدراس کے کچھ حصہ کے علاوہ دیگر اضلاع کو تلنگانہ میں ضم کرتے ہوئے ریاست آندھراپردیش تشکیل دی گئی۔ 1953 ء میں ریاستوں کی تشکیل جدید کمیشن کی تشکیل کے ذریعہ اس عمل کی تکمیل کی گئی۔ لیکن آندھرائی علاقوں کا تلنگانہ اضلاع کے ساتھ یہ انضمام دیرپا ثابت نہیں ہوا بلکہ اندرون دس سال دراڑیں پیدا ہوگئیں۔ 1961 ء میں حیدرآباد کو خصوصی موقف حاصل ہوا لیکن ’’ملکی قوانین‘‘ پر عدم عمل آوری کے علاوہ ان میں ترمیمات کی کوششوں کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا اورجنوری 1969 ء میں یہ تحریک شدت اختیار کرگئی۔ اس برس تحریک تلنگانہ 23 جنوری کو یہ تحریک پرتشدد ہوگئی۔ تحریک تلنگانہ میں اس وقت مسلم رہنماؤں میں جن لوگوں نے ان کی سرپرستی کی ان میں مولانا سید خلیل اللہ حسینی، مولانا غوث خاموشی کے علاوہ کل ہند مجلس تعمیر ملت کے سرکردہ قائدین اور جناب سید لطیف الدین قادری مرحوم ایڈیٹر رہنمائے دکن شامل تھے۔ علاوہ ازیں طلبہ تنظیموں سے وابستہ افراد میں جناب کے ایم عارف الدین کے علاوہ دیگر شامل ہیں جنھوں نے تلنگانہ کے ساتھ انصاف اور سابقہ ریاست کی بحالی کے لئے جدوجہد کی اور جیل گئے۔ 29 جنوری 1969 ء کو حکومت آندھراپردیش نے فوج طلب کرتے ہوئے تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے دوران سینکڑوں نوجوان پولیس کی گولیوں کا شکار ہوئے۔ بعدازاں ملکی قوانین پر عمل آوری اور مقامی جائیدادوں پر مقامی نوجوانوں کے حق کے شریفانہ معاہدہ پر حالات کچھ بہتر ہوئے لیکن سابق چیف منسٹر مسٹر ایم چناریڈی نے 1969 ء میں ’’تلنگانہ پرجا سمیتی‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی اور جون 1969 ء میں وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے دورۂ آندھراپردیش کے موقع پر ان سے ملاقات کرتے ہوئے مسئلہ تلنگانہ پر نمائندگی کی۔ مسز اندرا گاندھی نے اس مسئلہ پر گفتگو کے لئے ہی حیدرآباد کا دورہ کیا تھا۔ تلنگانہ ملازمین نے 10 جون کو تلنگانہ کے لئے عام ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے اس میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔

جب کانگریس نے تشکیل تلنگانہ سے صریح انکار کردیا تو اس وقت تلنگانہ پرجا سمیتی نے عام انتخابات میں حصہ لینے کاے فیصلہ کیا اور مئی 1971 ء میں منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے 10 پارلیمنٹ کی نشسچتوں پر تلنگانہ پرجا سمیتی نے کامیابی حاصل کی۔ اس کے باوجود بھی ریاست کو متحد رکھنے کی کوشش کے طور پر آنجہانی اندرا گاندھی نے پی وی نرسمہا راؤ کو 30 ستمبر 1971 ء کو آندھراپردیش کا چیف منسٹر بنانے کا اعلان کیا۔ چونکہ اس کا تعلق علاقہ تلنگانہ سے تھا۔ بعدازاں مسٹر چناریڈی کچھ وقت کے لئے منظر سے غائب ہوگئے لیکن وہ بھی کانگریس میں ضم ہونے کے بعد 1978 ء میں چیف منسٹر آندھراپردیش بنائے گئے۔ 1969 ء میں علاقہ تلنگانہ میں سابق ریاست کی بحالی کے لئے جدوجہد جاری تھی لیکن اس کے فوراً بعد 1972 ء میں علیحدہ ریاست ’’آندھرا‘‘ کے لئے ’’جئے آندھرا‘‘ تحریک شروع ہوئی اور آندھرائی عوام رائلسیما کی تہذیب کے ساتھ رہنا پسند نہیں کررہے تھے اور اس تحریک کے دوران کھل کر اس ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے تھے۔ 1975 ء میں 6 نکاتی فارمولہ بذریعہ صدارتی حکمنامہ نافذ ہوا تاکہ تلنگانہ عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے لیکن اس کے باوجود اقتدار سیما ۔ آندھرا قائدین کے ہاتھ میں ہونے کے سبب مکمل طور پر انصاف یقینی نہیں ہوسکا۔ طویل عرصہ تک جدوجہد کرنے والوں کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آنے لگیں اور جہدکاروں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن ’’تلنگانہ‘‘ نامی اس آگ کو پوری طرح بجھایا نہیں جاسکا تھا اور اِس چنگاری کو 1997 ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہوا دی۔ اس کے بعد 27 اپریل 2001 ء کو مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے ’’تلنگانہ راشٹرا سمیتی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ سابق میں وہ تلگودیشم پارٹی کے اہم ستون شمار کئے جاتے تھے۔

اس سیاسی جماعت کے دفتر کا آغاز کرنے کے لئے حسین ساگر سے متصل ایک وسیع جگہ جوکہ مجاہد آزادی کونڈہ لکشمن باپوجی کے زیرتصرف تھی، اُنھوں نے فراہم کی اور پھر پروفیسر جئے شنکر، کونڈہ لکشمن باپوجی جیسے بزرگ تلنگانہ قائدین کے دل ایک مرتبہ پھر حصول تلنگانہ کے لئے دھڑکنے لگے۔ 2004 ء میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا اور 5 پارلیمانی حلقوں کے علاوہ 26 اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے تحریک کے وجود احساس دلوادیا۔ قبل ازیں 1999 ء میں ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کی زیرقیادت کانگریس کے ارکان اسمبلی جن کی تعداد تقریباً 40 تھی نے مسز سونیا گاندھی کے دورۂ حیدرآباد کے موقع پر تشکیل تلنگانہ کا مطالبہ کرتے ہوئے مکتوب حوالہ کیا تھا۔ 2004 ء میں پہلی یو پی اے حکومت تشکیل تلنگانہ مسئلہ کو مشترکہ اقل ترین منصوبہ میں شامل کیا لیکن اس میں ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے این ڈی اے دور حکومت میں مسٹر چندرابابو نائیڈو نے جو کردار ادا کیا تھا وہی کردار ادا کرنا شروع کردیا اور 2009 ء انتخابات قریب آگئے۔ 2009 ء انتخابات سے تقریباً ایک برس قبل 2008 ء میں تلگودیشم پارٹی نے تشکیل تلنگانہ کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے پرنب کمیٹی کو مکتوب روانہ کیا تھا اسی لئے 2009 ء میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے تلگودیشم پارٹی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس دوستی میں مدیر سیاست جناب زاہد علی خاں کا کلیدی رول رہا لیکن تلگودیشم سے اتحاد کا ’’تلنگانہ راشٹرا سمیتی‘‘ کو کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا اور صرف دو نشستوں پر ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوئی جبکہ اسمبلی کی بھی صرف 10 نشستیں حاصل ہوئیں اور پھر کے سی آر کو بھی ایم چناریڈی ثانی کہا جانے لگا لیکن جب 2 ستمبر 2009 ء کو ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی ہیلی کاپٹر حادثہ میں موت واقع ہوئی اس کے بعد ایک مرتبہ پھر تحریک تلنگانہ نے شدت اختیار کی۔ اس کے ایک ماہ بعد صدر ٹی آر ایس مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے حصول تلنگانہ کے لئے ’’مرن برت‘‘ شروع کرنے کا اعلان کیا اور 29 نومبر 2009 ء کو اُنھوں نے مرن برت کا آغاز کیا اس مرن برت کے آغاز کے ساتھ ہی قومی سطح پر سیاسی جماعتوں کی توجہ اس مسئلہ کی جانب پہنچی اور دباؤ پڑھنے پر 9 ڈسمبر 2009 ء کو رات دیر گئے اُس وقت کے وزیرداخلہ مسٹر پی چدمبرم نے اعلان کیاکہ مرکزی حکومت تشکیل تلنگانہ کا روڈ میاپ تیار کررہی ہے۔

اس اعلان کے فوری بعد سیما آندھرا قائدین بشمول تلنگانہ کی حمایت کا اعلان کرنے والی تلگودیشم کے صدر نے مرکز کے طریقہ کار پر اعتراض کرتے ہوئے اجتماعی استعفوں کے ذریعہ سیاسی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی اور سیما آندھرا علاقوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے اسپانسر کردہ احتجاج کا آغاز ہوا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے 23 ڈسمبر کو بیان سے دستبرداری اختیار کرلی جس کے نتیجہ میں تلنگانہ علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دوسرے ہی دن تلنگانہ قائدین نے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوتے ہوئے تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تاکہ مرکز پر دباؤ ڈالا جاسکے اور لامتناہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور ان احتجاجیوں پر قابو پانے کے لئے مرکزی حکومت نے 3 فروری 2010 ء کو 5 ارکان پر مشتمل سری کرشنا کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں مسٹر جسٹس سری کرشنا، مسٹر وی کے دگل، مسٹر ابو صالح شریف و دیگر موجود تھے۔ کمیٹی نے 505 صفحات پر مشتمل رپورٹ وزارت داخلہ کے حوالہ کی جسے 6 جنوری 2011 ء کو وزارت داخلہ کی جانب سے طلب کردہ کُل جماعتی اجلاس میں پیش کرتے ہوئے 6 نکات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ 23 مارچ 2011 ء کو آندھراپردیش ہائی کورٹ جج جسٹس ایل نرسمہا ریڈی نے سری کرشنا کمیٹی کے خفیہ چیاپٹر پر احکام جاری کئے اور 26 اپریل کو دیئے گئے قطعی فیصلہ میں اس چیاپٹر کو عام کرنے کی مرکزی حکومت کو ہدایت دی۔ 17 فروری 2011 ء کو تلنگانہ ملازمین نے تحریک عدم تعاون کا آغاز کیا اور لاکھوں ملازمین 16 دن تک احتجاج میں شامل رہے۔ 10 مارچ 2010 ء کو تمام سیاسی جماعتوں کے تلنگانہ قائدین و جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ٹینک بینڈ پر ’’ملین مارچ‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا اور اس احتجاج کے دوران ٹینک بینڈ پر موجود بعض پتلوں کو نقصان پہنچایا گیا اور اس احتجاج میں تلنگانہ کے سیاسی قائدین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ 12 ستمبر 2011 ء کو ملازمین نے تلنگانہ میں عام ہڑتال کا آغاز کیا جس میں سماج کے تمام طبقات بشمول آٹو ڈرائیورس نے بھی حصہ لیتے ہوئے ہڑتال کی۔

یہ احتجاجی سلسلہ 42 دن تک جاری رہا۔ اس کے بعد 24 اکٹوبر 2011 ء کو اختتام کو پہنچا۔ 29 اکٹوبر 2011 ء کو کانگریس کے 3 ارکان اسمبلی نے مستعفی ہوتے ہوئے تلنگانہ راشٹرا سمیتی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اسی طرح تلگودیشم رکن اسمبلی ڈاکٹر این جناردھن ریڈی بھی پارٹی سے مستعفی ہوگئے۔ 6 اسمبلی حلقہ جات میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے اور 3 نشستوں پر ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ایک بی جے پی اور ایک آزاد رکن ڈاکٹر این جناردھن ریڈی کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد صدر ٹی آر ایس نے مہلتوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا۔ مذاکرات کے عمل کے دوران تلنگانہ کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست کی تشکیل پر رضامندی ظاہر کی۔ 3 اکٹوبر 2013 ء کو مرکزی کابینہ نے ریاست کی تقسیم کو منظوری دیتے ہوئے 6 وزراء پر مشتمل وزارتی گروپ تشکیل دیا۔ 5 ڈسمبر کو مرکزی کابینہ نے ریاست کی تشکیل جدید بل کو منظوری دی اور دستور کی دفعہ 3 کے تحت ریاست کو تقسیم کرنے کے فیصلہ سے صدرجمہوریہ کو بِل کو نقل روانہ کی گئی جسے صدرجمہوریہ نے 9 ڈسمبر کو آندھراپردیش اسمبلی کو روانہ کرتے ہوئے 23 ڈسمبر تک رائے دینے کی ہدایت دی۔ 12 ڈسمبر 2013 ء کو بِل حیدرآباد پہنچا اور 16 ڈسمبر کو دونوں ایوانوں میں ’’آندھراپردیش تشکیل جدید بل 2013‘‘ مباحث کے لئے متعارف کروایا گیا۔ 8 جنوری 2014 ء کو بِل پر مباحث شروع ہوئے اور 21 جنوری کو بِل پر مباحث کے لئے مزید وقت طلب کیا گیا لیکن صدرجمہوریہ نے ایک ہفتہ کی توسیع کو منظوری دی اور 30 جنوری کو دونوں ایوانوں میں موجود سیما ۔ آندھرا نمائندوں کی اکثریت نے بل کو مسترد کرتے ہوئے واپس کرنے کا اعلان کیا۔

مسٹر این کرن کمار ریڈی جو ریاست کی تقسیم کے خلاف 25 اکٹوبر 2013 ء سے ہی مہم شروع کرچکے تھے نے 5 فروری 2014 ء کو دہلی میں دھرنا منظم کیا۔ 11 فروری کو کانگریس نے 6 ارکان پارلیمان کو برطرف کرتے ہوئے ریاست کی تشکیل کی راہیں ہموار کی جو تلنگانہ کی مخالفت کررہے تھے۔ 13 فروری کو حکومت نے ایوان میں تلنگانہ بِل پیش کیا جس پر آج ہوئے چند گھنٹوں کے مباحث کے بعد تقریباً 109 ترمیمات پر رائے دہی کے ذریعہ اس بِل کو لوک سبھا میں منظور کردیا گیا۔ 2001 ء سے 2014 ء تک کے اس احتجاج کے دوران زائداز 1200 نوجوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دی اور کئی سیاسی ڈرامہ بازیاں دیکھی گئیں۔ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے شانہ بشانہ چلنے والے تلنگانہ تحریک کے چمپئن بننے کی کوشش میں مصروف ہوگئے اور جو لوگ خاموشی سے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی جدوجہد میں مصروف تھے وہ اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے عوام میں شعور اُجاگر کرتے رہے۔ اس تحریک میں پروفیسر جئے شنکر، پروفیسر کودنڈا رام، انقلابی گلوکار غدر، مسٹر ایم ویدکمار، ویملا اکّا ، برلا نائک کے علاوہ دیگر تنظیموں کے قائدین و سربراہان کے رول کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ادارہ سیاست و ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں اور جناب ظہیرالدین علی خاں منیجنگ ایڈیٹر نے تحریک تلنگانہ سے مسلمانوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان میں شعور بیداری کا ایک سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجہ میں تلنگانہ اضلاع کے مسلمانوں نے کھل کر تحریک میں حصہ لینا شروع کیا۔