بابائے اردو مولوی عبدالحق

سید علی حسین

اردو زبان و ادب کے خدمت گاروں میں مولوی عبدالحق کا نام نمایاں ہے ۔ انھوں نے اپنی ساری عمر اردو زبان کی ترقی و ترویج میں گذاردی ۔ اس لئے وہ بابائے اردو کہلائے ۔ پرستاران اردو کبھی بھی مولوی عبدالحق کی اردو خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے ۔ وہ اردو کے عاشق تھے ۔ ساری زندگی ان کی توجہ کا مرکز اردو زبان اور اردو کے ادارے جیسے حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا دارالترجمہ اور انجمن ترقی اردو جس کا جال انھوں نے ملک میں پھیلادیا تھا ۔ اس انجمن نے اردو کی بڑی خدمت کی ۔ مولوی عبدالحق صاحب کو اس انجمن سے ویسا ہی پیار تھا جیسا کسی کو اپنی اولاد سے ہوتا ہے ۔ جب انھوں نے اپنی زندگی کا بیمہ کرایا اور وارث کے خانہ میں کسی کا نام لکھنے کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے بلاتامل انجمن ترقی اردو کا نام لکھ دیا ۔ بیمہ کی رقم مولوی صاحب کی زندگی ہی میں مل گئی اور انھوں نے سارا روپیہ انجمن کی نذر کردیا ۔

مولوی عبدالحق کا گھرانا ایک متوسط دیندار اور خوشحال گھرانہ تھا اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں ہاپوڑ ایک پرانا قصبہ ہے ۔ انکے والد شیخ علی حسین اسی خاندان کے ایک دیندار بزرگ تھے ۔ مولوی عبدالحق انکے دوسرے بیٹے تھے ۔ مولوی عبدالحق کی والدہ بہت نیک اور عبادت گذار خاتون تھیں ۔ گھریلو ذمہ داریوں کے بعد انکے وقت کا بیشتر حصہ عبادت میں گذرتا تھا ۔ عبدالحق بچپن سے ہی اپنی والدہ کے ساتھ نماز پابندی سے پڑھتے تھے ۔ ذرا بڑے ہوئے تو والد کے ساتھ نماز کے لئے مسجد کو جاتے تھے اور اس کے بعد پڑھنے لکھنے میں دل لگاتے تھے ۔ مولوی عبدالحق کی زندگی جہد مسلسل کی ایک طویل کہانی ہے ۔ انھیں عمر بھر ناسازگار حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ کبھی ہمت نہیں ہارے ۔ میٹرک کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد وہ علی گڑھ کی درسگاہ کو بھیج دئے گئے ۔ وہ اپنی انتھک محنت اور پڑھائی کی لگن کی وجہ سے علی گڑھ کی درسگاہ کے ایک مقبول اور ہردلعزیز طالب علم بن گئے ۔ سرسید احمد خاں بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے ۔

سرسید احمد خاں نے علی گڑھ کالج کا یونیفارم تیار کرایا ۔ پہلے تین یونیفارمس سلائے گئے ۔ یونیفارم ایک ترک کوٹ ، ایک ترکی ٹوپی اور پتلون پر مشتمل تھا ۔ ان تین یونیفارمس میں ایک سرسید احمد خاں نے زیب تن کیا۔ دوسرا یونیفارم عبدالحق کو دیا اور تیسرا یونیفارم اپنے پوتے راس مسعود کو دیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید احمد خاں ، مولوی عبدالحق کو کتنا عزیز رکھتے تھے ۔ عبدالحق 1888ء میں علی گڑھ کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور 1894 ء کو چھ سال بعد بی اے کی سند حاصل کرکے رخصت ہوئے ۔ سرسید احمد خاں کے دوست اور رفیق نواب محسن الملک مولوی مہدی علی ریاست حیدرآباد میں معتمد مال یعنی فینانس سکریٹری تھے ۔ وہ اس وقت بغرض علاج بمبئی میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ عبدالحق نواب محسن الملک کا ایک تعارفی خط بنام مولوی عزیز مرزا معتمد داخلہ لیکر حیدرآباد آئے ۔ عزیز مرزا نے عبدالحق کو بحیثیت مترجم اپنے دفتر میں ملازم رکھ لیا۔ پھر وہ مدرسہ آصفیہ کے پرنسپل کی حیثیت سے مقرر ہوئے ۔ مولوی عبدالحق اسکول کے پرنسپل کی خدمت کے علاوہ بچوں کو پڑھاتے بھی تھے ۔ افسر الملک کے کہنے پر وہ ایک ماہانامہ پرچہ کی ادارت بھی کرتے تھے جو ایک فوجی رسالہ تھا ۔ 1911 ء میں مولوی عبدالحق محکمہ محروسہ سرکار عالی سے منسلک ہوگئے اور ضلع میدک کے مہتمم تعلیمات مقرر ہوئے ۔ جب ڈاکٹر سراج الحسن محکمہ تعلیم کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے تو عبدالحق کی صلاحیتوں سے واقف ہوئے اور انھیں صدر مہتمم تعلیمات صوبہ اورنگ آباد مقرر کیا ۔ مولوی عبدالحق کو اورنگ آباد کی دلفریب آب و ہوا بہت پسند آئی ۔ وہ مناظر قدرت کے دلدادہ تھے ۔ مولوی عبدالحق نے اورنگ آباد میں تعلیم کو بڑا فروغ دیا ۔ مولوی عبدالحق نہایت جاں فشانی سے اپنے صوبہ کے ہر اسکول کا دورہ کرتے تھے ۔ تعلیم کا معیار دیکھتے تھے ۔مولوی عبدالحق بڑے مستعد اور فرض شناس انسان تھے ۔ انھوں نے جو بھی کام اپنے ذمہ لیا اسے بڑے سلیقہ سے پورا کیا ۔ انھوں نے اپنی انتھک کوشش سے اہلیان صوبہ اورنگ آباد میں تعلیم کا ذوق پیدا کیا ۔ انکے دور میں اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے دوسرے صوبہ جات کے مقابلہ میں صوبہ اورنگ آباد میں تعلیم کا تناسب زیادہ ہی رہا ۔ اسکی اصل وجہ مولوی عبدالحق کی کوشش تھی ۔ صوبہ اورنگ آباد کے عوام میں تعلیمی بیداری پیدا ہوگئی تھی ۔

انجمن ترقی اردو کی بنیاد 1903 میں پڑی ۔ 1911 کو مولوی عبدالحق انجمن کے سکریٹری مقرر ہوئے ۔ مولوی عبدالحق کو اردو سے عشق تھا ۔ ڈاکٹر انصاری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ، میری زندگی کا مقصد دنیا میں صرف ایک ہی ہے کہ اردو زبان کو ترقی حاصل ہو ۔ اردو ایک عالمی زبان بن جائے ۔ وہ طالب علمی کے زمانہ سے اردو کی خدمت کررہے تھے ۔ اب بڑے پیمانے پر اردو کی خدمت کا موقع ملا تو دشواریوں سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود انھوں نے یہ ذمہ داری قبول کرلی ۔ اس وقت انجمن کے پاس نہ سرمایہ تھا نہ عملہ ۔ اراکین کی تعداد بھی چند اشخاص تک محدود تھی ۔ اردو کا یہ مجاہد فروغ اردو کے لئے بے سر و سامانی کے باوجود اٹھ کھڑا ہوا ۔ انجمن اردو کا دفتر مولوی صاحب کی جائے سکونت کے مقبرہ رابعہ دورانی کے قریب ایک کمرہ میں منتقل ہوگیا ۔ یہ جگہ ’’اردو باغ‘‘ کہلانے لگی۔ مولوی عبدالحق اورنگ آباد سے بحیثیت صدر مہتمم تعلیمات حسن خدمت وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔ اس کے بعد انکی خدمت حکومت نے جامعہ عثمانیہ کے لئے حاصل کی ۔ مولوی صاحب کو دارالترجمہ کا ناظم اعلی مقرر کیا گیا ۔ انکے دور میں کئی انگریزی ، سائنسی اور جدید علوم کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ وہ جامعہ کے طلباء کو اردو کا درس بھی دیتے تھے ۔

1938 ء میں انجمن ترقی اردو کا دفتر دہلی منتقل ہوگیا کیونکہ دہلی ہندوستان کا پایہ تخت تھا ۔ یہاں اردو کے فروغ کے امکانات زیادہ تھے ۔ اس وقت مولوی صاحب جامعہ عثمانیہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور معقول مشاہرہ پارہے تھے ۔وہ اردو کے فروغ کے لئے جامعہ عثمانیہ کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر دہلی آگئے اور انجمن کے کاموں میں منہمک ہوگئے ۔ اچانک ملک کے حالات بڑی تیزی سے بدل گئے ۔ 1947 ء میں ملک کا بٹوارہ ہوگیا ۔ مولوی صاحب کو ہندوستان میں اردو کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ۔ اس لئے وہ ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے ۔ لیکن انھیں پاکستان میں اردو کے تعلق سے مایوسی ہوئی ۔ وہ پاکستان میں اردو یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے تھے ۔ انکی یہ خواہش و آرزو پوری نہ ہوئی ۔ وہ 16 اگست 1961 کو راہی ملک عدم ہوئے ۔