کرناٹک میں بی جے پی کی واضح مخالفت درکار فائدہ بہتوں کو ہوگا…

عرفان جابری
تقریباً پچیس سال قبل ہندی فلم ’بازیگر‘ بہت مشہور ہوئی تھی، اور زیادہ شہرت اُس وقت کے ٹیلی ویژن اسکرین سے اُبھر کر فلمی پردے تک تیزی سے ترقی کرنے والے اداکار کو ملی جو بعد میں سوپر اسٹار کہلایا۔ میں نے یہ فلم کا یہاں ذکر اُس کی اِسکرپٹ ذہن میں آنے پر کیا ہے۔ فلمی تبصرہ نگار ؍ تجزیہ کار ؍ ماہرین میری رائے سے شاید اتفاق کریں کہ وہ فلم اسکرپٹ یا ہدایت کاری کی وجہ سے سوپرہٹ نہیں ہوئی بلکہ اُس دَور میں فلمی شائقین کو بدلتے ذوق کے دوران نیا ہیرو، نئی ہیروئن اور میوزک بھاگئے! آج بھی اُس فلم کی اسکرپٹ کا خیال آجائے تو ہنسی آتی ہے۔ اُس فلم کے اصل حصہ میں نصف دورانیہ تک جو کچھ ہو تا ہے، وہی کچھ بعد کے نصف میں پیش آتا ہے۔ یعنی ازراہ مزاح کہوں تو متعلقہ اسکرپٹ رائٹر نے ’’کام آدھا کیا اور معاوضہ پورا لے لیا‘‘! ہندوستان کی سیاسی اور حکومتی تاریخ میں 2014ء کے جنرل الیکشن سے قبل تقریباً ساڑھے تین سال کی مدت کے دوران دیش کی اور خصوصیت سے یو پی اے II کی انتخابی شکست تک جو دُرگت ہوئی ، اب وہی کچھ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کا حال دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں! ایک نمایاں فرق ہے۔ یو پی اے دورِ حکومت میں وقفے وقفے سے ملک کے گوشے گوشے میں بم دھماکے ہوا کرتے تھے جو 2014ء کی نئی حکومت تشکیل پانے کے بعد سے یکایک بند ہوگئے ہیں۔ اب بند ہوگئے یا بند کردیئے گئے کہنا زیادہ مناسب ہے، یہ معزز قارئین خوب جانتے ہیں۔

یو پی اے I (2004-2009ئ) میں عالمی سطح پر معاشی انحطاط کے باوجود ماہر معاشیات وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سرکردگی میں انڈیا نے بی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپائی کی تین چھوٹی بڑی میعادوں میں 6 سالہ حکومت کے بعد دستیاب محدود وسائل میں اطمینان بخش کارگزاری کا مظاہرہ کیا۔ تب ہی تو 2008ء کے ممبئی حملوں کے باوجود کانگریس کو یو پی اے II کی قیادت کا موقع ملا تھا۔ تاہم، دوسری میعاد کو 2010ء کے کامن ویلتھ گیمز منعقدہ دہلی میں کرپشن کے الزامات سے گہن لگنا شروع ہوا تو پھر پے در پے اسکام؍ اسکینڈل، بم دھماکوں کا بظاہر غیرمختتم سلسلہ ، اور ان سب کے بعد 16 ڈسمبر 2012ء کو دہلی میں پیش آئے نربھیہ کیس نے یو پی اے II کا بیڑہ غرق کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر سنگھ کی حکومت سنبھل نہ پائی تھی کہ الیکشن سے قبل کا فیصلہ کن سال شروع ہوگیا جو اُس وقت کے چیف منسٹر گجرات نریندر دامودرداس مودی کو وزیراعظم ہند بنا کر ہی اختتام پذیر ہوا۔ بڑی آرزوؤں، بڑے ارمانوں، بڑی اُمنگوں، بڑے (کھوکھلے) وعدوں، بڑی ’کاریگری‘ اور بہت ’بھولے ووٹروں‘ کی مرہون منت ’چائے والا‘ نے وزارت عظمیٰ سنبھال تو لی لیکن اس کے بعد چار سال میں دیش کا جو حال بنا دیا گیا، وہ نہ صرف پورے دیش واسیوں پر بلکہ جگ ظاہر ہے۔ عام طور پر کھیلوں جیسے باکسنگ، فٹبال، کرکٹ میں میدان سنبھالتے ہی کھلاڑی انھیں درپیش چیلنج کو سمجھنے اور خود کو بہترین توانائی کا حامل بنانے کیلئے ہلکا پھلکا کھیلتے ہیں؛ یا ہم راست سرکاری کام کاج کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ بالعموم کوئی بھی نیا عہدہ دار جب اپنے منصب کا جائزہ لیتا ہے تو بڑے اور دوررَس اثرات کے حامل فیصلے کرنے سے قبل اپنے دفتر اور دستیاب حالات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر عملی اقدامات کی طرف توجہ دیتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو طنزیہ طور پر ’مون موہن سنگھ‘ (خاموش رہنے والے موہن سنگھ) کہنے والے مودی جی نے 26 مئی 2014ء کو وزیراعظم کا حلف لینے کے بعد سب سے یہ ’عہد‘ کرلیا کہ ہندوستانی سرزمین پر ’مون برت‘ رکھیں گے اور جو کچھ بولنا ہو انڈیا کی حدود سے باہر نکل کر ہی بولیں گے۔ ظاہر ہے وزارت عظمیٰ جیسی بھاری ذمہ داری نبھانے والے کو اہم اُمور میں، یا پالیسی فیصلوں کیلئے یا پھر اپوزیشن اور پارلیمنٹ کو جواب دینے کیلئے روزانہ کچھ تو بولنا ہی پڑتا ہے۔ ’’اب روز روز تو بیرون ملک جا نہیں سکتے، اس لئے مودی جی نے اپنا مون برت توڑنے کیلئے تادم تحریر سات کے منجملہ صرف چھ براعظموں ایشیا، جنوبی امریکا، شمالی امریکا، آسٹریلیا، یورپ اور افریقا (ساتویں براعظم اَنتارکتیکا کو اس لئے نہیں گئے کیونکہ وہاں کوئی ملک تو درکنار مستقل آبادی ہی نہیں۔ آئندہ جنرل الیکشن سے قبل وہاں کچھ آبادی مستقل ہوجائے تو شاید کسی وزیراعظم ہند کا تمام براعظموں کے دورے کا ریکارڈ مکمل ہوجائے) اُناسی (79) بیرونی دورے (ڈاکٹر سنگھ کی دونوں میعادیں جوڑ کر بھی دیکھیں تو اتنی تعداد نہیں ہوئی) کئے ہیں۔ اور تقریباً ہر مرتبہ ہندوستانی قوم کو، اپوزیشن کو وزیراعظم ہند کی ’من کی بات‘ سننے میں ملی ہے۔ ویسے وہ اپنی میعاد کی شروعات سے ہی آل انڈیا ریڈیو اور دیگر ذرائع سے بھی اپنے ’من کی بات‘ سننے والوں کو سناتے رہے ہیں۔ ہندوستانی قوم کو اُن کے ساتھ مشکل یہی ہے کہ وہ مون برت رکھتے ہیں یا پھر اپنی ہی سنا دیتے ہیں، کسی کی سننا اُن کے مزاج میں نہیں ہے۔‘‘

بہرحال ’’آبیل مجھے مار‘‘ والے جن کاموں نے یو پی اے II میں کامن ویلتھ گیمز 2010ء اور پھر نربھیہ کیس سے فیصلہ کن موڑ لیا تھا، وہی کچھ اب مجھے 8 نومبر 2016ء کی نوٹ بندی، اس کے چند ماہ بعد بی جے پی کی اترپردیش میں ’مشکوک‘ جیت اور یوگی ادتیہ ناتھ کی ’تاج پوشی‘، یکم جولائی 2017ء کو جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سرویسیس ٹیکس) کے نفاذ، اور پھر کٹھوعہ (جموں) اور اُناؤ (یو پی) کے عصمت دری و قتل اور ریپ کیسوں کے باوجود مودی حکومت کی وہی بے عملی، سیاسی مہروں کی وہی ہٹ دھرمی ، چھوٹے بڑوں کی وہی اَکڑ میں نظر آرہا ہے۔ اتنا ہی نہیں اِس مرتبہ این ڈی اے حکومت قائم ہوتے ہی ملک بھر میں آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور محاذی تنظیموں کو عملی طور پر کھلی چھوٹ دے دی گئی کہ جو چاہو بولو، لکھو اور کرگزرو … بس مقام واردات بی جے پی زیرحکمرانی والی ریاست ہونا چاہئے، ملزمین ہو کہ مجرمین کوئی بھی قانون کی پکڑ میں نہیں آنے پائے گا۔ چنانچہ اُترکھنڈ کے دادری میں محمد اخلاق کی جنونی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت سے شروعات ہوئی، جس کے بعد مسلمانوں، دلتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور عدلیہ کی شخصیتوں کو تک نہیں بخشا گیا۔ پہلے سے جاری بیشتر سرکاری اسکیمات اور اداروں کے ناموں کی تبدیلی کی گئی۔ تعلیمی نصاب اور درس و تدریس کو زعفرانی رنگ دیا جانے لگا۔ ’کانگریس مکت بھارت ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپوزیشن اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ ہر ریاست میں چاہے شمال میں ہو کہ جنوب میں، مغرب میں ہو کہ مشرق میں…… عوامی فیصلے کے برخلاف بی جے پی حکومت قائم کردینے کا جنون سوار ہوگیا۔ملک بھر میں بم دھماکے ڈرامائی طور پر بند ہوگئے اور عدالتوں میں یکایک سارے ملزمین الزامات منسوبہ سے بَری قرار دیئے جانے لگے۔ ان میں سے اکثر کیس یو پی اے دور کے ہیں۔ اگر اُس وقت کے حکمران ملوث ہوں تو موجودہ حکومت کیس یکے بعد دیگر بند کیوں کرتی جارہی ہے؟ اور اگر زیادہ تر ملزمین موجودہ حکمرانوں کی زیرسرپرستی پلنے والے عناصر ہیں تو ہندوستانی عوام نے پیشرو حکومت کو اور اُس وقت کے حالات کو سمجھنے میں تاریخی بھول کی ہے۔ صرف بم دھماکوں کے کیس نہیں بلکہ سابقہ حکومت کے کرپشن؍ اسکام ؍ اسکینڈل کے معاملے بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں، 2G اسکام اور آدرش اسکام مثالیں ہیں۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نتیجے میں مضحکہ خیز نوعیت کے نئے نوٹوں کے ساتھ اے ٹی ایمز (Automated Teller Machines) کی حالت ، کئی افراد کی موت اور اَن گنت لوگوں کی بیروزگاری کے باوجود ایف آر ڈی آئی (Financial Resolution and Deposit Insurance) بل 2017ء نے ہندوستانی معیشت اور بینک کاری کو ناقابل تلافی پہنچایا اور پھر ہزارہا کروڑ روپئے کے نیرؤ مودی فراڈ نے بینکوں کے ساتھ ساتھ ’صاف ستھری، بدعنوانی سے پاک مودی حکومت‘ کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ چیف منسٹر مودی نے وزیراعظم بننے سے قبل قوم سے بہت وعدے کئے؛ ہر سال دو کروڑ روزگار، بیرون ملک سے کالادھن لانے کے بعد ہر ہندوستانی کے بینک کھاتہ میں 15 لاکھ روپئے کا ڈپازٹ، ’’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘‘، لیکن یہ سب محض کھوکھلے انتخابی نعرے ثابت ہوئے جس سے خود مودی کو وزارت عظمی اور بی جے پی و سنگھ پریوار کو اقتدار ضرور مل گیا لیکن دیش کا صرف ’ستیا ناس‘ ہوا ہے کیونکہ سماجی یکجہتی بکھرگئی، معیشت دگرگوں ہوگئی، لا اینڈ آرڈر کمزور پڑگیا، جمہوری ادارے اپنا اثر کھوچکے، عوام میں مایوسی اور بیزاری پیدا ہوگئی ہے۔ ان حالات میں کرناٹک کے عوام کو ملکی سطح پر ہونے والے جنرل الیکشن کیلئے ریہرسل کا 12 مئی کو موقع مل رہا ہے۔ کرناٹک میں سدارامیا نے مجموعی طور پر اچھی پہلی میعاد مکمل کی ہے۔ میرا اِرادہ بلاوجہ کانگریس کی تائید کا ہرگز نہیں ہے۔ چیف منسٹر سدارامیا نے بہتر حکومت کی اور وہ ابتداء سے کانگریس پارٹی سے وابستہ رہے ہیں۔ قوم نے تو مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی قیادت میں جاریہ تیسری میعاد سے قبل بی جے پی حکومت کی بھی ستائش کی۔ نتیش کمار کی بھی بحیثیت چیف منسٹر سبھی نے پارٹی خطوط سے بالاتر ہوکر تعریف کی ہے۔ 2014ء کے جنرل الیکشن سے لے کر تاحال ہندوستان کے سیاسی اور حکومتی حالات کو یہاں بیان کرنے کا میرا مقصد کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کو تمام غیربی جے پی اپوزیشن کیلئے قوم کے عظیم تر مفاد میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کی مخالفت کرنے اور اُسے ہرانے پر زور دینا ہے۔ 1991-96ء کی نرسمہا راؤ حکومت کو قوم نے آزمایا؛ پھر چھوٹی چھوٹی میعادوں کی مخلوط حکومتیں بننے لگیں، جس کے بعد ملک نے پہلی بار بی جے پی کو واجپائی جی کی قیادت میں اقتدار دے کر دیکھ لیا۔ تب India Shining (انڈیا چمک رہا ہے) کے جھوٹے دعوے نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرکے دس سال یو پی اے کو دیئے۔ اب ’اچھے دن‘ کے فریب نے موجودہ مرکزی حکومت کی قلعی کھول دی ہے۔ اس لئے بی جے پی کی پیش قدمی کو کرناٹک میں بہرصورت روکنا ہوگا۔ یقینا اس کا فائدہ سردست کانگریس کو ہوگا لیکن یہ انڈیا کے عظیم تر مفاد میں فی الحال ہرگز بُرا نہیں ہے۔
سیاسی مجبوری کا عذر ٹھیک نہیں
کرناٹک کے اسمبلی چناؤ میں پڑوسی تلنگانہ کی بعض پارٹیوں کی غیرمعمولی دلچسپی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ جے ڈی ایس کی تائید و حمایت کی جارہی ہے جس کے سربراہ 84 سالہ ایچ ڈی دیوے گوڑا تاریخ بتاتی ہے کہ دغابازی کا اپنا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنا سیاسی کریئر 1953ء میں کانگریس میں شمولیت کے ساتھ شروع کیا اور 1962ء تک اُسی پارٹی کے رکن رہے۔ اس پارٹی کی تقسیم میں کانگریس (او) میں شامل ہوگئے۔ ایمرجنسی (1975-77ئ) کے بعد جئے پرکاش نرائن کی جنتاپارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ تاہم، کانگریس کی باہر سے تائید کے ساتھ 1996-97ء میں تقریباً گیارہ ماہ وزیراعظم رہے۔ جنتاپارٹی سے جنتادل اور پھر جے ڈی ایس تک متعدد تبدیلیاں پیش آئیں، حتیٰ کہ 2000ء کے بعد ایسا وقت بھی آیا کہ کرناٹک میں بی جے پی کیساتھ باری باری اقتدار سنبھالنے کا باہمی معاہدہ کرتے ہوئے اپنے فرزند کمارا سوامی کو چیف منسٹر بنایا لیکن جب 2008ء میں بی جے پی لیڈر بی ایس یدیورپا کو اقتدار حوالے کرنے کا وقت آیا تو دغا دے گئے۔ تب سے کرناٹک میں سابق وزیراعظم کی پارٹی کی سیاسی طاقت تیسرے نمبر پر آگئی۔ بہ الفاظ دیگر دیوے گوڑا نے اپنے متواتر عمل سے بتایا کہ وہ اقتدار اور اپنے مفاد کیلئے کسی کے بھی ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اب کرناٹک میں کانگریس کے خلاف جے ڈی ایس کی مدد کرنا کمزور بی جے پی کو غیرمتوقع طاقت فراہم کرنے کے مترادف ہے، جس کی کارگزاری خاص طور پر مئی 2014ء سے سب پر عیاں ہے۔ اس کے باوجود تلنگانہ کی برسراقتدار پارٹی نے کرناٹک اسمبلی چناؤ 2018ء میں یکایک جے ڈی ایس کی تائید و حمایت کا فیصلہ کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو اب بھی موجودہ ہندوستان کی صورتحال کیلئے اُس دور کے بعض قائدین ذمہ دار نظر آتے ہیں جن میں سے کسی کا دیہانت ہوئے 50 سے زائد برس گزر گئے۔ پھر بھی وہ اُن کو ہی مورد الزام ٹھیراتے ہیں۔ شاید اسی لئے وہ ہنوز ’تھرڈ فرنٹ‘ کا سپنا سجا رہے ہیں حالانکہ کئی قائدین بشمول چیف منسٹرس انھیں مایوس کرچکے ہیں۔ اس پس منظر میں اے آئی ایم آئی ایم کا تلنگانہ کی حلیف برسراقتدار پارٹی اور کرناٹک میں اپنے بعض منتخب بلدی نمائندوں کی موجودگی کو ’سیاسی مجبوری‘ بناتے ہوئے چیف منسٹر سدارامیا کی راہ میں رکاوٹیں (چھوٹی یا بڑی رکاوٹ کی بات نہیں) پیدا کرنا ٹھیک نہیں۔ زندگی کا کوئی شعبہ ہو، اُس کے کچھ نہ کچھ اُصول ضرور ہوتے ہیں۔ ہر موقع پر مجبوری کی سیاست کرنا کوئی اُصول نہیں ہوسکتا۔ 12 مئی (الیکشن کا دن) ہنوز دور ہے، ایم آئی ایم واضح انداز میں یہ پیام دے سکتی ہے کہ اِس مرتبہ کرناٹک میں بی جے پی کو ہرانا ہے جس کی وجوہات اوپر بیان کی گئی ہیں۔ بی جے پی کو ہرانے کا مطلب ہندو پارٹی کو ہرانا نہیں بلکہ کرناٹک اور انڈیا کا عظیم تر مفاد مطلوب ہے۔ ورنہ کانگریس بھی کوئی مسلمانوں کی پارٹی نہیں ہے۔ ایم آئی ایم کیلئے کسی بھی سیاسی و غیرسیاسی معاملہ میں واضح موقف اختیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں‘ سے اس جماعت کا بھلا نہیں ہوسکتا!
irfanjabri.siasatdaily@yahoo.com