ڈاکٹر زینت ساجدہ بحیثیت افسانہ نگار

 

سیدہ نشاط فاطمہ
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر
ترقی پسند تحریک سے گہری وابستگی رکھنے والی ڈاکٹر زینت ساجدہ خواتین افسانہ نگار کی ہم صف میں اپنا ایک ناقابل فراموش مقام رکھتی ہیں۔ ان کا پورا نام خواجہ زینت النساء ساجدہ بانو ہے اور وہ قلمی نام زینت ساجدہ سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ 26 مئی 1924 ء اندرون قلعہ رائچور میں پیدا ہوئیں۔
زینت ساجدہ کی ابتدائی تعلیم نارمل اسکول کاچی گوڑہ میں ہوئی ۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اور اشرف بیابانی کی ’’نو سرہار‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر محی الدین قادر زور، پروفیسر سید محمد ، پروفیسر ابو ظفر، عبدالواحد ، سجاد صاحب ، جہاں بانو نقوی اور جعفری بیگم و غیرہ شامل تھیں ۔ ان بزرگوں سے انہیں فیض یاب ہونے کے مواقع ملے اور ان سے وہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہوئی ۔ ان کی اچھی اور صحت مند اخلاقی قدروں کو انہوں نے اپنایا ، ایک جگہ زینت ساجدہ خود اس بات کا اعتراف کرتی ہیں۔
’’ساتھیوں میں صغراء ہمایوں مرزا، جہاں بانو نقوی ، لطیف النساء بیگم وغیرہ شامل تھیں۔ یہ سب خواتین اس تنظیم کی سرگرم رکن تھیں اور یہ لوگ اپنے مضامین کے ذریعہ ترک رسوم ، کفایت شعاری ، بچوں کی تربیت ، علم کی اہمیت ، لڑکیوں کی تعلیم، ادب سے دلچسپی وغیرہ کی طرف متوجہ کرتے تھے ۔ یہی خواتین تھیں جو حیدرآباد میں جتنی بھی کانفرنسیں ہوتی تھیں ان میں خواتین کی نمائندگی کرتی تھیں، ادبی محفل ہو یا مشاعرے چلمن ڈال کر پردے کا اہتمام کیا جانا تھا ۔ نسوانی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا جاتا تھا اور سماجی اصلاح ان کا مقصد ہوا کرتا تھا ۔ انہی لوگوں کو دیکھ کر ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ یعنی ان ہی لوگوں نے ہمارے لئے زمین تیار کی جس کی وجہ سے آج ہم نے یہ مقام حاصل کیا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر زینت ساجدہ نے 1947 ء سے بحیثیت لکچرر اپنے ادبی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتداء زنانہ کالج کوٹھی میں ان کا تقریر ہوا ۔ اس کے بعد پو سٹ گریجویٹ کالج بشیر باغ، نظام کالج ، ایوننگ کالج اور آخر میں ریڈر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیو رسٹی کی حیثیت سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئیں۔ جب وہ بچوں کو پڑھائی تو انہیں غور سے سنا جاتی نہ صرف سنا جاتا بلکہ ان کے زبان کا نکلا ہوا ایک ایک لفظ طلبہ کے ذہن میں اتر جاتا اور دکن کے چند بہترین اور مشفق اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ طالب علم ان کا شاگرد کہلانا باعث افتخار سمجھتے ۔ ان کا یہ شگفتہ انداز بیان خود ان کی بہن جو شاگردہ بھی رہ چکی ہیں، طیبہ بیگم سے سنیں۔ ’’میر، غالب ، مومن ، حالی اور اقبال جیسے سخن وروں کی خوبصورت غزلیں اور نظمیں جو بذاتِ خود اپنے اندر ایک کائنات سمیٹے ہوئی تھیں۔ زینت آپا کا شگفتہ انداز بیان سونے پر سہاگہ کا کام کرتا تھا ۔ ایک پر کیف ماحول پیدا ہوجاتا ۔ شعروں کی تشریح کرتے ہوئے خود زینت آپا مجسم شعر بن جاتیں۔ ایک ایک مصرعے میں جان سی پڑجاتی اور وہ بولنے گنگنانے لگتا۔ میں مسحور سی سنتی رہتی جیسے میں خود اس کیفیت سے گزر رہی ہوں جو شعر میں پنہاں ہے ۔ کالج کی زندگی کے دوران اور اس کے بعد جو کچھ میں نے لکھا اس میں تب و تاب آپا کی دین تھی ۔ چنانچہ ’’چشم بدور‘‘ کے عنوان سے کالج کے اساتذہ کے جو خاکے میں نے لکھے، اس میں ز ینت آپا کی قلمی تصویریں کھیچتی تھیں۔

’’آپا جب مسکراتیں تو لگتا جیسے ’’تبسم فشاں زندگی کی کلی ‘’ اور پھر جب دیکھے کچھ نیند سی آنکھوں میں بھری رہتی۔ جو پڑ جائے ان کی نظر تو ذرہ بھی چمک اٹھے۔ باریک باریک نکات بھی تشبہوں کی گل کاریوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجائیں ، الفاظ کی رنگینی و شگفتگی ، زبان کی روانی اور آواز کی شیرینی سے محسوس ہوتا ، جیسے کوثر و تسنیم خلدزاروں کے بیچ دھیمے سروں میں نغمہ سنج ہیں‘‘۔
ماہنامہ ’’شہاب‘‘ حیدرآباد میں زینت ساجدہ کا پہلا افسانہ ’’لاٹری‘‘ شائع ہوا ۔اس کے بعد کئی رسائل و جرائد جیسے ’’افکار‘‘ نظام، سب رس، ایوان ، ادبی دنیا میں اکثر مضامین اور افسانے شائع ہوتے رہے۔ افسانوں کے علاوہ مختلف النوع موضوعات پران کی کتابیں جن میں بچوں کیلئے تین کتابیں ’’نگر نگر کی بات‘‘ (بچوں کے لئے ) ’’محب وطن خواتین ‘‘ (بچوں کیلئے) ’’بہادر عورتیں‘‘ (بچوں کیلئے) شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’کلیات شاہی‘‘ (ترتیب کار) ’’تلگو ناول کی تاریخ‘‘ حیدرآباد کے ادیب ، حصہ نثر اول دوم کی ترتیب کار ، ’’تاش کے محل‘‘ (تلگو ناول کا ترجمہ) وغیرہ منظر عام پر آچکے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک افسانوی مجموعہ ’’جل ترنگ ‘‘ بھی شائع ہوا ہے ۔افسانوی مجموعہ ’’جل ترنگ‘‘ میں دس افسانے موجود ہیں۔ جس میں پہلا افسانہ ’’پروانے‘‘ ہیں۔ زینت ساجدہ اپنے افسانے ’’پروانے میں پروانوں کے سنہری ڈھیر کو ایک مختلف زاویہ سے دیکھتی ہے۔ بے حد جذباتی انداز میں یاد ماضی کے اوراق کو کریدنے والا یہ افسانہ قاری کے ذہن کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ان کے افسانوں میں’’کھلاڑی‘‘ بی بی، کنل رانی، یونیورسٹی روڈ پر ، شاہزادی ، مذاق ، پاور ، بجھتا ہوا شعلہ اور آخری لمحہ ‘‘ شامل ہیں۔

افسانہ ’’شاہزادی‘‘ میں اس کا کردار عجیب و غریب ہے۔ یہ عورت عام بیویوں سے الگ معلوم ہوتی ہے ۔ اس میں رقابت نام کی کوئی چیز ہی نہیں اظار (ہیرو) ایک ہنگامہ پرور زندگی کا خواہشمند ہے تو شاہزادی (ہیروئن) حالات سے سمجھوتہ کرنے والی ایک سیدھی سادی لڑکی کی جو اپنے شوہر کی برائیوں کو بڑائی میں سمجھتیں اظہار شاہزادی کو اس سے کوئی شکایت نہیں۔ خطوط پڑھنے کے بعد بھی اس پرکوئی اثر نہیں ہوتا۔ زینت ساجدہ نے شاہزادی کو ایک دیوی بناکر پیش کیا ہے۔ جو صرف محبت کرنا جانتی ہے جس کے پاس صرف خلوص ہے۔
زینت ساجدہ کی زبان سادہ سلیس اور دل نشین ہوتی ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے وہ زبان کا استعمال کرتی ہیں ۔ جس سے ان کے مافی الضمیر کی بھرپور عکاسی ہوجاتی ہے ، یہ اور قاری کسی الجھن میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں قدیر امتیاز نے مندرجہ بالا رائے قائم کی ہے۔

’’روز مرہ محاورے اور ضرب المثال کے معاملے میں زینت ساجدہ نے احتیاط اور سلیقہ مندی سے کام لیا ہے اور کہیں تحریر کو بوجھل ہونے نہیں دیا ۔ وہ الفاظ کی نزاکتوں کاخیال رکھتی ہیں۔ان کے محاورے موقعہ کی نزاکت کے لحاظ سے چست ہیں۔ محاوروں کے استعمال کے سلسلے میں زینت ساجدہ کی ذہانت اور سلیقہ کا قائل ہونا پڑتاہے ۔ یہی ذہانت وہ ان موقعوں پر بھی دکھاتی ہیں جہاں وہ کم کم کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ جاتی ہیں‘‘
زینت ساجدہ ایک صاصلاحیت افسانہ نگار بلند پایہ ادیبہ ، دیانتدار محقق، مورخ ایک متواز نقاد اور سلجھی ہوئی طنز نگار کی حیثیت سے بھی منفرد مقام کی حامل ہیں۔
زینت ساجدہ کے افسانوں کا سب سے بڑا وصف ان کا دلنشین انداز بیان ہے ۔ ان کا اسلوب بیان رواں اور شگفتہ ہے ۔ ان کے مجموعے ’’جل ترنگ‘‘ کے سارے افسانوں میں آپ بیتی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ یہ افسانے مختلف تجربوں کا حامل ہے۔ زینت ساجدہ اپنے افسانوں سے متعلق ایک جگہ رقمطراز ہیں ۔ ’’جل ترنگ‘‘ کی ساری کہانیاں سچی ہیں۔ صرف افسانوی مبالغے سے میں نے کام لیا ہے۔ ان کہانیوں کے سارے کردار زندہ موجود ہیں‘‘
غرض ڈاکٹر زینت ساجدہ کے ا فسانے حیدرآباد کے مخصوص لب و لہجہ اور مکالموں کی بناء پر انفرادیت رکھتے ہیں اور انہوںنے افسانہ نگاری کے فن کو اس کے ضروری لوازات کے ساتھ اپنی منفرد طرز نگارش اور خوبصورت تکنیکی انداز کا اہتمام کر کے اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں ممتاز مقام حاصل کرلیا ہے۔