حضرتِ منجو قمر

سعید حسین
منجو قمر بیک وقت شاعر، ڈرامہ نگار، ڈائریکٹر اور موسیقار۔ وہ ہمہ جہت شہسوار تھے اور ہر فن میں کامل تھے۔ موسیقی میں انہوں نے نئی نئی دھنیں ایجاد کیں۔
بخشش کا آسرا ہے گناہوں پہ بھی قمرؔ
مداح ہوں جناب رسالت مآب کا
منجو قمر مشاہیر کی نظر میں  :  1937ء منجور قمر کا مشہور ڈرامہ ’’آفتاب ِدمشق جو اکسیلیسر؍تھیٹریکل کمپنی نے حیدرآباد میں حضور نظام کی جشن سیمیں تقاریب ’’سلور جوبلی تقاریب میں پیش کیا گیا اس کی ڈاکیومنٹری فلم بھی بنائی گئی تھی۔ منجو قمر نے اس ڈرامہ کو اپنے ہی قصیدہ کی موسیقی دے کر ریکارڈ کروایا تھا اور اس کا منظر نامہ بھی لکھا اور اپنی ہی آواز میں کامنٹری دی۔ اس ڈاکیومنٹری کو عوام اور خواص کے علاوہ حضور نظام نے بھی بے حد پسند کیا اور منجو قمر کو کنگ کوٹھی ایوارڈ کی سند اور ایک بے حد قیمتی گھڑی بھی عنایت کی گئی۔
’’شنکر کوجئے کشن تک پہنچانے والے حضرت منجو قمر ہیں، فلمی دنیا کے مشہور ایکٹر اور مغل اعظم کے اکبر اعظم پرتھوی راج کپور کے منجو قمر سے بہت اچھے دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ منجو قمر ہی کی سفارش پر پرتھوی راج کپور نے شنکر کو جئے کشن کے ساتھ فلمی دنیا میں متعارف کروایا‘‘۔طنز و مزاح کے ممتاز شاعر طالب خوندمیری صاحب نے اس شعر کے ذریعہ آپ کا تعارف کروایا۔
بہت اونچا تھا قد ان کے ہنر کا
وہ اپنے جسم کے باہر کھڑے تھے
’’پروفیسر ڈاکٹر رحمت یوسف زئی فرماتے ہیں، شاعر کی حیثیت سے انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کا سہرا نواب بہادر یار جنگ کے سر جاتا ہے۔‘‘محمد علی جناح نے نواب بہادر یار جنگ سے کہا کہ مجھے ایک اچھا P.A چاہئے، تو نواب صاحب نے منجو قمر کو جناح کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ ’’حیدرآباد کا کوہ نور ‘‘ہے۔فلم ’’پکار‘‘کی سلور جوبلی تقریب میں سہراب مودی نے اپنے فنکاروں کا تعارف انگریزی میں منجو قمر سے کروایا۔ اس تقریب میں حیدرآباد کے ریذیڈنٹ اور دوسرے انگریز عہدیدار اور ان کے افراد خاندان شریک تھے۔
ڈاکٹر حبیب نثار شعبۂ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی، منجو قمر کے تعارف میں فرماتے ہیں…’’سید منجو قمر کے فن کی ان مختلف ابعاد پر روشنی ڈالنے کے بعد رنگ منچ کے اس حیدرآبادی پرستار کی صلاحیتوں کے اعتراف میں مومن پر ایمان لاکر کہنا پڑتا ہے۔
اس عزت ناپید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
منجو قمر کا پورا نام سید نجی اللہ یداللہنی 2؍نومبر 1909ء کو چن پٹن میں پیدا ہوئے، والد کا نام سید موسیٰ یداللہنی تھا۔1928ء چنپٹن میسور سے میٹرک کامیاب کیااور 1928ء ہی میں ملازمت کے لئے حیدرآباد آئے اور جنوری 1929ء میں دفتر رجسٹرار برائے رجسٹریشن آف کمپنیز میں ملازمت اختیار کی اور 1975ء تک اسی محکمہ سے وابستہ رہے۔ 10؍دسمبر 1931ء میں شادی کی۔ ان کی اولاد میں 9 فرزندان اور 4 دختران شامل ہیں۔ 8؍اگست 1983 میں اس دارِ غرور سے دارِ سرور کے مسافر ہوگئے۔
1955ء میں ’’نورنگ‘‘ افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا اور پہلا مجموعہ کلام تجلیات قمر کے نام سے 1963ء میں شائع کیا۔ اردو اصناف میں نئی صنف ’’عکسانہ‘‘ کو متعارف کیا۔ جملہ 33 ڈرامہ لکھے اسٹیج پر بھی پیش کیا اور شائع بھی کیا۔ آپ کے کئی ڈرامہ نصاب تعلیم میں بھی شامل کئے گئے۔ حیدرآباد کی دو جامعات نے حیات اور ادبی کارناموں پر مقالے لکھوائے۔ ڈرامہ بہادر شاہ ظفر پر سائتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کئے گئے۔ یہی ڈرامہ ریڈیو ڈرامے کی تاریخ میں عالمی ریکارڈ رکھتا ہے۔ آپ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر ممتاز مہدی نے 2003 میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کی سرپرستی میں لکھ کر سند حاصل کی جس کا عنوان تھا ’’اردو ڈرامہ کے فروغ میں منجو قمر کا حصہ‘‘ جس کو 2005 میں شائع کیا گیا۔اس مقالہ میں حضرت سید منجو کی تین غیر مطبوعہ تخلیقات کو متعارف کروایا گیا۔
1)    ’’شبستان قمر ‘‘(خود نوشت) روزنامچہ (ڈائری) ۔
2)    ’’رنگ و رباب‘‘ (مجموعہ کلام)
3)    ’’ہمارا نہرو‘‘ (ڈرامہ)
منجو قمر نے بہت ہی کم عمر سے ہی فنون لطیفہ میں اپنی مہارت کے مظاہرہ کا آغاز کردیا تھا۔ دوران تعلیم ہی ان کی شاعرانہ صلاحیتیں اور موسیقی پردرک کے علاوہ اداکارانہ صلاحیتیں اجاگر ہوچکی تھیں۔موصوف میں بچپن ہی سے فنی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں۔حیدرآباد میں 1928ء میں آمد کے بعد منجو قمر نے سب سے پہلے حضرت سید عبدالکریم نور (جانشین حضرت توفیق حیدرآبادی) سے اصلاح لی۔ ان کے بعد حضرت سید علی منظور، حضرت علی اختر اور علامہ نجم آفندی کو اپنا کلام بغرض اصلاح دکھایا۔
نواب بہادر یار جنگ کے ہاں سے عالیشان رقعہ بعد عصر چائے نوشی کی دعو ت کا ملا۔ رقعہ پر نوٹ لکھا تھا ، ’’اپنی بیاض بھی لیتے آئیں‘‘ وقت مقررہ پر منجو قمر، نواب صاحب کی دیوڑھی پہنچے تو دیکھا، شاندار انتظامات ہیں، آپ کا استقبال خوب ہوا۔ شہر کے تقریباً سبھی شعراء مدعو تھے۔ پرُتکلف  عصرا نے کے بعد تمام شعراء سے خواہش کی گئی کہ منجو قمر کا کلام سماعت فرمائیں۔ حضرت نظم طباطبائی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ منجو قمر کے کلام اور ترنم کی خوب واہ واہ ہوئی۔ نواب صاحب نے سب کے جانے کے بعد منجو قمر سے کہا : ’’مرشد زادے! اس طرح ایک اچھے شاعر کا تعارف ہونا چاہئے۔‘‘منجو قمر کی خوشی کی انتہاء نہ رہی۔منجو قمر نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ 1932 میں پڑھا جس کی صدارت علامہ نظم طباطبائی نے کی تھی۔ یہ مشاعرہ نظام کالج کے سالانہ جلسہ کا ایک جز تھا۔ غزل کا مطلع پڑھا اور منجو قمر نے سارا مشاعرہ لوٹ لیا۔
کعبہ جانا نہ تیرے گھر کو کلیسا جانا
پھر ترے جاننے والے نے تجھے کیا جانا
منجو قمر کے طبع شدہ سبھی ڈرامے، تجلیات قمر اور ’’رنگ و رباب‘‘ کا شعری مجموعہ اس بات کے غماز ہیں کہ منجو قمر کی شاعری میں شاعرانہ کمال بہت ہی نکھار کے ساتھ ملتا ہے۔ شاعر نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد نعت، منقبت، غزل، گیت، مخمس، ٹھمری، بھجن یا رقص کے بول (Notation) سبھی اصناف سخن آپ کے کلام میں موجود ہیں۔ روانی، سلاست آپ کے کلام کا خاصہ ہے۔ آمد کا یہ عالم کہ ایک ہی نشست میں طویل سے طویل نظم قلمبند کردیتے تھے اس کے باوجود کبھی اپنی شاعری کو باعث افتخار نہ سمجھا لیکن ایک بہت بڑی تعداد میں اپنی شاعری کے مداح چھوڑے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی انہوں نے احباب کی فرمائش پر احباب کو مایوس نہیں کیا۔ حتی کہ محلہ کے بے روزگار نوجوانوں کو مستقلاً اپنا کلام ’’مفت‘‘ عنایت کرتے تھے۔ جسے وہ مشاعروں میں پڑھنے کے علاوہ ریڈیو اسٹیشن میں ریکارڈ کروایا کرتے۔
’’رنگ و رباب‘‘ میں جشن سیمیں کے موقع پر لکھا گیا شاہکار قصیدہ (جو منجو قمر کی اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہے) شامل ہے۔ اس وقت منجو قمر کی عمر عزیز اٹھائیس سال رہی ہوگی۔ چن پٹن سے حیدرآباد ہجرت کے  دو تین سال کی جدوجہد میں ہی انہوں نے اپنی فنکارانہ عظمت کے جھنڈے گاڑھ دیئے تھے کہ 1932ء میں شاہکار ڈرامہ ’’آفتاب دمشق‘‘ اسٹیج ہوچکا تھا، بحیثیت آپ کو ہیرو منتخب کرلیا تھا۔ ایک فلم کے چار گیت میں لکھ چکے تھے۔ بمبئی ٹاکیز والوں نے بحیثیت ہیرو منتخب کرلیا تھا۔ ان کے پاس دوسرے نمبر پر اشوک کمار تھے۔ آپ نہ گئے اور اشوک کمار کو موقع مل گیا۔ 1932ء کے بعد ہی وہ ملک گیر شہرت کی حامل شخصیت بن چکے تھے۔’’ملت‘‘ (بنگلور) ’’مشورہ‘‘ (آگرہ) ’’شاعر‘‘ ، ’’صبح امید‘‘ (بمبئی) ’’درماں‘‘ (بنگلور) ’’نور حیات‘‘ ، ’’محقق‘‘ ، ’’تصدیق‘‘ ، ’’المصدق‘‘ اور ’’البصیر‘‘ (حیدرآباد) جیسے ماہناموں کے علاوہ روز نامہ ’’سیاست‘‘ میں منجو قمر کی شعری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔
’’رنگ و رباب‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سلجھے ہوئے شاعر نے گذرتے لمحات کو صفحہ قرطاس پر قید کرتے ہوئے سلسلہ شب و روز کے وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر طبع آزمائی کی ہے۔ حمد، نعت، منقبت کے ساتھ ساتھ مشاہیران ادب، اہل فن اصحاب اور بزرگان دین کے علاوہ دوست احباب کو خراج عقیدت ادا کیا ہے۔کلاسیکی ادب کے شیدا، تاریخ اور فنون لطیفہ کے گہرے مطالعہ کے نتیجے میں منجو قمر نے صنف ڈرامہ پر دسترس حاصل کی۔ ’’رنگ و رباب‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کائنات کے ہر موضوع پر نظمیں لکھی ہیں۔ ’’تنکے کی پکار‘‘ نظم کے مطالعہ کے دوران علامہ اقبال کی نظم ’’شعلہ و جگنو‘‘ کی یاد آتی ہے۔ علامہ اقبال عظیم مفکر شاعر تھے۔ منجو قمر ایک عظیم ڈرامہ نگار بلندی فکر رکھنے والے شاعر تھے۔انہوں نے اپنی جولانی فکر کی نگاہ سے تنقیدی شاعرانہ پرواز کے ساتھ کائنات کے ہر موضوع کو نشانہ بنایا۔ ان کی نظموں کے عنوانات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں زندگی سے پیار تھا۔ زندگی کی مسرتوں سے عشق تھا،انسانیت سے عشق تھا، انہی خیالات کو انہوں نے نظموں میں موزوں کیا ہے اور شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر فنکار کی ترقی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ منجو قمر کے کلام کے مطالعہ سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ ان کے اندر موجود فنکار کو بنانے اور سنوارنے میں ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ مہربانو صاحبہ مرحومہ کا بڑا عمل دخل تھا۔ ازابتداتا انتہاء ان کا فن نکھرتا ہی گیا۔ یہ سچ ہے کہ ان کا دل کائنات کی ہر شئے سے حسن مستعار لیتا تھا جسے وہ اپنے کلام میں بیان کرتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی دنیا سے دنیا داری سے سروکار نہ تھا، وہ ایک مست مطمئن فنکار تھے، انہیں سچائی سے پیار تھا، فن کی سچائی سے جس میں ساری کائنات اسیر معلوم ہوتی ہے۔ اسی سچائی کی وجہ سے وہ ’’دل بے مدعا‘‘ رکھتے تھے، کہتے ہیں…
دنیا کے طالبوں کو مبارک ہو مال و زر
بس ہے قمرؔ یہی دل بے مدعا مجھے
مذہبی اقدار منجو قمر کے کردار میں رچ بس گئے تھے گو ان کا اظہار بڑے محتاط انداز میں کرتے تھے۔ زاہد ان خشک کو پسند نہیں کرتے تھے، فرماتے ہیں
زاہد غرور زہد سے تیرے خدا بچائے
بخشائے گی ندامتِ جرمِ خطا مجھے
بندہ نواز کیا ہو تیرے دین کا بیان
شرمندہ کرگئیں تری بندہ نوازیاں
ہر لمحہ ساز ہستی سے آتی ہے یہ صدا
ہر سانس میں نہاں ہیں تیری سرفرازیاں
منجو قمر نے ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے ۔پروفیسر رحمت یوسف زئی کہتے ہیں آغا حشر کی طرح آپ کا نام اردو ڈرامہ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ لیکن ان کی علمی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا۔ وہ کہتے ہیں شاعری اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چونکہ منجو قمر کو موسیقی سے بے پناہ لگاؤ تھا اسی لئے شاعری بھی ان کی روح میں بسی ہوئی تھی۔منجو قمر کے مجموعہ کلام ’’رنگ و رباب‘‘ کی اشاعت کے سلسلہ میں ’’ڈاکٹر حبیب نثار، شعبۂ اردو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی فرماتے ہیں ’’رباب‘‘ جب رنگ پر آتا ہے تو آسمان سے تارے توڑلاتا ہے اور رنگ و رباب کی سنگت کائنات کی ہر شئے کو رقص پر مجبور کردیتی ہے۔ سید منجو قمر کی ادبی شخصیت کی کئی جہتیںہیں اپنے ڈراموں پر جو مقدمہ لکھے ہیں انہیں پڑھنے کے بعد ان کی تحقیقی تنقیدی اور مورخانہ صلاحیتوں کا اعتراف ان کا سخت سے سخت مخالف بھی کرنے پر خود کو مجبور اور بے بس پاتا ہے۔
’’پروفیسر مغنی تبسم رقمطراز ہیں ’’منجو قمر دیگر موضوعات پر جو نظمیں لکھی ہیں ان میں مشاہدہ کی گہرائی، تخئیل کی ندرت اور خیال کا اچھوتا پن قاری سے داد طلب کرتا ہے۔ ’’مفلس کی ’’منکوحہ عورت‘‘ اداکارہ ’’تنکے کی پکار‘‘ ہدایت کارخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ غزل کے فنی محاسن سے اچھی طرح واقف تھے۔ منجو قمر کے طبع شدہ سبھی ڈرامے ’’تجلیات قمر اور ’’رنگ و رباب‘‘ کا شعری مجموعہ اس بات کے غماز ہیں کہ منجو قمر کی شاعری میں شاعرانہ کمال بہت ہی نکھار کے ساتھ ملتا ہے۔ ذیل میں ان کے غزل کے چند اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں…
میں بھی بسمل ہوں وہ بھی بسمل ہے
کوئی بتلائے کون قاتل ہے
ایک بت کافر سے الفت ہوگئی
زندگی تھی تلخ راحت ہوگئی
تھی جہنم خیز دنیا اے قمرؔ
مسکرائے وہ تو جنت ہوگئی
دل کے دینے کو چاہئے دل بھی
میری ناہید یہ میرا دل ہے
ابن ذر ہو تو ہے حیوان سے بدتر انسان
حاجتِ زر پہ ہو قابو تو ابوذر انسان
جب نقاب رخ ہٹالی جائے گی
عشق کی بنیاد ڈالی جائے گی
بس اب اتنا کرم مجھ پر جمال یار ہوجائے
جدھر میری نظر اٹھے ترا دیدار ہوجائے
تو ایک بار میری نظر میں سما جا
فنا تجھ میں ہو کر بقا چاہتا ہوں
سکون دل بھی ہو اور آنکھ کو خطا بھی نہیں
تو اس کا نام جوانی میرے حضور نہیں
حرج ہی کیا ہے جو ہوجائیں بند میخانے
تری نظر کے پیالوں میں کیا سرور نہیں
ہر طرح ان کی بزم میں جانا ضرور تھا
جب پاؤں ڈگمگائے  تو ہم سر کے بل گئے
نگاہ میری جھکے اس کے روبرو کیا خوب
جبیں تھی جس کی کبھی اور آستاں میرا
تم کو دیکھا تو نظر آئی خدا کی قدرت
ورنہ سمجھے تھے کہ حسن بیاں کچھ بھی نہیں
دیکھی ہے جب سے چھپ تیرے حسن جمال کی
دنیا بدل گئی میرے خواب و خیال کی
یہ میرے بھاگ ہیں کہ تیری آرزو ملی
تو جب ملا وقار ملا، آرزو ملی
منجوقمر بیک وقت شاعر ڈرامہ نگار، ایکٹر، ڈائریکٹر اور موسیقار تھے۔ وہ ہمہ جہت شہسوار تھے اور اپنے فن میں کامل ورک رکھتے تھے۔ آپ نے موسیقی میں نئی نئی دھنیں ایجاد کیں۔اردو ادب کی تاریخ گواہ ہے۔ راگ راگنی پر بہت سے لوگوں نے قلم اٹھایا ہے۔ حضرت امیر خسرو سے عصر حاضر تک کئی شاعروں نے اس جانب توجہ دی لیکن منجو قمر نے موسیقی پر ورک کے ساتھ نشاندہی کی کہ کتنی راگ راگنیاں ہیں اور ان میں کتنی مستعمل ہیں اور کتنی متروک ہوچکی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جتنی راگ راگنیوں پر انہوں نے نظمیں لکھی ہیں کسی اور اردو کے شاعر کے ہاں کم ملتی ہیں۔
منجو قمر نے اپنے ڈرامے ’’ہمارا پرچم‘‘ اور ’’ہمارا فرض‘‘ میں اداکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ موسیقی ترتیب دی تھی بعد میں ڈراموں کی پیش کشی کے لئے باضابطہ ادارہ قائم کیا۔ اس ادارہ کا نام بزم اداکاران رکھا۔ اس ادارہ کے تحت ’’پینے کے بعد‘‘ ’’ہٹلر کی تمنا‘‘ اور ’’شبنم‘‘ ڈرامے زمرد محل ٹاکیز اور ساگر ٹاکیز کے رنگ منچ سے پیش کئے ان ڈراموں کی ہدایت کاری کے علاوہ موسیقی بھی ترتیب دی۔ آخر میں ’’مدمدت سا رنگ‘‘ میں یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے۔
آنچل جو ان کے شانوں پہ لہرا کے رہ گیا
پہلو میں میرے دل میرا تھرا کے رہ گیا
نظریں بچا کے یار کی میں دیکھتا رہا
نظریں اٹھائیں اس نے تو گھبرا کے رہ گیا
گذری ہے میری زندگی رنگ و رباب میں
کیا کیا نہ دیکھیں محفلیں دور شباب میں