اردو غزل میں حسرت موہانی کی انفرادیت

محمد سرور علی افسر
غزل اپنی تعمیر و ترکیب کے اعتبار سے نہایت خوشگوار امتزاج کی متقاضی ہے لفظ و معنی کا حسین و لطیف پیوند جذبے کی سچائی اور غنائی کیف ، خون جگراور لطف نظر کا امتزاج ایک خاص قسم کی نغمگی اور موسیقیت یہ سب ایک اعلی غزل کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اردو غزل نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی ہے جبکہ وہ عشق و محبت کی داستان سنانے کیلئے مجبور تھی ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج اردو غزل اپنے جلو میں اتنی وسعت رکھتی ہے جتنی وسعت کائنات خود اپنے اندر رکھتی ہے ۔ غزل اپنی رنگینی مٹھاس اور اپنے البیلے پن کے سبب ہمیشہ ہی سے ہردلعزیز رہی ہے ۔ اردو غزل شاعری کی آبرو ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی روح بھی ہے ۔ بقول شخصے ’’اگر غزل ہے تو اردو ہے اور غزل نہیں تو اردو بھی نہیں‘‘ ۔ تاریخ اردو ادب کی روشنی میں دہلی اور لکھنؤ کا فرق تقریباً ختم ہوچکا تھا ۔ لکھنؤ میں رنگ دہلی کی تقلید کے بجائے سوز و گداز ۔ مرثیت اور بین و بکاہ کا انداز پیدا ہوگیا تھا ۔ حسرت موہانی نے اس فضا کو بدل کر اردو غزل کو تغزل کے صحیح رنگ سے آشنا کیا ۔ سچے جذبات کو غزل کی زبان میں بغیر کسی تکلف اور تصنع کے ادا کیا ۔ خواجہ احمد فاروقی کے خیال میں ’’حسرت کی جنسی شاعری میں ایک تقدس اور طہارت ہے جسکی مثال اردو شاعری میں بہت کم ملتی ہے‘‘ ۔ حسرت نے اردو غزل کی حزنیہ لئے کو بدلا اور غزل کے اشعار کو مریضانہ غم پرستی سے بچایا ۔ انھوں نے فطری جذبات کا اظہار ایک نشاطیہ انداز میں کیا ۔ ان کے یہاں حسن و عشق کا تصور روایتی اور فرسودہ نہیں ہے ۔حسرت کی زبان بلاشبہ لکھنؤ کی معیاری زبان ہے ۔ اور ان کا تغزل دہلی کا صحیح اور سچا تغزل ہے ۔ خود انھیں بھی اس بات کا احساس تھا ۔ ملاحظہ فرمایئے!

ہے زبان لکھنؤ میں رنگ دہلی کا نمونہ
تجھ سے حسرت نام روشن شاعری ہوگیا
حامد حسن قادری کے الفاظ میں ’’حسرت کے کلام میں صحیح تغزل جو دہلی کا اصل طرز ہے ، نہایت اعلی ہے ۔ صحیح جذبات اور واردات ، خوش و شوق ، لطافت بیان ، جدت بیان ، سب کچھ نہایت دلکش موثر شکل میں موجود ہے‘‘ ۔ بیسویں صدی میں جب غزل کے جدید رنگ کا آغاز ہوا تو جن شعراء نے غزل کو لطافت ، بلندی اور صحیح تغزل سے آشنا کیا ان میں حسرت کا نام سرفہرست نظر آتا ہے ۔ حسرت نے اپنے اشعار میں مومنؔ و نسیمؔ کے علاوہ غزل کے ہر ممتاز شاعر کے چراغ سے چراغ جلانے کی کوشش کی ہے ۔اردو غزل میں ایک ایسی تحریک کی ابتداء ہوتی ہے جو عبادت بریلوی کے الفاظ میں ’’انگریزی کی رومانی تحریک سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے‘‘ ۔ حسرت کے ساتھ جو عشقیہ تصور غزل میں داخل ہوا وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ صحت مند حقیقی اور صالح تھا ۔ حسرت نے عشقیہ شاعری کی رگوں میں تازہ اور توانا خون دوڑایا جس کے فیض سے غزل کے اندر ایک متوازن ارضیت کی ابتداء ہوئی ۔ حسرت نے پہلے عشق کے تصور میں صالحیت اور تعمیری عناصر خال خال ہی نظر آتے تھے ۔ لیکن حسرت کی عشقیہ شاعری میں عشق کی سپردگی ، والہانہ پن اور جگمگاہٹیں ہیں۔ جو ان کے ارتقائے خیال اور پاکیزگی ذہن کی غمازی کرتی ہیں ، ان کے یہاں عاشقی ایک صحیفہ یا معیار اخلاق کا درجہ رکھتی ہے ۔ وہ وضع پارسا اور عشق پاکباز کے قائل تھے ۔

دیار شوق میں برپا ہے اب تک ماتم حسرت
وہ وضع پارسا! اس کی وہ عشق پاکباز اس کا
انھوں نے خصوصیت کے ساتھ غزل کو نئے اور اچھوتے تصور سے آشنا کیا ۔ حسرت نے انسانی زندگی میں عورت اور اس کے حسن کی اہمیت کو محسوس کیا ہے ۔ ان کا محبوب وہی ہے عورت ہے جس کے دم سے زندگی میں رنگینی ، ان کے یہاں عورت کا حسن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ملتا ہے ۔ انھوں نے اس کے حسن کی ہر ادا کو شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں کہیں محبوب کے حسن گلابی کا ذکر ہے تو کہیں اس کی نیم خوابی کا بیان ہے تو کہیں اس کے رنگ کو بیان کرتے ہیں اور کہیں اس کی شوخیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ الغرض اپنے اشعار میں اس سلسلے کی ساری تفصیلات کو پیش کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دانتوں میں انگلی دبانے ، دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں کوٹھے پر ننگے پاؤں آنے ۔ راہ میں ملنے لیکن اپنا ہونٹ کاٹ کر جدا ہوجانے اور اس طرح کی نہ جانے کئی باتوں کی بڑی رنگین اور زندگی سے بھرپور تصویریں حسرت کی غزلوں میں ملتی ہیں ۔ ملاحظہ فرمایئے ۔
حسن بے پروا کو خود بیں و خود آرا کردیا
کیا کیا میں نے کہا اظہار تمنا کردیا
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوق کو مجبور حیا دیکھا ہے
حسرت انسانی زندگی کے نفسیاتی اسرار و رموز کی ترجمانی بڑی خوبصورت کے ساتھ کرتے ہیں ، جس کے نتیجہ میں ان کی غزلوں میں ایک عمومی اور آفاقی رنگ پیدا ہوگیا ہے ۔ حسن و عشق کی صحت مند اور صحت بخش فضا جس کو حسرت نے قائم کیا ہے وہ جدید اردو غزل کا سب سے بڑا سرمایہ کہلاتا ہے ۔ حسرت کو بندشوں کی چستی ، لفظوں کی نشست اور استعاروں کی جدت میں بڑا کمال حاصل ہے ۔ ان خوبیوں کو پیش نظر رکھ کر انھیں غزل کا امام کہنا مبالغہ نہ ہوگا ۔ خاص طور پر حسرت نے غزل میں ایک نئی لے چھیڑی ہے جو ان کی انفرادیت کی روشن مثال ہے ۔

جذبہ عشق کدھر کو لئے جاتا ہے مجھے
پردہ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے
حسرت کے یہاں خیال یار میں بھی رنگ و بوئے یار کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جو عشق شیریں کار کا کرشمہ ہے ۔
خیال یار میں بھی رنگ و بوئے یار پیدا ہے
یہ رنگین ماجرا اے عشق شیریں کار پیدا ہے
حسرت نے اپنی مشہور غزل میں اپنی عاشقانہ زندگی کی ابتداء کا حال اور اس کی یادیں بیان کی ہیں جس کا مطلع ہے ۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
یہ پوری غزل یادوں کی آئینہ دار ہے ۔ آخر میں یاد کے موضوع پر ان کی ایک اور غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمایئے۔
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں
نہ چھیڑ ائے ہم نشین کیفیت صہبا کے افسانے
شراب بے خودی کے مجھکو ساغر یاد آتے ہیں
بعض ناقدین انھیں ’’یادوں‘‘ کے شاعر سے بھی مخاطب کیا ہے ۔ حسرت کی شاعری میں ارضیت کا احساس نمایاں طور پر عیاں ہے ۔ یہ اردو کی عشقیہ شاعری کو ان کی سب سے بڑی دین ہے ۔ ان کی عشقیہ شاعری میں محبت کی ناکامیاں اور نامرادیاں نہیں ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کے ہر ہر مرحلے پر کامیاب شوق رہے ہیں اسی وجہ سے ان کی شاعری میں نشاطیہ رنگ قدم قدم پر جھلکتا ہے ۔ اس اعتبار سے حسرت جدید اردو غزل گوئی کے پہلے معمار کہے جاسکتے ہیں ۔