جمعیت ممتا حکومت سے ناراض کیوں ہے۔

کلکتہ۔ کل ہند متحدہ ڈیموکرٹیک فرنٹ( اے ائی یو ڈی ایف) لیڈر اور صدر جمعیت العلماء ہند صدیق اللہ چودھری ممتا بنرجی کی کابینہ میں شامل کئے گئے تاکہ بنیاد پرست طاقتوں پر قابو رکھا جاسکا ‘ ان دنوں وہ ناراض چل رہے ہیں۔ عوامی سطح پر نندی گرام اراضی تحریک میں جمعیت کے رول کے متعلق ممتا کو یاددلایا‘ جس کے متعلق ممتا کی کابینہ کے کسی بھی شخص نے اس طرح کی ہمت نہیں کی۔

یہی کافی تھا ممتا کے لئے وہ گئی اور نقصان کااعادہ کرتے ہوئے بھروسہ دلایاکہ عوام میں ان باتوں کولے جانے کے بجائے پارٹی کے اندر ہی تمام معاملات کو حل کرلیاجائے گا ۔ مگر صدیقی کیو ں ناراض ہیں؟اس کی بنیادی وجہہ ترنمول کانگریس ( ٹی ایم سی ) حکومت کا ہندورائے دہندوں کی طرف بڑھتا رحجان ہے۔

بی جے پی سے مقابلے کے لئے ممتا ہندو کارڈ کااستعمال کررہی ہے اور ممتا کا یہ ہندوتوا وار میناریٹی طبقے کے کچھ لوگو ں کی ناراضگی کا سبب بن رہا ہے۔ حالانکہ ریاست میں عوامی بغاوت کے کوئی اثار نہیں تھے۔

بشیرت میں2017کے فسادات کے بعد ممتا کو بنیاد پرستوں نے دھمکی دی تھی کہ ان کی خاموشی کو کمزور ی نہ سمجھیں۔شمال کے چوبیس پرگاناس کے علاوہ بشیر ت علاقے میں بڑے پیمانے پر ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن ہورہا ہے جس کا فائدہ بی جے پی اٹھانی کی کوشش بھی کررہی ہے ۔

دباؤ میں ٹی ایم سی لیڈر حاجی نورال بشیرت کے سابق رکن پارلیمنٹ جن پر 2010کے دینگانگا فساد بھڑکانے کا بھی الزام ہے کو مرشد آباد سے الیکشن لڑایا گیا۔ وہ الیکشن ہار گئے اور 2016میں انہیں24پرگاناس نارتھ سے ایم ایل اے ٹکٹ پر مقابلہ کرایاگیا۔ممتا بطور چیف منسٹر دونوں طرف توازن سنبھالے ہوئے ہے اور بی جے پی اپنے ہی کھیل میں پھنستی ہوئی نظر آرہی ہے ۔

مغربی بنگال ایک سکیولر ریاست ہے اور بنگالی لوگ ان کی سیاسی مفادات کو دیکھتے ہیں مذہبی نہیں۔ بلاک سطح پر ہندو ووٹ کا پولرائزیشن یہاں پر ممکن ہیں ہے اور اس بات کے احساس کے ساتھ ممتا بھی جزوی طور پر ہندوتوا کو اپناتے ہوئے مذہب کی بنیاد پر سیاست کو درکنار کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔

ایک وقت ایسا بھی جب ممتا کو اقلیتی طبقے کی اؤ بھگت کے نام پر گھیرنے کی کوششیں کی گئی جب ممتا نے سنسکرت کے شولوک اور گائتری منتر پڑھناشروع کردیاتاکہ وہ اپنے دعوی میںیہ بات ثابت کرسکے کہ ممتا ایک برہمن خاندان کی ہیں۔ممتا کے یہی اقدام مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔

خوف اس بات کا ہے کہ ترنمول کے حق میں محض سات فیصد مسلم ووٹوں کی حصہ داری نے 34سال کے بائیں بازو اقتدار کو شکست فاش کردیا۔

او راگر حکومت مسلم سماج کے مطالبات کو نظر انداز کرتی ہے تو یہ ساتھ طویل مدت تک نہیں چلے گا۔ٹی ایم سی کی جانب سے رام نومی او رہنومان جینتی منانے کے ممتا کے اعلان نے اقلیتی طبقے کو چونکا دیا۔ پچھلے سال بی جے پی کی رام نومی تقاریب نے غیر بنگالی رائے دہندوں کے پارٹی کو مقبولیت دلائی۔ اسی وقت ٹی ایم سی نے اس کھیل میں کود کر سب کچھ ختم کردیا۔

اس سال پارٹی کے سبھی سینئر قائدین سڑکوں پر اترے اور رام نومی تقاریب کا انعقاد عمل میں لائی ۔ اس کے مقابلے میں بھگوا پارٹی اپنی طاقت کا مظاہرہ اور ہتھیار چمکانے میں مصرو ف رہ گئی۔ٹی ایم سی لیڈر کے مطابق جمعیت کو خوف تھا کہ ٹی ایم سی بی جے پی کے راستے پر چلے جائے گی ۔

صدیق اللہ کو پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنے پارٹی انتظامیہ سے کہیں کہ اقلیتی طبقے کے لوگ برسراقتدار پارٹی کے موقف سے ناراض ہیں اور وہ تقسیم ہوسکتے ہیں۔ صدیق اللہ اس بات کو کہنے میں ناکام رہے۔

وہ انتظار کررہے تھے کہ ان 34ساتھیوں کو دیہی کونسل انتخابات کا ٹکٹ مل سکے۔ وہ اپنی سربراہ کی توجہہ حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے۔ اب صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیاتھا کہ جب لفٹ فرنٹ سے سخت مقابلے کے دورا ن پارٹی لوک سبھا کے الیکشن میں مقابلے میں اتر ے گی اس وقت کچھ کیاجائے۔