بجنور۔مقامی کوتوالی سے مبینہ طور پر بذریعہ فون دوروز قبل اپنی بیوی کو طلاق دینے والے 24سالہ شخص او رمزیدپانچ لوگوں کے خلاف پولیس نے مسلم عورتوں کے شادی کے حقوق کا تحفظ کے متعلق آرڈیننس 2018کے تحت ایک شکایت پر مقدمہ درج کیاہے۔ طلاق دینے کے فوری بعد مذکورہ شخص نے احاطہ پولیس اسٹیشن میں ہی اپنی محبوبہ کے ساتھ شادی رچائی تھی۔
پولیس کے مطابق باروکی گاؤں کا ساکن گلفام پڑوس میں رہنے والی ترنم سے محبت کرتا تھا۔تاہم لڑکے کے گھر والوں نے اس کی مرضی کے خلاف 15جولائی کو اس کی رشتہ کی بہن سلطنت سے شادی کرادی ‘ اس کے بعد سے دونوں آپس میں لڑائی جھگڑ ا کرتے رہے۔
کچھ دنوں بعد الجھن کاشکار گلفام اپنے آبائی گاؤں واپس لوٹ آیا جہاں پر اس سے ملاقات کے لئے ترنم ائی اور شادی نہ کرنے پر اس کو خودکشی کرلینے کی دھمکی دے کر چلی گئی۔
اس بات کی اطلاع ملتے ہیں ترنم کے گھر والو ں نے پولیس میں ایک شکایت درج کرائی۔
اس کے بعد پولیس نے دونوں فریقین کو پولیس اسٹیشن طلب کیا‘ جہاں اتوار کے روز دونوں کے درمیان میں معاہدہ طئے پایا۔ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے سلطنت کی ماں شہناز نے کہاکہ ’’ کچھ بااثر لوگ نے ہم پر پولیس اسٹیشن آنے کے لئے دباؤ ڈالا جہاں سے گلفام نے بذریعہ فون ترنم کو طلاق دیا۔
اس واقعہ میں پولیس بھی ملوث ہے‘‘۔انہو ں نے مزیدکہاکہ اس کے بعد گلفام نے پولیس اسٹیشن میں ہی ترنم سے شادی کرلی۔شادی کی توثیق کرتے ہوئے دیہی ایس پی وشواجیت سریواستو نے کہاکہ ’’ یہ سچ ہے کہ پولیس اسٹیشن میں ہی شادی انجام پائی ہے۔
اس سے قبل بھی ایسا ہوا ہے۔ تاہم اہم مسلئے پولیس اسٹیشن کے حدود میں تین طلاق دینے کا ہے۔ ہم ان الزامات کی تحقیقات کررہے ہیں اگر کوئی اس واقعہ میں ملوث ہے تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
انہوں نے مزیدکہاکہ’’ شکایت کی بنا ء پر ہم نے گلفام کے بشمول دیگر پانچ لوگوں اقبال‘ انیس‘ احمد ‘ شرافت اور چندشاہ کے خلاف مسلم خواتین کی شادی کا تحفظ آرڈیننس 2018کے سیکشن 3اور 4کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے‘‘۔
اپنے اقدام کی حمایت میں گلفام نے کہاکہ ’’ میں نے اپنی خالہ او ربیوی سے فون پر بات کی تو ان لوگوں نے میری ترنم سے شادی پر رضامندی ظاہر کی ۔ یہی وجہہ ہے کہ میں نے سلطنت کوطلا ق دی‘‘۔
حال ہی میں حکومت نے مسلم خواتین ( کی شادی کے حقوق کا تحفظ) آرڈیننس 2018کو منظور کیاہے جس کے تحت تین طلاق کوایک جرم قراردیا گیا ہے اور اس کے لئے تین سال کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے