ہندو بمقابلہ مسلمان پوسٹ‘2014کا رحجان پیدا کرنے کے لئے آج کی انتخابی حکمت عملی اشتعال انگیزی بن گئی ہے۔

ایک فوٹو گراف ان دنو ں سوشیل میڈیا پر وائیرل ہورہا ہے جس میں راہول گاندھی کو دیکھا جاسکتا ہے اور پس منظر میں اورنگ زیب کی تصوئیر ہے۔ اس تصوئیر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیاگیاہے۔ وہ تصوئیردراصل مہاتماگاندھی کی ہے۔ کون یہ تصوئیر پھیلارہا ہے اور کیوں؟۔
یہ صاف ہے کہ مجوزہ 2019کے پارلیمانی انتخابات میں ہندوستانی رائے دہندوں کو ایک سفر کے لئے تیارکیاجارہا ہے۔

اب ایسا نہیں ہوگاکہ وہ ووٹ دینے کے لئے اپنے توقعات اور ان کی زندگی کو متاثر کرنے والے مسائل ‘ ملازمتیں‘ کسانوں ‘ فلاح وبہبود‘ بڑھتی مہنگامی‘ اقتصادی مواقع اور سماجی انصاف کے متعلق نہیں پوچھیں گے۔ تمام چیزوں کا محور بھڑکاء نظریات پر مشتمل ہوگا جو ہند بمقابلہ مسلمان رہے گا۔

سال2014کے موڈ میںیہ قابل ذکر تبدیلی ہوگی۔ اس وقت بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور ان کا نعرہ تھا وکاس اور اقتصادی ترقی‘ جو نہایت ہی متاثر کرنے والا وعدہ تھا۔لوگ چاہتے تھے کہ آنے والی حکومت ان کی زندگی کے معیار میں تبدیلی لانے کے لئے کام کرے۔ اور سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرے سے لوگوں کو محسوس ہوا ہے کہ ان کی توقعات کے مطابق نئی حکومت کام کرے گی۔

مگر جیسے ہم2019کے قریب پہنچنے لگے تو سونچ مکمل طور پر بدلنے لگی۔ چھوٹی بات بھی وکاس کے متعلق نہیں کی جارہی ہے۔ ہم پھر ہم دوبارہ مذہبی پولرائزیشن کی طرف گامز ہوگئے۔

مرکزی کابینہ کے سینئر وزراء بھڑکاؤ بیان دینے لگے جو ہندو او رمسلمان پر مشتمل ہیں۔ اور دیگر کو ہجومی تشدد کے ملزمین کی تہنیت پیش کرنے میں شرم کا بھی احساس نہیں ہوا ۔

ہندوتوا برگیڈ سڑکوں پراتر گئی اور پوری اثر کے ساتھ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کاکام کرنے لگے۔

مریادا پرشتم رجام دوبارہ سیاسی فروغ کے ذریعہ بنے اور یہ دعوی کیاجانے لگا کہ 2019سے قبل رام مندر کی تعمیر کو پورا کرلیاجائے گا‘ حالانکہ معاملے کی سنوائی اب بھی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔

کانگریس کو ’مسلم پارٹی‘ کے طور پر پیش کرنے کی مہم بھی بی جے پی کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔یہ الزامات راہول گاندھی کی مسلم دانشواروں سے ملاقات کی بنیاد پر ہیں۔ ایک اُردو نیوز پیپر انقلاب ‘ نے خبر دی تھی کہ راہول گاندھی نے اس میٹنگ میں کہاہے کہ ’ کانگریس ایک مسلم پارٹی ہے‘۔

کانگریس ترجمان اور مذکورہ اجلاس میں موجود لوگوں نے اس بات سے صاف طور پر انکار کیا ہے۔تاہم اعظم گڑھ کی ایک پبلک میٹنگ میں وزیراعظم نریندر مودی نے برسرعام کانگریس پارٹی پر مسلم لیبل لگانے کاکام کیاہے۔

وزیر دفاع نے وزیر تعلیم پرکاش جاوڈیکر کے الفاظ اسی طرح سے دہرایا۔اگر برسراقتدار سیاسی جماعت اپنی پوری توانائی ملک کے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پر الزام لگاتے ہے کہ وہ صر مسلمانو ں کے لئے کام کررہی ہے تو اس کا منشاء کیاہے؟۔

یہ ایک پہل ہے جس کے ذریعہ بی جے پی کی جس نے بھی مخالفت کی اس کو مسلمانوں کا حمایتی قراردیاجاسکے‘ وہیں بی جے پی واحد پارٹی بن جائے جو ہندوؤں کی حمایتی ہے۔

مگر یہ ایک بدبختانہ حقیقت ہے۔ مارڈن ‘جمہوری او رسکیولر جمہوری ملک بنے کے ستر سال کی تکمیل کے بعد ‘ صرف یہی ایک ایجنڈے رائے دہندوں کے سامنے پیش کیاجائے کہ ‘ کیاتم ہندو ہویا مسلمان؟۔یہ کئی وجوہات کے لئے بھی قابل اعتماد ہے۔

پہلی وجہہ یہ ہے کہ ہم رائے دہندوں کی قابلیت کی توہین کررہے ہیں‘ جوغیرضروری باتوں کو پر سونچے بغیر جو فرقہ پرستی کو فروغ دینے کی بات کو مستحکم کررہے ہیں۔

تمام ہندوستانیوں کو اس بات کا احساس ضرور کرنا ہوگابہتر معیشت اور سماجی استحکام ‘ بہتر حکمرانی اور مذہبی روداری کے درمیان میں استحکام ضروری ہے