نئی دہلی : گمراہ کن او راشتعال انگیزبیانات پر جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے ۔ملت اسلامیہ کو خبر دار کیا ہے کہ وہ اس قسم کی کسی بھی بات پر توجہ نہ دیں ورنہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اتر پردیش میں مدرسہ اسلامیہ کے ڈریس کوڈ کو لے کر ایک نئی بحث چھیڑی گئی ہے اور ایک نیا سیاسی ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
جس پر جسٹس سہیل اعجاز نے مسلمانوں کو بیان بازی سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے سابق چیر مین جسٹس صدیقی نے کہا کہ آئین نے ہمیں جو بنیادی حقوق دیے ہیں اس کے مطابق کوئی بھی یہ طئے نہیں کرسکتا کہ ہم کیا کھائیں گے اورکیا پہنیں گے ۔
انھوں نے کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل ۲۶؍ میں واضح طور پر ہمیں مذہبی آزادی دی گئی ہے او رہم اپنے مذہب پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہیں ۔انھوں نے کہا کہ مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور آئین کے مطابق اس کے لئے ہم آزاد ہیں ۔چنانچہ دینی تعلیم میں حکومت کسی بھی اعتبار سے مداخلت نہیں کرسکتی ۔انھوں نے کہا کہ مدرسوں کے طلبہ کیا پہنیں گے او ران مدارس کا کیا نصاب ہوگا یہ خود مدارس طے کریں گے ۔
انھوں نے کہا کہ آج یہ مدرسوں کے لئے کہہ رہے ہیں ۔کل یہ کہیں گے کہ آپ صرف نماز کے وقت صرف جینس پہن سکتے ہیں کرتا پائجامہ پہننے کی اجازت نہیں ۔انھوں نے کہا کہ یہ غیر قانونی بات ہے اس میں کوئی دم نہیں ہے ۔
جسٹس صدیقی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یوگی جی ہر وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف کیسے کوئی بیان دیا جائے او رکیسے انہیں مشتعل کیا جائے ۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعلی کا کام پرامن طریقہ سے صوبہ کی ترقی کرنا ہوتا ہے ۔لیکن یوگی جی اس کے برعکس کام کررہے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ پہلے انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلتوں کو ریزروریشن دینے کی بات کرکے بلاوجہ کی ایک تازہ بحث پیدا کردی تھی اور اب ڈریس کوڈ کی بات کرکے پھر تنازع پیدا کردیا ہے ۔جب کہ وہ جو بھی بات کررہے ہیں اس کی قانون میں گنجائش ہی نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین نے جو بنیادی حقوق دیئے ہیں اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوسکتی اور جو کرے گا وہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی ۔