’’کسی ایک الیکشن سے قبل افسراور سیاست داں ہماری کالونیوں کو آتے ہیں۔ اس وقت ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ انہیں ووٹ دیں ورنہ یہاں سے نکال دئے جاؤ گے۔ آخر کاران تمام سالوں میں اب بھی ہمیں گھر نہیں ہے‘ ہم کہیں کے نہیں ہیں‘‘۔
گجرات۔مارچ16سال2002کے روز رحیم بھائی اور ان کے گھر والوں کو بھروچ کے ٹانکاریہ کالونی کے ریلیف کیمپ میں لا کر چھوڑ دیاگیا۔ تب سے لیکر آج سوسالہ گذر نے کے بعد بھی یہی بارہ فٹ لمبے اور بیس فٹ چوڑا کمرے جو اس عارضی کیمپ میں بناہوا ہے ان کا مستقل گھر بن گیا۔بازآبادکاری کے لئے مذکورہ کالونی ایک این جی او اسلامک ریلیف کمیٹی نے قائم کی تھی ‘جو اب گجرات میں سال2002کے دوران پیش ائے فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر ہوکر ریاست کے مختلف شہروں وڈوڈرا‘ کھیڈا‘ اور احمد آباد سے یہاں پر آکر پناہ لینے والے اٹھ خاندانوں پر گھر بن گیا ہے۔
رحیم بھائی جو تقلیدی جوہرات کی فی الحال فروخت کررہے ہیں نے کہاکہ’’ میں خانگی بس چلاتا تھا او رمیری گوشت کی ایک دوکان تھی‘ ہم وڈوڈرا کے مکدر پورہ سے بھاگ کر یہاں ائے ہیں جہاں ہمارا ایک گھر تھا۔ ائی آر سی کے ایک نمائندہ ہمیں ٹاکناریہ لے کر آیا۔جو کچھ رقم لے کر ہم وہا ں سے بھاگے تھے اس میں سے الکٹرسٹی میٹر کے لئے2002میں ہم نے دوہزار روپئے ادا کئے تھے۔ مگر ہمیں سال2005میں الکٹرسٹی کنکشن ملا۔ہم جہاں رہتے تھے وہاں واپس جانے کا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔میرا گھر جلا دیاگیا اور میرے گوشت کی دوکان پر کسی اور نے قبضہ کرلیا‘‘۔ مالکان حقوق حاصل کرنے کے لئے پچھلے 16سالوں سے جدوجہد کررہے ہیں رحیم بھائی ن کہاکہ’’ اب ہمیں پچھلے سولہ سال سے جہاں پر رہ رہے ہیں اس کا مالکان حق چاہئے۔ یہیں پر بچے بڑے ہوئے اور ان کی شادیاں ہورہی ہیں۔ ہم جاکر ایک روم میں نہیں رہ سکتے ۔
ہمارے پاس قرض حاصل کرنے کے لئے کوئی دستاویز نہیں ہے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے بس یہاں پر رہ رہے ہیں۔ ہم نے ائی آر سی کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے انہیں راضی کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ سولہ سالوں میں نہ تو ہم سے ملاقات کی او رنہ ہی مالکان حق تبدیل کرنے کے متعلق کوئی بات کررہے ہیں‘‘۔ ریاست بھر کے 83ریلیف کیمپوں میں 3000سے زائد خاندان زندگی بسر کررہے ہیں۔ احمد آباد میں پندرہ‘ اور آنند میں سترہ کے علاوہ سابر کانتھا میں تیرہ اور پنچ محل میں گیارہ اور مہسانا میں اٹھ ‘ وڈوڈرا میں چھ ‘ امریلی میں پانچ اور بھروچ‘کھیڈا ضلع میں چار‘ چار کیمپ ہیں۔ زیادہ تر کالونیاں چار تنظیموں نے تعمیر کی ہیں جمعیت العلماء ہند‘ گجرات سرواجنیک ریلیف کمیٹی‘اسلامک ریلیف کمیٹی او ریونائٹیڈ اکنامک فورم اس کے بعد کچھ چھوٹے موٹے ٹرسٹ او راین جی اوزمیں اس میں شامل ہیں۔
فساد کے متاثرین کو راحت پہنچانے کاکام کرنے والی احمد آباد کی ایک این جی او جانویکاس کے ساتھ ملکر کام کرنے والی سماجی کارکن حضیفہ اوجین نے کہاکہ ’’ زیادہ تر کالونیاں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں‘ 59کالونیاں ایسی ہیں جس میں جانے کے لئے سڑک ندارد ہے ‘ 53کالونیاں ایسی ہیں جس کے سامنے سڑک نہیں ہے ‘68کالونیاں ایسی ہیں جس میں ڈرنیج سسٹم ندارد ہے ‘ اٹھارہ کالونیوں میں اسٹریٹ لائٹس نہیں ہیں جبکہ 62کالونیاں کی حالت جانورگاہ سے بھی خراب ہے اور اس کے باوجود 16ّّؓٓٓسال سے انہیں مالکان حقوق فراہم نہیں کئے گئے‘‘۔
دی وائیر سے بات کرتے ہوئے گجرات کے ساکن ایک وکیل او رسماجی جہدکارشمشاد پٹھان نے کہاکہ’’ زیادہ ترکالونیاں شہر یاٹاؤن کے مضافات میں تعمیرکی گئی ہیں۔ کچھ کالونیوں میں پینے کے پانی کی سہولت اور انگن واڑی یا پھر ابتدائی اسکولس بھی قائم نہیں کئے گئے ہیں۔عام طور پر مذکورہ کالونیوں کا قیام عارضی قیام گاہ کے طور پر لایاگیاتھا مگردشمنی کے خوف اور مارے جانے کے ڈرسے زیادہ تر متاثرین واپس جانے سے انکار کررہے ہیں۔
فسادات کے دوران ہوئے بے گھر مذکورہ لوگ 2002سے ان کالونیوں میں زندگی گذار رہے ہیں ‘ مگر چند ایک کو ہی اس میں مالکان حق حاصل ہوا ہے۔
انہیں دوبارہ بے گھر ہونے کا ڈر ہے‘‘۔اجینی نے کہاکہ ’’ یہاں پر فساد کے بعد بے گھر ہوئے لوگ جنھوں نے خانگی مالک کوایک موٹی رقم دیکر یہ زمین خریدی اور ریلیف کیمپ قائم کیاہے۔ تاہم زیادہ تر متاثرین 2002کے خطرناک فسادات کے بعد یاتو اپنے قانونی دستاویزات کھوچکے ہیںیا پھر انہیں وہ دستاویزات ملے ہی نہیں۔ ایسے واقعات میں ہمت نگر اور آنند کے پسماندہ کالونیوں میں وہاں پر رہنے والے لوگوں کو دوبارہ بے گھر ہونے کا خطرہ منڈلارہا ہے کیونکہ ان مقامات کی اراضی مہنگی ہوگئی ہے اور مالک اس کو کسی بھی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہتے ‘‘۔
ایسی ہی ایک کالونی مرتضی نگر کی ہے جو ضلع آنند کے پیپلی گاؤں کی ہے ۔ ٹن کی چھت پر مشتمل انیس گھر جس کی دیواروں کو اب تک استر کاری نہیں ہوئی ہے اسی وجہہ سے ان دیواروں میں دراڑیاں آگئی ہیں‘ مذکورہ کالونی میں ناتو لائٹس ہے او رنہ ہی سڑکیں ہیں اور یہ چوبیس خاندانوں کو گھر ہے۔مرتضی نگر کی پسماندہ بستی کے بیشتر لوگ زمین سے محروم کسان اور مزدور ہیں جس کا آنند نگر کے مختلف دیہاتو ں سے ہے اور اب وہ یومیہ اجرات پر کام کرنے والے مزدور بن گئے ہیں۔مرتضی نگر کے ساکن42سال کے یعقوب بھائی نے کہاکہ ’’ ہم( مذکورہ 19خاندان)نے سال2002میں ایک لاکھ دس ہزار روپئے کے عوض یہ زمین خریدی تھی ۔ ہر خاندان سے جوبھی رقم ہوسکے نے انہیں واپس دیا ہے۔
بعدازاں کچھ این جی اوز ائے او رہمیںیہاں پر گھر تعمیرکرکے دیا۔ ہم اب تک لین دین کے صحیح دستاویزات نہیں دئے گئے۔ اب اس اراضی کی قیمت کروڑ ہا روپئے کی ہوگئی ہے۔ زمین کے جس مالک نے ہمیںیہ زمین فروخت کی تھی وہ اب ہمیں زمین خالی کرنے کوکہہ رہا ہے۔ ہمارے مرد کام کے لئے پڑوس کے ٹاؤن جاتے ہیں او ر گھر پر ہماری عورتیں او ربچے تنہا رہتے ہیں جنھیں زمین کے سابق مالک کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہیں‘‘۔
یعقوب بھائی نے کہاکہ ’’ کچھ سماجی کارکنو ں کی مدد سے ہم نے سابق مالک اراضی کے خلاف ایک مقدمہ درج کرایا ہے۔ ہمارے سارا پیسہ ہم نے اس زمین پر خر چ کردیا ہے۔میں ایک مزدور پیشہ شخص ہو ں اوراپنا گھر چلانے والے واحد آدمی بھی ۔ کیسا بھی کرکے یومیہ سو سے ایک سو پچاس روپئے کمالیتا ہوں۔ میرا بیٹا 17سال کا ہے اور اس نے کئی بار آنند نگر کی فیکٹریوں میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار مسلمان ہونے کی وجہہ سے اس ملازمت دینے سے انکارکردیاجاتا ہے‘‘۔ کچھ اور واقعات مہاسنا کی احمد لطیف کالونی میں فسادات کے سبب بے گھر ہوئے لوگوں کے مکانات پہلے ہی فروخت کئے جاچکے ہیں۔ مہاسنا میں اگول گاؤں کے اند ر41میں سے پانچ خاندان کالونی کے خراب حالات کے سبب نقل مقام کرچکے ہیں۔
سب سے متاثرہ علاقے پنچ محل کے ساکن جانکواس سے وابستہ سماجی کارکن سمیر سوڈاوالا نے کہاکہ ’’ مذکورہ کالونیوں میں خراب حالات اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کے باوجود ان پچھلے سولہ سالوں میں فسادات کی وجہہ سے متاثر ہوئے لوگ مذکورہ اپنے گھر واپس جانے کو تیار نہیں ہیں‘ اس کی بنیادی وجہہ ان اندر خوف ہے۔ کئی ایسے بھی جنھوں نے اپنے قدیم پڑوسیوں سے رابطہ کرنے کے بعد اپنے ٹوٹے گھروں کی مرمت کی ۔ مگر فساد سے متاثر ہ زیادہ تر علاقوں میں متاثرین کی مکانات نہایت کم قیمت پر خریدے گئے‘‘۔ سوڈا والا نے مزیدکہاکہ پنچ محل کا ایک گاؤں ایرل گجرات کا ایک واحد گاؤں ہے جہاں پر فساد کے بعد متاثرین نے دوبارہ آکر بسنے کا فیصلہ کیا اور اپنے مکانات کی مرمت کرائی ۔
تاہم مذکورہ گاؤں آج بھی خوف کے سایہ میں ہے۔ یہاں پر بجرنگ دل کارکنوں کی جانب سے ائے دن متاثرین کیساتھ مارپیٹ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ مذکورہ خاندانوں کی عورتوں کے ساتھ کئی جنسی استحصال کے واقعات بھی یہاں پر پیش ائے ہیں۔ محض چھ ماہ قبل بجرنگ دل کے کارکنوں نے اذان روکوا دی تھی‘‘۔ کئی سالوں سے ریلیف کالونی غیرسماجی کارکنوں کے لئے رسائی کا آسان راستہ بن گئی ہیں۔سٹیزن نگر کالونی کے قریب میں ممبئی ہوٹل کا علاقہ اور احمد آباد کے رامول میں واقعہ مدینہ نگر کالونی دوایسے مقامات ہیں جہاں پر غیرسماجی عناصر آسانی کے ساتھ ہلہ بول سکتے ہیں۔
مدینہ نگر کالونی کے ایک مکین شریف ملک نے کہاکہ ’’احمد آباد میں مدینہ نگر کالونی ایک ایسا مقام ہے جہاں پر آسانی کے ساتھ غیرسماجی عناصر اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے‘‘۔ مدینہ نگر کالونی تین سو خاندانوں کا گھر ہے جس کو جمعیت العلماء ہند نے تعمیر کیا ہے او ریہ احمد آباد کی سب سے بڑی کالونی ہے۔
شریف ملک کی ماں 53سالہ زبیدہ بانو نے کہاکہ ’’ یہاں پر آکر بسنے کے ایک سال بعد ہمیں الکٹرسٹی کنکشن ملا۔ مگر ہمیںآبرسانی کنکشن 2016میں دیاگیا۔ ابتداء میں ایک کیلومیٹر کا فاصلے طئے کرکے عورتیں بوریل سے پانی سے حاصل کرتے تھیں۔ بعدازاں واٹر ٹینکر کے ذریعہ ہمیں پانی فراہم کیاجانے لگاجس کی نگرانی جمعیت العلماء کے نمائندے کرتے تھے۔
ہر خاندان 150روپئے ادا کرتا تھا۔ مگر خواتین کو ٹینکر سے پانی حاصل کرنے میں دشواریاں پیش آتی اور اس کی وجہہ سے کئی مرتبہ آپس میں لڑائی جھگڑے بھی ہوتے۔ کئی سالوں تک پانی کی جدوجہد میں کئی خواتین کا حامل بھی ضائع ہوتا رہا‘‘۔ان 16سالوں میں ریلیف کالونیوں کی حالت زارپر حکومت او رچیف منسٹر سے بے شمار نمائندگیاں بھی کی گئی۔ جانکیواس سے ملے ڈاٹا کے مطابق پانچ درخواستیں چیف منسٹر گجرات کو لکھی گئیں جبکہ سال2015سے 2017کے درمیان 15میمورنڈم روانہ کئے گئے ہیں۔
ہمت نگر کے حسین آباد ریلیف کالونی کے ساکن میرخان نے کہاکہ ’’آج تک ہمیں حکومت کی جانب سے نہ تو امداد ملی ہے اور نہ ہی مدد۔پچھلے سولہ سالوں میں مالکان حقوق حاصل کرنے کے لئے بے شمار نمائندگی کی گئی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔ہم میں سے کئی لوگوں کو محض اس لئے قرض دینے سے انکار کردیاجاتا ہے کیونکہ ہمارے پاس واجبی دستاویزات نہیں ہیں‘‘۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ’’کسی ایک الیکشن سے قبل افسراور سیاست داں ہماری کالونیوں کو آتے ہیں۔ اس وقت ہمیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ انہیں ووٹ دیں ورنہ یہاں سے نکال دئے جاؤ گے۔ آخر کاران تمام سالوں میں اب بھی ہمیں گھر نہیں ہے‘ ہم کہیں کے نہیں ہیں‘‘۔
بشکریہ ’’ دی وائیر‘
You must be logged in to post a comment.