نئی بالی ووڈ فلم ’’ پدماوتی ‘‘ کے پیش نظر علاؤ الدین خلجی کے متعلق بہت سارے تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں چتورمیں1303کی کہانی ہے اور پیش کیاجارہا ہے کہ چتور کی رانی پدمنی پر علاؤالدین خلجی کی بری نظر تھی( زیادہ تر حصہ ایک تاریخی نظم پر مشتمل ہے جس کی حقیقت پر بھی سوال پیدا ہوتے ہیں)۔ علاؤ الدین خلجی کا شمار دنیا کے سب سے بہترین حکمرانوں اور فوجی ماہرمیں کیاجاتاتھا۔ علاؤ الدین خلجی 1266میں دہلی میں ہی پیدا ہوئے( وہ بیرونی ملک سے نہیں ائے تھے اور 1296اے ڈی تا1316اے ڈی تک سلطنت دہلی پر حکمرانی کی۔خلجی نے چاچا سلطان جلال الدین خلجی کے قتل کے بعد ان سے ملی وراثت کو توسیع دی ۔
کیونکہ ان کے فتوحات میں بہت سارے ہندو حکمرانیاں جیسے چتوردیوگری‘ رنتم بھورے‘ اور ہوئے سالہ اور پانڈیہ کی سلطنتیں شامل تھی اور اس کی وجہہ سے ہندوتوا گروپ خلجی کو ویلن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان علاؤ الدین خلجی کا مقروض ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ ان کے دور حکومت میں چیغتائی کنیٹ نے ہندوستان پر حملہ کیاتھا اور ان کی فوجی مہارت کی وجہہ سے منگولوں کو ایک مرتبہ نہیں بلکہ پانچ مرتبہ شکست فاش کیاگیا۔1298اے ڈی میں ( جس کی قیادت الوغ خان نے کی اور منگولوں کے 20,000لوگوں کا ماردیا)1299اے ڈی سندھ میں ( فوج کی کمان ظفر خان ) نے سنبھالی‘1299اے ڈی ( خود خلجی نے منگولوں کے خلاف محاذ سنبھالا)1305اے ڈی( فوج کی قیادت ملک نائک ) نے کی اور 8ہزار منگلوں کو مارا‘1305اے ڈی( فوج کی قیادت ملک کافور نے کی اور 1303اے ڈی میں خود خلجی نے کمان سنبھالی۔
منگول خلجی کوشکست دینے سے قاصر رہے مگر دہلی کو صاف کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ان دنوں میں فوج کافی اہمیت کی حامل تھے کیونکہ منگول جہاں بھی جاتے انہیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ چاہئے وہ روسی حکمران ہوں یا پھر فارسی سلطنت یا پھر خلیفہ بغداد‘ کوئی بھی خون خار منگول کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکے۔خلجی نے پانچ مرتبہ ان لوگوں کو شکست دی اور چھٹویں مرتبہ ایسا نہیں ہوسکا۔ دہلی سلطنت کی فوج جو کہ خلجی کے ماتحت تھی وہ دنیا کی نہایت سنجیدہ اور سلجھی ہوئی تربیت یافتہ فوج تھی او ریہی وجہہ تھی کہ منگولوں کو انہوں نے بارہا شکست دی۔اب ا ن لوگوں سے جو منگولوں کے متعلق نہیں جانتے ہیں ان سے یہاں پر پوچھنا ہے ’’ کیا بڑی بات ہوتی ؟ ایک مسلم حکمران جس کے اباواجداد باہر سے ائے تھے تو دوسرے بیرونی حملہ آوار کو شکست کیوں دیتا!‘‘۔
جنگی معاملات میں منگول نہایت بے رحم تھے۔ ایک بار جنگ شروع ہوجانے کے بعد منگول وہاں پر کچھ باقی نہیں رکھتے ‘کوئی نشان باقی نہیں رکھتے‘ اور وہاں کی سارے قیمتی چیزیں سازوسامان اپنے ساتھ منگول( چیغتائی خان میٹ ‘ ازبکستان) لے کر چلے جاتے‘ بالخصوص وہ نئے ٹکنالوجی جو انہیں ملتی ہے ’ عورتوں کو قیدی اور مردوں کا قتل کردیتے مگر انہیں اپنے ساتھ لے کر چلے جاتے جو خاص کاموں کے لئے جانے او رپہچانے جاتے او رپیچھے تمام ناکارہ چیزیں چھوڑکر چلے جاتے ۔ منگول فوج کے وحشی پن کی وجہہ سے انہیں ’’ اللہ کے عذاب ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔اگر منگول ہندوستان پرقبضہ جمالیتے تو ہمارا یہ عظیم ملک ترقی کے دو تین سو سالوں سے دور ہوجاتا ۔ہندوستان کی تمام ثقافت تباہ کردی جاتی ہے۔ ہر لائبریری‘ ہر مندر‘ ہر گھر او رہراسکول زمین دوز کردیاجاتا۔جب ہلاکو خان نے بغداد کی 1258میں صفائی کی تو شہر کو آلودہ کردیاتھا۔ عباسی دور کی تمام لائبریریوں کو اس نے تباہ کردیا( کہاجاتا ہے کہ ندی میں بڑی تعداد میں کتابیں پھینکنے کی وجہہ سے ندی کے پانی کا رنگ سیاہ ہوگیاتھا)اس کی بربریت کے کئی ہفتوں بعد بھی شہر کی سڑکوں پر خون پانی کی طرح بہہ رہاتھا۔
اکیلے اس نے وہ تما م چیزوں کو برباد کردیاتھا جس کو اسلام کا سنہری دور کہاجاتاتھا۔ایسا ہی روس سے ہوا جب منگولوں نے وہاں پر حملہ کیا مورخ لکھتے ہیں اس کے بعد روس دوسوسال پیچھے چلاگیاتھا۔ اگر خلجی منگولوں کے آگے شکست کھاجاتے تو ہندوستان میں بھی اسی طرح کے حالات پیدا ہوجاتے اور وہ ہندوستان کی ثقافت اور پہنچان کو ہی بدل دیتے ۔دنیا کے نقشے پر ہندوستان بدلا ہوا ملتا۔ ہم آج یہ بات نہیں کررہے ہیں کہ کس نے مندر پر مسجد تعمیر کی۔آج ہم ہندوستان میں ہندوثقافت کو دیکھ رہے ہیں تو اس کاسہرہ علاؤالدین خلجی کے سر جاتا ہے جو تاریخ کے بڑے جنگجو اور بادشاہ گذرے ہیں۔ہوسکتا ہے اپنے دور حکمرانی میں انہوں نے ہندوؤں کو قیدی بنایا ہے مگر خلجی نے منگولوں سے ہندوستان کو بچایا جو غیر دانستہ طور سے ہندوازم کو بچانے کے مماثل ہے۔