کیاسب کو آمدنی کی گیارنٹی دینے کا بوجھ اٹھاسکتا ہے بھارت۔

عام چناؤ سے قبل بڑا موضوع بن رہا ہے یونیورسل بیسک انکم

نئی دہلی۔ ہر کسی کو آمدنی کی گیارنٹی دینے کے لئے یونیورسل بیسک انکم( یو بی ائی)کرنا کیا بھارت جیسے بڑے ملک کے لئے ممکن ہے؟۔ اگر لاگو کیا تو موجودہ نظام میں کسی طرح کی تبدیلیاں کرنا ہوگا؟۔کیادنیا کے کسی دوسرے ملک میںیہ اہمیت کی حامل اسکیم کامیاب رہی؟۔

یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کیونکہ کانگریس صدر راہول گاندھی نے جہاں عام الیکشن میں جیت حاصل کرنے پر ہر ہندوستانی کو کمائی کی گیارنٹی دینے کا وعدہ کیاہے ‘ وہیں مودی حکومت بھی اس سے ملتا جھلتا اسکیم کو مجوزہ عبوری بجٹ میں اعلان کرنے کی قیاس لگایاجارہا ہے۔

کانگریس ہر غریب کو1800روپئے مہینے کی منظورشدہ آمدنی دے سکتی ہے ۔ بی جے پی حکومت موجودہ ماحو ل میں اسکو نافذ کرنا چاہتی ہے جس میں پہلے کسانوں کو منظور شدہ آمدنی دینے کے متعلق غور کیاجارہا ہے۔

اس اسکیم پر کام کرنے والے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اسکیم اسو قت لاگو کی جاسکتی ہے جب اس کے لئے ضروری شرائط لاگو کئے جائیں۔

لندن یونیورسٹی کے متنازعہ اوراقل ترین لازمی آمدنی کی دنیا بھر میں وکالت کرنے والے پروفیسر اسٹینگ نے این بی ٹی سے کہاکہ اگر اسکیم کو پوری دیش میں لاگو کیاجاتا ہے تو جی ڈی پی پر تین سے چار فیصد کے قریب کا خرچ ائے گا۔

موجودہ حالات میں سرکاری مجموعی جی ڈی پی کا چار سے پانچ فیصد مرعات پر خرچ کررہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس اسکیم کے لوگوں کرنے کے بعد حکومت کو منظم طریقے سے سبسڈی کو ختم کرنے کی سمت قدم اٹھانا پڑے گا۔

لازمی آمدنی گیارنٹی اور سبسڈی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اس کے علاوہ مذکورہ اسکیم کے لئے حکومت کانکنی اور دوسرے پراجکٹوں پر علیحدہ طور سے سرچارج نکال کر رقم جمع کرسکتے ہے ۔

انہو ں نے کہاکہ ایسا نہیں لگتا ہے کہ کہیں سے فنڈ کی کمی ہوگی۔

مذکورہ پروفیسر کی قیادت میں ہی اندرو میں اٹھ گاؤں کے 6000آبادی کے بیچ 2010سے 2016کے درمیان اس اسکیم کا تجربہ کیاگیاتھا جسمیں مرد اور خواتین کو پانچ سو روہئے اور بچوں کو ہر مہینہ 150روپئے دئے گئے تھے۔

دہلی میں تقریبا دو سو لوگوں کے درمیان اس اسکیم کا تجربہ کیاگیا ۔ ان کا کیس اسٹڈی کرنے کے بعدہی حکومت نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیاہے