کشمیر۔ ’میں نے حساس علاقے میں ایک دوکان قائم کی۔ ہوسکتا ہے یہ پنڈتوں کے گھر واپسی کے لئے حوصلہ افزاء اقدام ہوجائے‘۔

لوکل مارکٹ کمیٹی کے اراکین روشن کی دوکان ائے اور انہیں اور ان کے بیٹے کو رویتی شملہ پہن کر تہنیت پیش کی۔

سری نگر۔ قدیم سری نگر کی نو تعمیر شدہ دوکان میں 74سالہ روشن لال ماوادوکان میں آنے والوں کو میٹھائی تقسیم کررہے تھے۔

ایک کشمیر پنڈت روشن جو90کے دہے میں وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے29سال کے طویل مدت کے بعد اپنی جڑوں کو واپس لوٹے تاکہ دوبارہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں۔

زاینہ کڈال میں اپنے دوکان کے پہلے روز اور پڑوسی دوکاندار وں میں جشن کا ماحول تھا کیونکہ روشن اپنا کاروبار قائم کرنے کی وجہہ سے مرکز توجہہ بنے ہوئے تھے۔

ڈاؤن ٹاؤن کے زینہ کڈال مارکٹ کی دوکان پر بیٹھے روشن نے کہاکہ ”مجھے یقین نہیں تھا کہ یہاں کے مقامی لوگ میرے اس قدر والہانہ استقبال کریں گے۔

میری آخری خواہش یہاں پر واپسی تھی۔ میں اوپر والے کاشکر گذارہوں جس نے اپنی آخری خواہش پوری کردی“۔

لوکل مارکٹ کمیٹی کے اراکین روشن کی دوکان ائے اور انہیں اور ان کے بیٹے کو رویتی شملہ پہن کر تہنیت پیش کی۔روشن کی دوکان کے پڑوس میں گروسری کی دوکان چلانے والے محمد لطیف نے کہاکہ”یہ بہت اچھی چیز ہوئی یہاں پر سب کافی خوش ہیں۔

کشمیر پنڈت ہمارے بھائی ہیں اور ان میں ہم میں کوئی تفریق نہیں ہے“۔

تاہم ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ روشن وادی کو لوٹے ہیں۔ جب سے وہ یہاں سے 1990میں نقل مقام کیاہے وہ ہرسال کچھ وقت وادی میں گذارتے ہیں۔

ان کے بیٹے سندیپ ایک ڈاکٹر اورمقامی سیاست داں ہیں جو سری نگر علاقے کے کرن نگر میں مقیم ہیں۔

روشن نے وادی سے نقل مقام کرنے کے متعلق اپنے خاندان کے فیصلے کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”اکٹوبر1990میں ایک شخص میری دوکان کو آیااور مجھ پر گولی چلائی۔

مجھے تین گولیاں لگیں‘ تین میرے پیٹ میں اور ایک میرے کاندھے پر“۔

انہوں نے کہاکہ ان کی فیملی پہلے جموں پھر دہلی منتقل ہوگئے۔ انہوں نے کہاکہ ”میں وہاں پر بہتر کاروبارکررہاہوں۔ اگر میں دہلی میں رہوں تو دس گنا زیادہ کی کمائی کرتاہوں۔

مگر میں ترجیحات کشمیر ہے کیونکہ میں وادی میں دوبارہ سے رہنا چاہتاہوں۔

تین دہوں سے میں دہلی میں ہوں مگر جو محبت اورتوجہہ مجھے کشمیر سے ملی ہے وہ مکمل طور پر منفرد ہے“۔جہاں پر خوشیاں تھیں وہیں کچھ جذبات بھی ساتھ تھے۔

انہوں نے کہاکہ ”ایک میرا قدیم دوست چھ سال بعد مجھ سے ملنے آیا اور گلے مل کر روپڑا“۔ روشن کا مانناہے کہ وادی میں ایسے کئی لوگ ہیں جو ان کی واپسی چاہتے ہیں۔