بیلوار پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او امیت سانگرا نے کہاکہ مہان پور کتھوا کے ابھیشیکاور ڈوڈا کے عابد دنوں پیرا میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹ ہیں کے درمیا ن میں کچھ تنازع پیش آیا۔’’ ابھیشیک نے معاملے کو حل کرنے کے لئے دولوگوں کو شامل کیا ‘ مگر لیاقت کی مداخلت پر اس کو چاقو سے حملہ کردیا‘‘
کتھوا۔ضلع میں اٹھ سال کی معصوم کے ساتھ عصمت ریزی او رقتل کے نقوش کا احساس ضلع سے 70کیلو میٹر فاصلے پر بھی محسوس کئے جارہے ہیں‘ کیونکہ سابق میں الزام تھا کہ پانچ سوروپئے کو لے کر دودوستوں کے درمیان میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
لیاقت میرعمر22کے گھر والوں کا پولیس اور انتظامیہ پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ ہے کہ وہ ملزمین ابھیشیک شرما اور ان کے بردار نسبتی ہنی کھوجوراؤکے ساتھ ملی ہوئی ہے۔یکم مئی کے روز بیلوار ٹاؤن کے قریب میں واقعہ دھیر پینٹر گاؤں میں یہ قتل کا واقعہ پیش آیا تھا۔
مذکورہ گاؤں کی آبادی1500نفوس پر مشتمل ہے اور یہاں پر ہندو او رمسلمانوں دنوں مساوی رہتے ہیں
۔تین ملزمین بشمول ابھیشیک ‘ کھجوراؤ اور ایک پنکج فی الحال پولیس کی تحویل میں ہیں۔کیس کچھ اس طرح درج کیاگیا ہے کہ ابھیشیک نے اپنے سابق دوست عابد علی پر حملہ کیاتھا او ریہ ہے کہ لیاقت نے غیرضروری کے مداخلت کی تو چاقو لیاقت کو لگی ‘‘۔
بیلوار پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او امیت سانگرا نے کہاکہ مہان پور کتھوا کے ابھیشیکاور ڈوڈا کے عابد دنوں پیرا میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹ ہیں کے درمیا ن میں کچھ تنازع پیش آیا۔’’ ابھیشیک نے معاملے کو حل کرنے کے لئے دولوگوں کو شامل کیا ‘ مگر لیاقت کی مداخلت پر اس کو چاقو سے حملہ کردیا‘‘
تاہم لیاقت کے گھر والوں کو قتل کے پس پردہ کوئی سازش دیکھائی دے رہی ہے‘ نومبر27کے روز پیش ائے واقعہ کا حوالہ دیا جس وقت ان کی ذاتی دودوکانیں او رگھر نذر آتش کردیاگیاتھا۔
وہیں لیاقت کے والد منیر میر جوکہ ایک سرکاری ٹیچر ہیں اور ماں کلثوم بیگم واقعہ سے صدمہ میں ہیں او رکچھ بولنے سے قاصر ہیں ‘ ایک رشتہ دار نے کہاکہ’’ ان دوواقعات میں ضرور کوئی تعلق ہے‘‘۔تاہم پولیس نے کہاکہ دوکانات میں شاک سرکٹ سے آگ لگی تھی۔
لیاقت کی فیملی ممبرس نے یہ بھی دعوی کیاہے کہ حملے کے روز ملزمین نے ان کی بڑی بہن 27ّسالہ عشرت کوثر‘ 34سالہ پرویز احمداور بیوی 27سالہ ممتازپر بھی حملہ کیاتھا ۔ وہیں ممتاز کو کئی فریکچر ہے اور عشرت بھی اس حملے میں بری طرح زخمی ہوگئی تھی۔
بعدازاں مذکورہ ملزمین پولیس اسٹیشن میں لیاقت کی جانب سے حملے کے دعوی کے ساتھ پہنچنے والے پہلے لوگ تھے ‘ مگر پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔لیاقت کے رشتہ دار وں کا ماننا ہے کہ پولیس اس بیان کے ساتھ آگے بڑھے اور ان لوگوں نے پولیس کو اس ضمن میں سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش نہیں کیاہے۔
یکم مئی کی دوپہر کو پولیس نے مقدمہ درج کیاہے اور 2مئی کے روز ہی جموں میں ان لوگوں سے ملاقات کی اس روز جب لیاقت زخموں سے جانبر نہ ہوسکا۔ اسکے فوری بعد ملزمین کی گرفتاری عمل میں ائی۔
واقعہ کے وقت موقع پر موجود لیاقت کے رشتہ کے بھائی پرویز نے یہ کہاکہ جب نشاط پولیس اسٹیشن کو گئی تب ابھیشیک اور دیگر پہلے سے وہاں پر موجود تھے او رپولیس سے کہہ رہے تھے کہ لیاقت اپنی چاقو سے زخمی ہوگیا ہے۔
ایس ایچ او سنگرا نے اس با ت سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ ملزمین جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد خودسپردگی کے لئے پولیس اسٹیشن پہنچے تھے۔ کتھوا ایس ایس پی سردھر پٹیل نے مزید بتایا کہ’’میرا سمجھتاہوں کہ یا تو یہ قتل پیسوں کے لئے ہوا یا پھر لڑکی کے لئے‘‘۔
واقعہ پیش آنے کے بعد پولیس نے ریاست کے محکمہ صحت کے ملازم کھجوراؤ کے گھر کے اطراف واکناف میں جوانوں کی تعیناتی عمل میں لائی ہے ۔
ایس ایچ او سنگرا کا کہنا ہے کہ معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دئے جانے کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایاگیاہے۔ عابد کے والد کانسٹبل ہیں جو رام بان ضلع میں متعین ہیں‘ واقعہ کے بعد انہو نے ڈوڈا میں واقعہ عابد کے گھر والوں سے جاکر ملاقات کی ۔
پرویز نے کہاکہ یکم مئی کے روز عابد ایک کھانے کی ہوٹل پر تھا اور جب ملزمین وہا ں پر پہنچے تھے ‘ اس کو بلوار پولیس اسٹیشن دو مرتبہ طلب کیاگیا مدد کے لئے ۔ بتایاجارہا ہے کو اس کے باوجود پولیس نے عابد کو اس کے پاس دومرتبہ بھیجا۔
پرویز نے کہاکہ کچھ جوان بعد میں ائے اور دونو ں کو اٹھا کر لے گئے۔ اس کے مطابق تاہم پولیس نے عابد کو دوبارہ ہوٹل پر لا کر چھوڑ دیا۔ اس کے ایک منٹ بعد پرویز نے کہاکہ ملزمین ائے اور اس پر حملہ کردیا۔
ایس ایچ او عابد کو پکڑنے کی بات سے انکار کیا او رکہاکہ ’’ اس نے ہمیں جانے کو کہا اور بتایا کہ وہ بعد میں پولیس اسٹیشن کو ائے گا‘‘۔ کھجوراؤ کے چچا راجندر شرما نے کہاکہ انہیں لیاقت کے گھر والوں سے مکمل’’ ہمدردی ‘‘ہے۔
یہ دوکالج کے دوستوں کے درمیان کا معاملہ ہے‘ ہم اس معاملہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں دونوں گروپ متاثرہورہے ہیں’’ ایک نے اپنا جوان لڑکا کھودیا ہے تو دوسری طرف ہمارے بچے سلاخوں کے پیچھے ہیں‘‘۔
دھیرپینٹر میں رہنے والے دوسرے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ لیاقت لوہائی ملاہار سے یہاں آیا تاکہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرسکے۔
بیلوار کی اصلاحی کمیٹی کے صدر محمد رفیع نے کہاکہ یہاں پر ہندواور مسلمان ’’ ہم آہنگی ‘‘ کے ساتھ رہتے ہیں۔کلدیب کھجوراؤ جو کہ محکمہ جنگلات کے ریٹائرڈ افیسر نے امرناتھ اراضی احتجاج کے دوران2008میں دوطبقوں کے لوگوں کی جانب سے ایک دوسرے کو کی گئی مدد کے متعلق بتایا۔
محمدرفیع جوقریب میں کھڑے تھے نے کہاکہ دھیرپینٹر کے سابق سرپنچ شیام لال ساپولیا اس وقت زخمی ہوگئے تھے جب ہندو مسجد پر پتھراکررہے تھے۔
انہو ں نے مزیدکہاکہ ’گاؤں کے ہندوؤں نے امرناتھ سنگھرش سمیتی کے قائدین کو گاؤں میں ریالی نکالنے سے روک دیاتھا‘‘