انتخاب کی گہما گہمی میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کے کردار نظر انداز کردیاگیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مقابلہ نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان تھا لیکن اصل رسہ کشی کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تھی۔اور اس اعتبار سے سونیاگاندھی کی اپنی اہمیت ہے۔ انتخابی نتائج کے تعلق سے تمام قیاس آرائیاں یہی بتارہی تھی کہ گجرات اور ہماچل پردیش میں بی جے پی کی فتح ہوگی او ریہ بات درست ثابت ہوئی ہے۔ کانگریس کو گجرات میں80نشستوں ملیں اور بی جے پی کو 99۔شکست اور فتح کے درمیان فرق کے علاوہ کوئی بات باعث حیرت نہیں ہے۔
قابل غور نکتہ کانگریس کی نشستوں کی تعداد میں اضافے کا ہے ۔ ابھی چند سال پہلے تک جو پارٹی بے وجود ہوچکی تھی اسے پھر معنویت مل گئی ہے۔ دونوں کے درمیان فرق بہت کم رہ گیا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ راہل گاندھی وزیراعظم نریند ر مودی کو بامعنی شکست دیں گے۔اس کے لئے سونیا گاندھی قابل تعریف ہیں جنھوں نے ایک با ر پھر کانگریس میں روح پھونک دی ہے۔مجھے ایوان کے سینٹر ہال کا وہ منظر اچھی طرح یاد ہے جب 2004کے انتخابات میں وہ کامیاب ہوئی تھیں۔تمام ممبران متفقہ طور پر یہی چاہتے تھے کہ وہ حکومت کی سربراہی کریں۔ لیکن وہ ایسا کرنے سے ہچکچارہی تھیں۔
غالباً ان کے ذہن میںیہ مہلک پروپگنڈہ تھا کہ ان کا تعلق اٹلی سے ہے۔ اپنی جگہ پر انہیں شدید احساس تھا کہ اطالوی نژاد ہونے کی شناخت کہیں ان کے بیٹے راہل پر اثر انداز نہ ہو۔انہوں نے دانستہ طور پر ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزارت عظمی کے منصب پر اس کے لئے بیٹھایا کہ نہ تو وہ سیاسی داؤ پیچ والے آدمی تھے اور نہ ہی کسی بات کی آرزو مند تھے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی دس سال مدت کار میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ حکومت ہند کی اہم فائیلیں کاروائی کے لئے سونیا گاندھی کی رہائش گاہاور پھر محض دستخط کے لئے من موہن سنگھ کے پاس جاتی تھیں۔
موصوفہ کے سیاسی مشیر احمد پٹیل تمام فیصلے کرتے تھے۔ سنجے بارو‘ میڈیا اڈوائز نے اپنی تصنیف ’’ دی ایکسڈئٹل پرائم منسٹر‘‘ میں توثیق کی ہے۔سونیا گاندھی پر جو الزام لگایا گیا اس سے وہ واقف تھیں لیکن اگر انہیں اپنے بیٹے راہول کے لئے گدی گرم رکھناتھا تو اس کے سواکوئی اور چارہ بھی نہیں تھا تاہم من موہن سنگھ کو یہ الزام قبول نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ جب ان سے کہاگیا کہ اس پر تبصرہ کریں تو انہوں نے کہاکہ آنے والی نسل اس کا فیصلہ کرے گی۔یہ سچ ہے کہ آج کانگریس پاری پر موصوفہ کی خوش دامن اندرا گاندھی کا ٹھپہ لگا ہوا ہے ۔ لیکن سونیا گاندھی وہ فرد ہیں جس نے کانگریس کو متحدرکھا ہے۔
ان کے لئے قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ انہیں پارٹی کے تمام گروہوں اور لیڈران تسلیم کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ تمام حلقوں کے لئے نقطہ التصال تھیں۔جس آسانی سے انہوں نے اپنے فرزند کو اپنی جگہ لارکھا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اصلاً وہی پارٹی ہیں۔راہول کو خاندان پرستی کے الزام کا احساس ہے۔ انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ کانگریس کی صدرات کے لئے کسی شخص کے انتخاب کابہتر طریقہ ہونا چاہئے۔
بہرحال خاندانی اقتدار راہل گاندھی پر ختم ہورہا ہے۔آج کانگریس پارٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاندان پر انحصار سے آگے نہ جاسکی۔ او رکسی حد تک عووام اب مزید خاندانی اقتدار کے طلسم کے جال میں نہیں گرفتار ہونے والے ہیں۔ راہل گاندھی مقبول نہیں باوجوداس کے وہ اپنے نانا نہرو کے مرتب کردہ کانگریسی اصولوں پر پوری طرح عمل کرتے ہیں۔
سونیاگاندھی کی بیٹی پرینکا عوام میں خاصی مقبولیت رکھتی ہیں۔ اس کی وجہہ غالباً یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر اندرا گاندھی کی یاد آتی ہے کو آج بھی عوام کے خیالوں میں بسی ہوئی ہیں۔یہ سب باتیں سچ ہیں لیکن پھر بھی کانگریس اپنی معنویت کھوچکی ہے او رلوگوں کو یہ یقین دلانے کے لئے پارٹی کو بہت محنت کرنی پڑے گی کہ وہ متبادل فراہم کرسکتی ہے۔ نوٹ بندی جیسے اقدامات ے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اب بھی قابل قبول ہیں۔
درحقیقت آج ملک میں نرم ہندوتوا کی فضاء چھائی ہوئی ہے ۔ ہندوستان کے تصور یعنی جمہوری اور سکیولرزم سیاست کو کسی طرح دوبارہ قابل قبول بنایا جائے ایسا صبر آزما کام ہے جس کا سامناآج کانگریس کو ہے۔یہی بات 2019کے پارلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اور بشمول کانگریس ملک کے عوام کو کسی سمت لے جاسکتی ہے ۔ پارٹی مسئلہ یہ ہے کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد وہ کئی الیکشن جیت نہیں سکی۔ گجرات میں بی جے پی اقتدار بجانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس سے سکیولر اعتدال پسند کو فکر مند ہونا چاہئے۔
بی جے پی قدم جماتی رہتی ہے اور کانگریس اپنی وہ اہمیت کھوتی جارہی ہے جواسے کبھی حاصل تھی۔دوران انتخابات راہل گاندھی نے پورے ملک کا دورہ کرکے تن تنہا لوگو ں کا سامنا کیا۔ سونیا گاندھی ان کے ساتھ نہیں تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے راہول گاندھی کو کانگریس کے نمائندے کی حیثیت سے قبول کرلیا۔ ان میں بھی اعتماد آگیا ہے اور وہ بے جھجھک عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ سونیاگاندھی خود کو مبارکباد دسے سکتی ہیں کہ جب انہو ں نے راہول کو صدر کی کرسی پر بیٹھایا ہے تو اسے سب لوگوں نے قبول کرلیا۔ یہ سچ ہے کہ خاندان کی شناخت تو نہیں ہٹی لیکن فیصلہ آمرانہ نہیں لگتا تھا۔راہول گاندھی پارٹی ورکروں کے ہمراہ کام کرچکے تھے۔ وہ ملک کے کئی مقامات پر گئے جہاں پارٹی کو درپیش مسائل پر بات چیت کرنے کے لئے وہ زمین پر بیٹھے۔
ہوسکتا ہے کہ راہل نے وہ مصائب نہ جھیلے ہوں جو پارٹی کے دیگر افراد نے برداشت کئے۔ لیکن ان میں اقدار کا احساس ہے۔ جسے پارٹی نے گذشتہ 150سال سے محفوظ رکھا ہے۔ کانگریس کے صدر کی حیثیت سے اس کی رہنمائی میںیہ بات انہیں توانائی بخشے گی۔ یہ ایک کانٹوں بھرا سفر ہے لیکن اگر انہیں بام عروج پر بیٹھنا ہے تو یہ راہ طئے کرنی پڑے گی۔