پہلے یہودیوں کا مارنے والے لوگ اب مسلمانوں کو مار رہے ہیں‘ کیا ہندوستان ہٹلر کا جرمنی بن رہا ہے۔روش کمار

جرمنی کی تمام راتوں میں نومبر9-10سال 1938ایسی راتیں رہیں جو آج تک نہیں گذری۔نہ وہاں پر ایسی راتیں دوبارہ گذری ہیں اور نہ ہی دنیا میں۔اُس رات کو کرسٹل نائٹ کہاجاتا ہے۔اُس رات کی آہٹ آج بھی سنائی دی جاتی ہے۔کبھی کبھی سچ میںآجاتی ہے۔

جرمنی میں یہودیوں کے قتل کے ہٹلر کا منصوبہ اسی روز جرمنی کی زمین پراتارگیا تھا‘ ان کا سب کچھ چھین لینا اور جرمنی سے بھگادینے کے ارادے سے۔جس کے خلا ف سالوں سے پروپگنڈہ کیاجارہاتھا۔سال 1938سے قبل اسی طرح کی چھوٹی موٹی وارداتیں پیش آرہی تھیں۔ان وارداتیوں کی مخالفت اور حمایت کے درمیان وہ لوگ ذہنی طور پر تیار کئے جارہے تھے جنھیں پروپگنڈے کا کامیابی کیساتھ نافذ کرنے کے لئے اگے چل کر ہتھیار بننا تھا۔ابھی تک یہ لوگ ہٹلر کی نانا قسم کی فوج اور تنظیموں میں شامل ہوکر ہیل ہٹلر بولنے میں فخر محسوس کررہے تھے۔ ہٹلر کے یہ بھگت بن چکے تھے۔

جن کے دماغ میں ہٹلر نے تشدد کا زہر بھردیاتھا۔ہٹلر کو اب کچھ بولنے کہنے کی ضرورت نہیں پڑی ‘وہ چپ رہا چپ چاپ دیکھتا رہا‘لوگ ہی اس کے لئے یہودیوں کو مارنے نکل پڑے۔ہٹلر کی خواہش لوگوں کی سنک بن چکی تھی۔ہٹلر کے نظریہ نے انہیں اٹوموڈ پر لادیا کہ اشارہ ہوتے ہی قتل عام شروع۔منیجر گیبلیس تک ہٹلر کے شاطراور خونی پروپگنڈے کی خبر پہنچ رہی تھی۔ان خبروں کو لیکر اس کی خاموشی او رکبھی کبھی مہم تیز کرنے کا زبانی حکم اس بات کی طرف اشارہ کررہاتھا کہ قتل عام جاری رکھنے دیناہے۔ہٹلرکی اس سینا کانام تھا ایس ایس‘ جس کے نوجوانوں کو جرمنی کے لئے خواب دیکھا یاگیا تھا۔سوپر پاؤ ر جرمنی ‘یوروپ کا بادشاہ جرمنی۔ سوپر پاؤر بننے کا خواب پھر لوٹ آیا ہے۔

امریکہ ‘ فرانس کے قائدین اپنے ملک کو پھر سے سوپر پاؤر بنانے کی بات کررہے ہیں۔’’ہمیں اس بات کو لیکر واضح رہنا چاہئے کہ ہم آنے والے دس سالوں میں ایک انتہائی حساس تصادم کا سامنا کرنے والے ہیں۔جس کے متعلق کبھی نہیں سنا گیا۔یہ صرف یہودیوں کا تصادم نہیں ہے بلکہ فرمسنوری‘ مارکسیوں‘ گرجاگھروں کے نظریہ کا بھی تصادم ہے۔میں مانتا ہوں کہ ان قوتوں کی روح یہودیوں میں جو تمام منفیت کی اصل ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی اور اٹلی کی تباہی نہیں ہوئی تو ان کی تباہی ہوجائے گی۔یہ سوال ہمارے سامنے برسوں سے ہے۔ ہم یہودیوں کو جرمنی سے باہر نکال دیں گے۔ہم ان کے ساتھ ایسا ظالمانہ رویہ برتیں گے جس کے متعلق کسی نے سونچا بھی نہیں ہوگا۔‘‘اس طرح کی تقریریں دنیا بھر کی الگ الگ زبانو ں میںآج بھی کی جارہی ہیں۔ہندوستان سے لیکر امریکہ تک میں۔

ایس ایس کے لیڈر ہیملر نے نومبر9سال1938سے چند دن قبل تنظیم کے قائدین اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ یہودیوں متعلق تشدد کے لئے تیار ہوجائیں۔تیاری پوری ہوچکی تھی۔نظریات نے اپنے قدم جمالئے تھے۔اب عمارت کے لئے صرف خون کی ضرورت تھی۔ہم تاریخ کے ظالموں کو فسطائیت یا فرقہ پرستی تک ہی محدود رکھ دیتے ہیں۔مگر ان صندوقوں کو کھول کر دیکھئے آپ کر انسانی ڈھانچے امڈ پڑیں گے۔جو پہلے ہوا وہ نہیں ہورہا ہے۔بہت کچھ پہلے سے کچھ زیادہ ٹھیک او رپیشہ وارانہ اندا ز میں کیا جارہا ہے۔نظریہ نے جرمنی کے ایک حصہ کی تیاری کردیاتھا۔ سال1938نومبر7کی رات کو پیرس میں ایک شخص کا قتل کردیاجاتا ہے ۔جس کے بہانے سارے جرمنی میں یہودیوں کے گھر جلادئے جاتے ہیں۔اس واقعہ سے ہٹلر اور گائبلس کے تیار انسانی دماغوں کو بہانا مل گیا جیسے ہندوستان میں 1984کے وقت بہانا ملاتھا۔ سال2002میں گجرات کے گودھرا سانحہ کے بعد بہانا مل گیاتھا۔نومبر 7کو پیرس میں جرمنی کے تیسرے لوگیشن سکریٹری کی ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔ مرنے والا کوئی اور نہیں پولینڈ نژاد ایک یہودی تھا۔گائبلس کے لئے تو اوپر والے نے جیسے دعاء قبول کرلی ہو۔اس نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ہتھیار کے بہانے سارے واقعہ کو یہودیوں کے خلاف بدل دیاجاتا ہے۔

یہودیوں کی پہلے سے ہی پروپگنڈے کے ذریعہ نشاندہی کی جارہی تھی۔انہیں دشمن کے طور پر پیش کیاجارہا تھا۔ چنگاری سلگ رہی تھی ‘ہوا کا انتظار تھا‘ وہ پورا ہوگیا۔ گائبلس نے انجام دینے کی تیاری شروع کردی۔اس کے اگلے دن جرمنی میں جو ہوا‘ اس کے ہونے کا شبہ آج تک کیاجارہا ہے۔پچھلی رات اٹھ سالوں سے ہٹلر نے جو فوج تیار کی تھی ‘اب اس سے کام لینے کا وقت آگیا تھا۔ اس کی فوج کو کھلا چھوڑ دیاگیا۔ پولیس کو کہہ دیاگیا کہ کنارے ہوجائیں‘بلکہ جہاں یہودیوں کی دوکانیں جلائی جارہی تھیں وہاں پولیس کو تعینات اس لئے کیاگیا تھا کہ جلنے کاکام ٹھیک ٹھاک طریقے سے ہوجائے ۔ سارا کام اس طرح انجام دیا گیا کہ لوگوں کو محسوس ہو کہ یہ عوام کے فطری غصے کا نتیجہ ہے۔اس میں حکومت او رپولیس کو کوئی قصور نہیں۔

عوامی غصہ کے نام پر جوخونی کھیل کھیلا گیا ہے اس کا رنگ آج تک تاریخی کے ماتھے سے نہیں اترا ہے۔یہ وہ دور تھا جب یوروپ میں جدیدیت شباب پر تھی او رجمہوریت کی بارات نکل رہی تھی۔گائبلس نے اپنی ڈائری میں لکھاہے کہ’’ میں الاٹ ٹاؤن حال میں پارٹی پروگرام میں جاتاہوں‘ کافی لوگ موجود رہتے ہی۔میں ہٹلر کی ساری باتیں سمجھا تا ہوں۔وہ طئے کرتے ہیں کہ یہودیوں کے خلاف مظاہرے ہونے دو۔پولیس سے پیچھے ہٹنے کو کہا۔ یہودیوں کو لوگوں کے غصہ کا سامنا کرنے دو۔میں فوری بعد پولیس اور پارٹی کو حکم دیتا ہوں۔پھر میں تھوڑے وقفہ کے لئے پارٹی پروگرام میں بات کرتاہوں۔خوب تالیاں بجتی ہیں۔ اس کے فوری بعد فون کی جانب بڑھتا ہوں۔ ا ب لوگ اپنا کام کریں گے‘‘۔آپ کو گائبلس کی باتوں کی آہٹ ہندوستان کے ساتھ دنیا بھر کے تمام اخباروں میں شائع ہونے والے مضامین میں سنائی دے سکتی ہے۔ ان مضامین میںآپ گائبلس کا چہرے اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔جرمنی میں لوگ بھیڑ بن کر خود گائبلس اور ہٹلر کاکام کرنے لگے۔جو نہیں کہاگیا وہ بھی کیاگیا اور جو کیاگیا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاگیا۔ایک خاموشی تھی جو حکم کے طور پر پھیلی ہوئی تھی۔اس کے لئے میڈیا کے ساتھ ساز باز کی گئی۔اس بات کا پورا بندوبست کیاگیا کہ ہٹلر جہاں بھی جائے ‘ ذرائع ابلاغ اس سے یہودیوں کے خلاف ہونے والی بربریت کے متعلق سوال نہ کرے۔ہٹلر خاموش رہنا چاہتا تھا تاکہ دنیا میں اس کی شبہہ خراب نہ ہو۔سخت بحران سے بچنے کے لئے اس نے یہودی وکلاکے بائیکاٹ پر دستخط توکردی مگر یہ بھی کہاکہ اس وقت اس کا زیادہ پرچار نہ کیاجائے۔

ویسے اب پروپگنڈے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہودیوں کے خلاف تشدد کے دورکا تیسرا مرحلہ شروع ہونے والا تھا۔سال1933کی شروعات میں جرمنی کے اندر50,000کاروباری تھے۔جولائی1938تک آتے آتے صرف نوہزار ہی بچ گئے۔ سال1938کے بسنت اور سردیوں کے بیچ انہیں کھل کر نکالنے کے منصوبے پر کام ہونے لگا۔میونک شہر میں1938تک 1690تاجر تھے‘ اب صرف چھ سو ہی بچے رہ گئے۔یہودیوں کے بنائے بینکوں پر قبضہ ہوگیا۔یہودی ڈاکٹر اور وکیلو ؤں کا سماجی بائیکاٹ کیاگیا۔سماجی بائیکاٹ کا عمل آج کے ہندوستان میں بھی مل جائے گا۔آپ اس سکے کو کسی بھی طرف سے دیکھ لیجئے‘ یہ گرتا ہے آدمی کے خون سے سینہ زمین پر۔یہودیوں سے کہاگیا کہ وہ پاسپورٹ پر Jلیکھیں۔یہودی مرد اپنے نام کے آگے اسرائیل اور عورتیں سورا لکھیں ‘ جس سے سب کو پتہ چل جائے گا کہ یہ یہودی ہیں۔نسل کی شناخت آج بھی نسل کی شناخت مہم کے نام پر سنائی دیتی ہی ہوگی۔چاہئے آپ کتنا بھی ردی اخبار پڑھتے ہونگے۔یہودیوں کے پوجا گھروں کو توڑا جانے لگا۔قبرستانو ں پر حملے ہونے لگے۔نومبر9کی رات کو نازی سینا نے میونک کے سینگونگ کو نذر آتش کردیا۔ کہاگیا کہ اس کی وجہہ سے ٹریفک میں خلل پڑرہا ہے۔

آگ بجھانے والے عملے سے کہاگیا کہ یہودیوں کے کسی عمارت میںآگ لگی ہے‘ جس پر پانی نہیں ڈالنا ہے‘ اس کے پڑوسی عمارتوں پر پانی ڈالنا ہے تاکہ جرمنی کے کسی آریان نسل کے لوگوں کا گھر اس کی زد میں نہ آسکے۔آگ بجھانے کی کوشش اس گھر پر کی گئی جہاں پر آگ ہی نہ لگی ہے۔یہی طریقہ اب دوسری شکل میں ہے۔آپ جنید کے قتل کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو پوچھیں گے آپ کشمیری پنڈتوں کے قتل پر احتجاج کب کریں گے۔بحرل نفرت کے جذبات پھیلانے میں جرمن کے پروفیسروں نے بھی سرگرم رو ل ادا کیا ۔وہ یہودیوں کا چرتر اور نفسیاتی تجزیہ پر مشتمل درس دے رہے تھے۔جیسے آج کے واٹس ایپ یونیورسٹی میں مسلمانوں کو بدنام کر نے کے تمام اسرار رموز کا جائزہ لیاجاتا رہتا ہے۔ جرمنی کے نوکر شاہ ایسے اراکین اسمبلی تیار کررہے تھے جس سے یہودیوں کی نشاندہی ہو۔ان کے بنیادی حقوق ختم کردئے جائیں۔ جولوگ یہودیوں کی حمایت میں بولے وہاں کی پولیس انہیں پکڑ کر لے جارہی تھی۔ دس میں جرمنی کو یہودیوں سے خالی کرنے کا حکم ہٹلر ‘ گائبلس کو دیتا ہے۔ سب کچھ لوگ کررہے تھے ‘ سرکاری کچھ نہیں کررہی تھی۔ سرکاری صرف لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے دے رہی تھی۔گائبلس یہودیوں سے پاک جرمنی کو انجام دینے کی تیاری کررہا تھا۔ وہ اپنی بے چینی سنبھال نہیں پارہاتھا۔ اس سے قبل وہ برلن کو یہودیوں سے پاک بنانے کے منصوبے پر کام کرتا رہتا تھا۔برلن میںیہودیوں کو عوامی پارک میں جانے سے روک ردیا۔لوگوں نے ان کی دوکانوں سے سامان خریدنا بند کردیا۔دوکانوں پر نشانہ لگادیا کہ یہ دوکان کسی یہودی کی ہے۔یہودیوں کے لئے علیحدہ شناختی کارڈ بنایاگیا۔

کوششی یہی کی گئی کہ ہرجگہ یہودیوں کی علیحدہ پہچان مقرر کی گئی تاکہ انہیں مارنے کے لئے آنے والے ہجوم کو ان کی شناخت میں غلطی نے نہ ہو۔آج کل لوگ خواہ مخواہ ادھار نمبر سے ڈر جاتے ہیں۔ جیسے تاریخ میں پہلے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ادھار کارڈ سے پہلے بھی تو یہ سب ہوچکا ہے۔اس کے بناء بھی تو ہوسکتا ہے۔ انشورنس کمپنیوں سے کہہ دیاگیا تھا کہ یہودیوں کے دوکانوں اور مکانوں کے نقصان کی پابجائی نہ کریں۔یہودیوں کو ہرطرح سے الگ تھلگ کردیاگیا۔جرمنی کا پولیس ہیڈکوارٹر اس نسل کشی کا مرکز بن گیا۔دوکانیں توڑی جانے لگی۔نومبر9-10کی رات کو یہودیوں کے گھر جلائے جانے لگے۔ ایس ایس کے لوگ ڈوانل کی طرح پھیل گئے۔ برلن میں پندرہ سینگینگ جلادئے گئے۔ ہٹلر حکم صادر کرتا ہے کہ 20-30000یہودیو ں کو فوری گرفتار کیاجائے ۔ جیل میں جگہ نہیں تھی اس لئے صرف مرد اور امیر یہودیوں کو ہی گرفتار کیاگیا۔جب اس رات گائبلس ہوٹل کے کمرے میں گیاتو اس کو یہودیو ں کے گھر وں کی کھڑکیاں توڑنے کی آوازیں آرہی تھیں‘ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا‘ شاباش شاباس۔ جرمنی لوگ اب مستقبل میںیا درکھیں گے کہ جرمن سیاست داں کے قتل کا مطلب کیاہوتا ہے۔ یا درکھنا سیاست آج بھی دنیا میں ہی رہی ہے۔ بلکل آپ کی آنکھوں کے سامنے۔ اور بہت حد تک اپ کے تعاون سے ہی۔نومبر1938کی اس رات سینکڑوں کی تعداد میںیہودیوں کا قتل کردیاگیا۔ عورتوں کو بچوں کو بری طرح زخمی کیاگیا۔ ایک سو کے قریب یہودیوں کے عبادت خانو ں کو برباد کردیاگیا۔اٹھ ہزار دوکانیں جلادی گئی۔بے شمار عمارتوں کو تہس نہس کردیاگیا۔ بڑے شہروں کے فوٹ پاتھوں پر شیشے کے ٹکڑ ے بکھرے ہوئے تھے۔

دوکانوں کا سامان سڑکوں پر بکھرا ہوا تھا۔یہودیوں کے عقید ے اور تاریخ سے جڑی ہر چیز کو برباد کردیاگیا‘ یہاں تک ان کے ذاتی تصوئریں بھی۔ا س رات بہت سارے یہودی مرد او رعورتوں نے خودکشی بھی کرلی۔بہت سارے لوگ زخمی ہوئے او ربعد میں دم توڑ دیا۔پولیس نے 30,000یہودیوں کو جبری ملک سے باہر نکال دیا۔ سب کچھ لوگ کررہے تھے۔ بھیڑ کررہی تھی۔ہٹلر ہجوم کو حکم نہیں دے رہا تھا۔جو ہجوم تیار ہوا تھا اس میں بے شما ر ہٹلر تھے۔نظریہ کے انجکشن کے بعد اسے کرنا یہی تھی کہ اپنے دشمن کو ختم کرنا تھا۔ جیسے ہٹلر کے ساتھ مسلسل پروپگنڈے کے ذریعہ بتارہے تھے کہ ہمارا دشمن یہودی ہے۔ یہودیوں کے خلا ف ہٹلر کا جرمنی میں لگاتاپروپگنڈہ چلا‘ جس کی وجہہ سے یہ کامیابی ہوئی۔بڑے بڑے مورخین نے لکھا کہ پروپگنڈہ اپنا کام کرگیا۔ہر طرح ایک ہی بات کی تشہیر ہورہی تھی۔دوسری بات کا وجود نہیں تھا۔لوگ اس پروپگنڈے کی سونچ میں ڈھلتے چلے گئے۔ لوگوں کو بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ ایک سیاست پروپگنڈے کے لئے ہتھیار میں تبدیل ہوگے ہیں۔ اور آج بھی تبدیل ہورہے ہیں۔جرمنی میں پولیس نے گولی نہیں چلائی بلکہ لوگ ہتھیار بن گئے۔ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں لیتے ہیں وہ آنے والے دنوں میں تاریخ کے لئے ہتھیار بن جاتے ہیں۔ پروپگنڈے کا ایک ہی کام ہے ۔ ہجوم کی تشکیل دینا۔ تاکہ خون وہ کرے اور داغ بھی اسے کے دامن پر ائے۔حکومت اور بڑے قائدین بے قصورنظر ائیں۔بھارت میں سب قتل کرنے والے ہجوم کو ہی قصور وار ٹھرارہے ہیں۔اس بھیڑ کو تشدد پر آمادہ کرنے والے پروپگنڈے میں کسی کا قصور نظر نہیںآتا۔کوئی اس بات کی تحقیق نہیں کرتا ہے جو بناء کسی حکم کے ہجوم بن جاتے ہیں اس میں شامل لوگوں کے دماغ کیسے زہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ہٹلر کو جرمنی بھیڑ کا فائدہ ہوچکا تھا۔ وہ جھوم رہاتھا۔ ہجوم اس کے مطابق بن چکاتھا۔ یہودی جیسے تیسے جرمنی چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ دنیا نے ان کے بھاگنے کا راستہ بھی بن کردیا۔خود کو مہذب کہنے والے ہجوم کے تئیں خاموش تھے۔یہی نہیں ہجوم سے متاثر ہوکر ہٹلر نے ایک نایاب قانون بنادیا۔یہودیو ں کو اپنے نقصان کی بھرپائی خو د ہی کرنے ہوگی۔

جیسے وہ خود اپنے دوکانوں اور مکان خود آگ لگا کر بیٹھے ہیں۔جب ہجوم کی حکمرانی بن جاتی ہے تب نفرت ہمارے دل دماغ پر حکومت کرنے لگتی ہے۔اس لئے کہتا ہوں کہ ہجوم مت بنائی۔اداروں کو تحقیقات اور جوابدہی نبھانے دیجئے۔جو قصور وار ہے اس کی جانچ ہوگی ۔ سزا ہوگی۔ حالانکہ یہ بھی قطعی راستہ نہیں ہے۔ ہٹلر کے جرمنی میں پولیس کو ہجوم کی حمایتی بن گئی تھی۔میری رائے میں ہجوم بنانے کا مطلب ہی ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ہٹلر کا جرمنی بنانا۔امریکہ میںیہی بھیڑ بن چکی ہے۔ہندوستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ ابھی ان واقعات کو یکہ دکا واقعہ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے۔ جرمنی میں پہلے دوسرے مرحلے میںیہی ہوا۔جب تیسرا مرحلہ تب اس کی خطرناک صورت سامنے ائی۔تب تک لوگ چھوٹی موٹی واقعات کے عادی ہوچکے تھے۔اسلئے ایسے کسی بھیڑ کو لیکر تشویش رہنی چاہئے۔اور چوکنا بھی۔ ہجوم کا اپنا دستور ہوتا ہے۔اپنا دیش ہوتا ہے۔ و ہ اپنے حکم اور شکار خود طئے کرتے ہیں۔دنیا میں لیڈروں کی خاموشی کی الگ ہی تاریخ لکھی جانی چاہئے تاکہ اس بات کا پتہ چل سکے کہ کس طرح ان کی خاموشی قتل کے حکم کے طور پر کام کرتی ہے۔

147THE RADICALISATION ENCOUNTERED NO OPPOSITION OF ANY WEIGHT148

میں جس کتاب سے آپ کے لئے قصے کے طور پر پیش کررہا ہوں‘ اس کو یہاں سلسلہ وار پیش آتے ہوئے دیکھ کر میں چونک گیا۔چونک اس لئے گیاتھاکہ ہندوستان کے اخباروں میں لوگوں کو ایسا کچھ پرھنے کا موقع نہیں ملا۔ہٹلر کی نازی فوج کی کسی بھی طریقے سے مخالفت ہی نہیں ہوئی۔ عام لوگ اپنی شرمندگی کا اظہار کرتے رہے ‘ان کے سماج میںیہ سب کچھ ہوا اور خود کو لاچار قراردیتے رہے۔جوبول سکتے تھے وہ خاموش رہے۔ اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کی بات سیکھانے والے گرجاگھروں کے قائدین بھی خامو ش رہے۔ دنیا کے کئی ممالک نے یہودیوں کو پناہ دینے سے منع کردیا۔ہم چپ ہیں کہ دل سن رہا ہے۔ یہ گیت آپ کے احساس کو جھنجھوڑتا ہے۔ سنئے۔

وزیراعظم نریندرمودی کاشکریہ کہ وہ اسرائیل دورے کے موقع پر ہالوکاسٹ میموریل گئے۔ نہیں جاتے تو اتنا کچھ یاد دلانے کے لئے نہیں ملتا۔انہوں نے میموریل میں صرف مارے گئے یہودیوں کو خراج پیش نہیں کیا بلکہ مارنے والے قاتل ہٹلر کو مسترد کیا۔وہاں جاتے ہوئے انہوں نے ہٹلر کی کرتوتوں کے نشانہ دیکھے ہونگے۔وزیراعظم کے یہ دورے صرف ان کے لئے نہیں ہوتے ہیں‘ ہمیں سیکھنے کے لئے بھی ہوتے ہیں۔ہم بھی اگر کچھ سیکھیں ۔ سمجھیں تو واقع یہ دنیا محبت کے رنگ میں رنگی ایک نظر ائے گی۔اسرائیل کا جیسا بھی ہوا ‘ یہودیوں کے ساتھ جو ہوا دنیا آج بھی اس کے لئے قصور وار ہے۔ مگر اسی اسرائیل پر فلسطین کے ساتھ بربریت او رنسل کشی کا الزام لگتا ہے۔ کیاتشدد کاشکار سماج اپنے اوپر ڈھائے گئے یا اس سے بھی کہیں زیادہ تشدد کی خواہش رکھتا ہے۔ تبھی گاندھی نے اہنسا پر اتنا زوردیا۔ آہنستا نفرت سے نجات کا راستہ ہے۔ ہم کب تک پھنسے رہیں گے